ذوالقرنین کون؟۔۔۔۔سالم رحیم/قسط1

ذوالقرنین بادشاہ کا نام آپ نے ضرور سنا یا پڑھا ہوگا۔ میں اپنے لختِ جگر کا نام ذوالقرنین رکھ چکا ہوں۔ اس نام کے حوالے سے کئی بار احباب نے سوالات کیے تو مجھے بار بار حضرت ذوالقرنین کے قصے دہرانے پڑے۔ لیکن اس بار تو مفسرین کی تفسیروں کا ذکر ہی کروں گا اور آخر میں قرآن پاک کی “سورہ الکہف” کی ان آیات کا ترجمہ بھی تحریر کروں گا جن میں حضرت ذوالقرنین کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے مجھے تفسیر مودودی، تفسیر ابن کسیر اور تفسیر تقی عثمانی سے مدد لینا پڑی۔ آیئے آپ بھی پڑھیے لیکن اس حوالے سے آپ حضرات قارئین کرام، مولوی حضرات، مفتی حضرات، علما کرام، اساتذہ کرام، طلبا کرام، مفسرین، محقق، زانتکار، اہلِ قلم اور تمام مکتبہ فکر سے مزید معلومات کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ رہنمائی فرمائیں گے اور اگر کہیں غلطی ہوئی ہے تو درستگی فرمائیں گے۔ ملاحظہ ہو:

1:
کفارِ مکہ نے اہلِ کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ سے نہ بن پڑیں۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی بہ نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہوگئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔

یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لیے آئے ہو۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا، اسی نے اسکندریہ بنایا۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھا لے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا۔ اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے، وغیرہ۔

لیکن اس میں بہت طول ہے اور بیکار ہے اور ضعف ہے، اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں۔ تعجب ہے کہ امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب “دلائلِ نبوت” میں مکمل وارد کیا ہے۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا، یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا، وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندرِ اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے۔ آپ پر ایمان لایا تھا، آپ کا تابعدار بنا تھا۔ انہی کے وزیر حضرت خضر علیہ السلام تھے۔

سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم۔ اسی نے مملکتِ روم کی تاریخ لکھی۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام سے تقریبا تین سو سال پہلے تھا اور سکندرِ اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں دی تھیں۔

وہب کہتے ہیں یہ بادشاہ تھے چوں کہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا۔ یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سینگ سے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے، اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا۔ یہ لوگ مخالف ہوگئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے، اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے، اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی۔ ساتھ ہی قوتِ لشکر، آلاتِ حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی۔ عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے۔ ہر چیز کا اسے علم دے رکھا تھا۔ زمین کے ادنیٰ اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے۔ تمام زبانیں جانتے تھے۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی، اس کی زبان بول لیتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہر چیز کا سامان دیا تھا۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہے، اس لیے بھی کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کر دیا کرتے تھے، خواہ وہ جھوٹ ہی ہو۔ اسی لیے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو بارہا سامنے آ چکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بےسند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے۔

اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ ، خرافات ، تحریف ، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت؟۔ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں۔ افسوس، انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دیں اور فساد پھیل گیا۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہر بات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہیں دی۔

دیکھئے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں:

وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَہ ا عَرْشٌ عَظِيْمٌ: 23؁ ) 27- النمل:23

وہ ہر چیز دی گئی تھی، اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموما جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا۔ اسی طرح حضرت ذوالقرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں۔ ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عزوجل نے حضرت ذوالقرنین کو دے رکھے تھے، واللہ اعلم۔

Advertisements
julia rana solicitors

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق و مغرب تک کیسے پہنچ گئے؟۔ آپ نے فرمایا، سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دیے تھے اور پوری قوت و طاقت دے دی تھی۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply