افغان امن مذاکرات : خدشات اور امکانات۔۔۔۔ایمل خٹک

مسئلہ  افغانستان کے حوالے سے سفارتی کوششوں میں تیزی کے باوجود فوری طور پر کسی بریک تھرو کے امکانات معدوم ھورہے ھیں ۔ طالبان کی جانب سے ایجنڈا پر اختلافات کے پیش نظر قطر میں اگلے ہفتے ہونے والی بات چیت کی منسوخی کے اعلان سے افغان امن مذاکرات عارضی طور پر تعطل کا شکار ہوں گے  ۔ بات چیت کی منسوخی کی وجہ ایجنڈے پر افغان حکومت سے برائے راست بات چیت ، جنگ بندی اور جنگی قیدیوں کی رہائی پر اختلافات بتائے جاتے ہیں ۔طالبان کی جانب سے پہلے سرکاری وفد سے بات چیت سے مسلسل انکار اور پھر افغان امن مذاکرات کے اگلے  راؤنڈ کے اجلاس کی سعودی عرب سے قطر منتقلی کے مطالبے نے دلچسپ صورتحال پیدا کردی تھی ۔ طالبان کی ھٹ دھرمی سے نہ صرف طالبان بلکہ پاکستان کیلئے بھی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔

کافی عرصے تک خاموش رہنے کے بعد حال ہی میں سعودی عرب ایک بار پھر افغان مسئلے میں کافی سرگرم ہوچکا ہے۔ اور متحدہ عرب امارت کے بعد امن مذاکرات کا اگلا راؤنڈ عنقریب سعودی عرب میں ہونا تھا ۔ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے سعودی عرب نے طالبان سمیت افغان حکومت اور دیگر فریقین کے ساتھ بھی رابطے بڑھالئے تھے ۔ مگر طالبان کی جانب سے افغان حکومت سے براہِ  راست مذاکرات کیلئے سعودی عرب اور یو اے ای کا دباؤ قبول کرنے سے انکار اور قطر میں مذاکرات کے عندیا سے سعودی سفارتی کوششوں کو سخت دھچکا پہنچنے کا امکان ہے ۔

طالبان کو شاید سعودی عرب اور متحدہ امارت کی خفگی مول لینے میں اتنا  تردد نہ ھو مگر دو حوالوں سے طالبان کا موقف ان کی ناراضگی کا سبب بنے گا ۔ دونوں ممالک ماضی میں طالبان کے بڑے حمایتی رہے ھیں اور اب بھی بعض طالبان کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ دوسرا دونوں ممالک یعنی سعودی عرب اور امارات کے علاقائی حریف قطر کو مذاکرات کے عمل میں دوبارہ شامل کرنے والی بات شاید ان کو ہضم نہ ھوسکے۔

مخدوش معاشی صورتحال کی وجہ سے پاکستان نے حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اقتصادی بیل آوٹ کیلئے رجوع کیا ہے اور دونوں ممالک نے امداد دینے کے وعدے کیے ہیں۔ اس صورتحال میں افغان طالبان کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ امارات کو ناراض کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ نہیں ۔ افغان طالبان کی وجہ سے ماضی کی طرح اب پھر پاکستان پر بیرونی قوتوں کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ امارات کی طالبان سے خفگی اور ناراضگی کا پاک -سعودی یا پاک -امارات تعلقات پر اثر خارج از امکان نہیں۔ کینہ پرور عرب شیخوں کا غصہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی پر تو نکلے گا ۔

افغان امن مذاکرات کے حوالے سے فریقین یعنی پاکستان ، افغانستان ، امریکہ اور طالبان اپنے اپنے اتحادیوں کے علاوہ افغان مسلے کے حل میں دلچسپی رکھنے والے دیگر علاقائی اور عالمی قوتوں کو اعتماد میں لینے اور اپنا اپنا موقف ان پر واضع کرنے کیلئے زبردست سفارتی سرگرمیوں میں مصروف ھیں ۔ پاکستان نے چین ، روس، ایران ، ترکی اور قطر کو اعتماد میں لیا ہے ۔ افغانستان اور امریکہ نے انڈیا کو بھی اعتماد میں لیا ہے ۔ اس طرح طالبان نے ایران کے علاوہ روسی اور چینی سفارت کاروں سے رابطے کیئے ہیں ۔

افغان حکومت جو افغان بحران کا ایک اہم فریق ہے کو مذاکرات کے عمل سے باہر رکھنا باعث تشویش بات ہے۔
اس سے امن مذاکرات کے حوالے سے طالبان کی خلوص اور نیک نیتی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ طالبان کے  موقف میں یہ سختی مذاکرات کے عمل کو تعطل کا شکار بھی کرسکتی ہے ۔ شاید طالبان اور اس کے کچھ حمایتی حلقے چاہتے بھی یہی ہیں کہ مذاکرات کو کچھ عرصے کیلئے تاخیری حربوں سے ٹالا جائے ۔ اور طالبان کے سرپرست طالبان کارڈ کو اپنے سٹرٹیجک مفادات کے حصول تک استعمال جاری رکھنا چاہتے ھیں ۔

معلوم ہوا  ہے کہ جنگ بندی کے علاوہ عبوری حکومت کے قیام کی تجویز پر غور ہورہا ہے ۔ عبوری حکومت کے دوران نیا آئین وضع کیا جائیگا ۔ اور بیرونی افواج کے مکمل انخلاء کا عمل مکمل کیا جائیگا ۔ طالبان کو بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے لاتعلقی اور افغان سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ کرنے  کی یقین دھانی کرانی ھوگی اور فریقین جنگ بندی پر عملدرآمد کرانے کے  پابند ھونگے ۔ زیر غور تجاویز بعض علاقائی اور عالمی طاقتوں جیسے چین ، روس ، اور ایران وغیرہ کیلئے بھی قابل قبول ھونگی کیونکہ جنگ بندی ، طالبان کی غیرملکی دہشت گردوں سے لاتعلقی اور افغان سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف استعمال کی اجازت نہ دینے سے ان ممالک کے سیکورٹی کنسرن کی بھی تشفی ھوگی ۔

تبدیل شدہ سٹرٹیجک منظر نامہ میں افغان مسئلہ اس مرحلے پر پہنچ چکا ھے کہ طالبان کے پاس اب آپشنز کم ھیں ۔ طالبان کی ہٹ دھرمی نہ صرف ان کیلئے بلکہ اپنے حمایتیوں کیلئے بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہے ۔ بدقسمتی سے طالبان یا اس کے علاقائی حمایتی اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ اب حالات 1999/2000 سے بالکل مختلف ہیں ۔ اب پاکستان خود دہشت گردی کے ہاتھوں تباہی اور بربادی دیکھ چکا ہے اور رائے عامہ اب جہادی اور عسکریت پسند پالیسیوں سے نالاں اور اس کی مخالف ھوچکی ھیں۔ عسکریت پسندی کیلئے بیرون ملک سے سرکاری اور غیرسرکاری چینلوں سے آنے  والی امداد میں خاطر خوا ہ کمی آچکی ہے ۔ اور پاکستان کی معاشی صورتحال اب مزید جہادی مہم جوئی کی  متحمل نہیں ھوسکتی ۔ کئی حوالوں سے طالبان اب قیمتی اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ بن چکے ہیں جس کو پاکستان کے ناتواں کندھے اب اٹھانے سے قاصر ھیں ۔

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں فوجی کمی کرنے کے اعلان کو بعض حلقے اس کی کمزوری یا شکست سے تعبیر کر رہے ھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ امریکی انتظامیہ افغان مسلے کا فوری حل چاہتی ہے اور طالبان سے بامعنی مذاکرات کا عمل بھی اسلئے شروع کیا ہے ۔ مگر افغانستان کو بغیر مستحکم اور پرامن ہوئے    امریکہ کو موجودہ حالت میں ایسے چھوڑنا شاید اتنا آسان نہ ھو کیونکہ امریکی اسٹبلشمنٹ کے اندر بعض طاقتور حلقے اور بعض مغربی اتحادی بغیر سوچے سمجھے افغانستان میں قیام امن کے بغیر نکلنے کے حق میں نہیں ۔ امریکی پالیسی سازوں کے اندرونی اختلافات اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے مخالفت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان میں فوجی موجودگی کم کرنے کے اعلان کے فورا بعد امریکی انتظامیہ کی وضاحتی بیانات آئے کہ فوجی کمی کا ابھی تک فیصلہ نہیں ھوا ۔

یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ طالبان کے اس نئے موقف سے پاکستان کیلئے کیا اور کس قسم کی مشکلات پیدا ھوسکتی ہے مگر طالبان کا بڑا اور اھم حمایتی ھونے کی وجہ سے بین الاقوامی رائے عامہ اوربعض عالمی اورعلا قائی قوتیں یہ سمجھتی ہے کہ اوروں سے زیادہ پاکستان کا افغان طالبان پر بہت اثرورسوخ ہے اسلئے مغربی طاقتیں افغان امن مذاکرات کیلئے طالبان کو میز پر لانے کیلئے پاکستان پر عرصے سے زور دے رہی ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی کوششوں سے ان کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ناعاقبت اندیش پالیسیوں کیوجہ سے افغان جہاد کے دوران پاکستان کیلئے افغان عوام میں جو خیرسگالی کے جذبات پیدا ھوچکے تھے وہ ختم ھورہے ہیں ۔ طالبان دور میں طالبان کی حمایت کی وجہ سے غیر پشتون اور تعلیم یافتہ اور باشعور آبادی میں غم وغصہ بڑھا ۔ اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پشتون آبادی میں بھی خفگی بڑھی ۔ افغان مہاجروں کے ساتھ ناروا سلوک ، پاک -افغان بارڈر پر سختی ، بارڈر مینجمنٹ اور افغانستان میں مسلسل بدامنی سے خیر سگالی کے جذبات کمزور اور غم وغصہ بڑھ رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اچھا ہے یا برا مگر عام افغان پاکستان کی پالیسیاں افغانستان میں بدامنی کے  ایک سبب کے ساتھ ساتھ اس کو مسئلہ حل کرنے کا ایک عامل بھی سمجھتے ہیں ۔ افغان مذاکراتی عمل میں مثبت کردار ادا کرنے سے اب پاکستان کو ایک سنہری موقع ھاتھ آیا ہے کہ وہ افغان عوام میں اپنے لئے خیر سگالی کے جذبات کو دوبارہ بیدار کریں اور دشمنوں کو وہاں کھیل کھیلنے کے مواقع محدود سے محدود تر کریں ۔ ورنہ اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو افغانستان مخاصمانہ جذبات کو مزید پنپنے کا موقع ملے گا۔ اور علاقے میں کشیدگی اور مخاصمت کی فضا عرصے تک رہیگی ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply