شارٹ کٹ کی تلاش میں۔۔۔روف کلاسرہ

منگل کے روز ارشد شریف، انور بیگ کے ساتھ لنچ کیا تو میں نے کہا: چل ارشد بھائی۔ بولے: کہاں؟ میں نے کہا: ناصر ملک، شکیل انجم اور دیگر چند دوستوں کو اسلام آباد پریس کلب الیکشن میں ووٹ ڈال کر آتے ہیں۔
پریس کلب پہنچے تو بڑی تعداد میں صحافی دیکھ کر ارشد شریف اور مجھے دھچکا لگا۔ ارشد شریف سینکڑوں صحافی دیکھ کر حیران ہوا۔ ارشد بولا: یار اسلام آباد میں اتنے صحافی ہیں؟ ہر طرف صحافی ہی صحافی تھے۔ پھر جب امیدواروں کے ناموں کی فہرست پڑھی تو مجھے لگا‘ شاید پورا پریس کلب ہی امیدوار ہے۔ صرف گورننگ باڈی‘ جس کی پندرہ سیٹیں ہیں‘ کیلئے نوے کے قریب امیدوار تھے‘ جن کے نام ڈھونڈنا بھی ایک بہت بڑا کام تھا۔
بہت دوستوں نے وہاں ووٹ مانگے تو جواب دیا: یار ہم تو شکیل انجم اور ناصر ملک کو ووٹ دینے آئے ہیں۔ باقی کچھ بندر بانٹ کر لیتے ہیں۔ ویسے میں سیکرٹری کی سیٹ پر امیدوار انور رضا سے متاثر ہوا‘ جو ہمارے استاد ناصر ملک کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے تھے۔ انور نے کہا: آپ واقعی انہیں ووٹ دیں‘ وہ آپ کے استاد ہیں‘ مجھے بھی مجبوری میں الیکشن ان کے مقابلے لڑنا پڑا۔ انور رضا نے جس طرح عزت اور بڑے دل کے ساتھ میری بات سمجھی، اس سے متاثر ہوا۔ یہاں تو کوئی منہ پر کہے کہ آپ کو ووٹ نہیں دوں گا تو بندہ پوری عمر کیلئے دشمن بن جاتا ہے۔ شاید انور رضا کا بڑا پن ہی اسے الیکشن جتوا گیا۔ باقی جس دوست نے راہ چلتے ووٹ مانگے، نام لکھ کر دیا انہی کو ووٹ دے آیا۔ پریس کلب کے دوستوں کی اتنی حجت تو بنتی ہے۔
شاید اسلام آباد کلب کے دو ہزار سے زائد ممبر ہیں۔ اعتراضات بھی ہوتے ہیں کہ اس فہرست میں ایسے لوگوں کو بھی صحافی بنا دیا گیا ہے جو صحافت کے علاوہ کچھ اور کاروبار کرتے ہیں۔ صحافت کی تعریف یہی کی جاتی ہے کہ صحافی کا اوڑھنا بچھونا صرف صحافت ہو اور وہ اپنی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہوں۔ اگر یہ فارمولہ سختی سے اپلائی کیا جائے تو پھر میرے خیال میں اسلام آباد میں شاید پچاس سو صحافی ہی اس تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اب صحافیوں کے درمیان یہ بحث اور لڑائی چلتی رہتی ہے کہ کون اصلی صحافی ہے اور کون دو نمبر۔ پروفیشنل صحافی یہ محسوس کرتے ہیں کہ دو نمبر صحافی آنے سے ان کا پیشہ بدنام ہو رہا ہے۔ وہ صحافت کو استعمال کرتے ہیں اور بدنام ہم سب ہوتے ہیں۔ صحافت کو جو بلیک میلنگ کی گالی دی جاتی ہے‘ وہ اکثر ایسے ہی نام نہاد صحافیوں کی وجہ سے پڑتی ہے جو اداروں کو پیسے دے کر پریس کارڈ بنوا لیتے ہیں اور پھر ہر جگہ کارڈ لے کر اپنے کام کرانے پہنچ جاتے ہیں۔ گاڑی پر پریس لکھوا کر پھر وہ خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
ارشد اس لیے حیران تھا کہ چند سال قبل تک دو تین سو صحافی پنڈی اسلام آباد میں ہوتے تھے۔ پھر ٹی وی چینلز آنے کے بعد تعداد میں اچانک اضافہ ہوا‘ اور ایسا ہوا کہ الامان۔ شروع میں ٹی وی چینلز کے لیے جتنے پروفیشنل صحافیوں کی ضرورت تھی وہ میسر نہ تھی جبکہ پرنٹ میڈیا کے صحافی ٹی وی کے قریب جانے کو تیار نہ تھے۔ میں خود ٹی وی کو پسند نہیں کرتا تھا‘ لہٰذا دس برس تک اس سے دور رہا‘ حالانکہ اس میں مشہوری اور پیسہ زیادہ تھا۔ پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی کی طرف آنا پڑا کیونکہ بہت جلد چینلز کو اندازہ ہو گیا کہ اخبار میں کام کرنے والے صحافی زیادہ ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خبر دینے سے پہلے پوری تفتیش اور تصدیق کر لی جاتی ہے۔ آج اگر آپ دیکھیں تو وہی صحافی ٹی وی پر بہتر شوز اور ریٹنگز لے رہے ہیں‘ جن کا بیک گرائونڈ رپورٹنگ کا ہے۔ جیسے محمد مالک، حامد میر، کاشف عباسی، ارشد شریف، عامر متین، ندیم ملک، عمران خان، ارشاد بھٹی، احتشام الحق، ضمیر حیدر، خاور گھمن۔ دھیرے دھیرے پرنٹ جرنلزم کے ان صحافیوں کو سکرین مل گئی جن کے پاس خبر ہوتی ہے۔ رپورٹر کو پتہ ہوتا ہے اس نے خبر کیسے دینی ہے اور وہی گفتگو کرنی ہے جو فیکٹس پر مبنی ہو۔ ہمارے جیسوں نے شاہین صہبائی، ضیاالدین، ناصر ملک سے برسوں مار کھائی اور صحافت سیکھی۔ اس کے مقابلے میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی اس فیلڈ میں آئی جو صرف ٹی وی کے گلیمر سے متاثر تھی۔ ان کے نزدیک ٹی وی طاقت، پیسے اور مشہوری کا شارٹ کٹ تھا اور صحافت ایک مشن یا جذبہ نہیں بلکہ شہرت کا شارٹ کٹ تھا۔
کبھی سی ایس ایس کرکے اے ایس پی، اسسٹنٹ کمشنر لگنا یا فوج میں کیپٹن ہونا بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ اس سے بھی طاقت‘ اور معاشرے میں عزت ملتی تھی۔ اب چینلز کے صحافی بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے۔ پہلے لوگ بچوں کو سی ایس ایس کی ترغیب دیتے اور سی ایس ایس افسران سے رشتے کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے تو اب ٹی وی بھی اس فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ اپنا بچہ صحافت میں ہو یا پھر کسی صحافی سے رشتہ بنا لیا جائے۔ یوں یونیورسٹیوں اور کالجز میں ماس کمیونیکیشن میں داخلے بڑھ گئے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply