غور طلب بات۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

کسی بھی معاشرے میں دو جنس کا آپس میں زندگی بھر کے لئے ایک باقاعدہ ترتیب و تدبیر کے ساتھ جُڑ جانے کو شادی کہتے ہیں، پوری دنیا میں شادی کا رواج و تصور صدیوں سے چلا آرہا ہے اور چلتا رہے گا، اس حقیقت سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ شادی ہی اصل میں انسانی نسل کی افزائش کا بنیادی و معتبر ذریعہ ہے، اور شادی کے بغیر انسانی نسل کی افزائش کا تصور قابل قبول نہیں خواہ وہ کہیں بھی کسی بھی قوم و معاشرے میں ہو، لیکن آج کل کے انسانی اذہان اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ انسان کو اس رشتے میں بندھنے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، اتنا عرصہ کہ جب تک ایک انسان مکمل طور پر خود مختار و کماو نا ہو جائے اس کا شادی کی طرف بڑھتا ہوا قدم اس کے مستقبل کو خطرات کی طرف دھکیل سکتے ہیں کیا سچ میں ہی ایسا ہے؟

آئے روز ملک کے کسی بھی اخبار میں آپ کو ایک مخصوص جگہ پر “اشتہار برائے شادی” دیکھنے کو ضرور ملیں گے، اور یہ اشتہار اس بات کی غماز ہوتی ہیں کہ شادی میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب سب ہی اس چکی میں پس رہے  ہیں.

ہمارا آج کل کا ذہن اس انداز سے بن چکا ہے کہ شادی اس وقت کی جائے جب بندہ خوب کامیاب ہو، اس کے پاس اچھی نوکری ہو، اچھی گاڑی ہو، ایک اچھا سا گھر ہو، اس کے مستقبل کو خطرات لاحق نا ہوں، بظاہر یہ سب باتیں ہر ایک ذی شعور کو کافی مفید لگتی ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ جو یہ سب قواعد و ضوابط اور شرائط بنائے گئے ہیں وہی اصل کامیابی کا راز ہیں، لیکن ایسا نہیں بلکل بھی نہیں، ان سب چاہتوں میں جہاں انسان کی معاشی نظام کی مضبوطی عیاں ہوتی نظر آتی ہے وہاں ایک عفریت بھی چھپا ہوتا ہے وہ ہے انسان کے ذہنی کیفیت میں انتشار اور بھروسے و امید کا فقدان اور سب سے زیادہ اللہ تعالی پر بھروسے کا خاتمہ، جن کی وجہ سے ایک تو انسان بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے دوسرا اس کی گھریلو زندگی بھی بہت متاثر ہوتی ہے، آپ خود سوچیں اگر کوئی انسان تیس یا پینتیس سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتا ہے تو اس کی اولاد اگر اللہ تعالی نے نصیب میں لکھی ہو تو، اس کے کس کام آئے گی؟

جس طرح کے انسانی زندگی کی مقدار آج کل ہے یعنی زیادہ سے زیادہ پچاس سال یا اگر رحمت الہی نازل ہوئی تو ساٹھ سال لیکن ان ساٹھ سالہ زندگی میں وہ پہلے تیس یا پینتیس سال تو وہ انتھک محنت میں گزار دیتا ہے اور اس کے بعد اگر اس کی اولاد ہوئی تو ان کے لئے ہر دن ہر رات سوچتا رہتا ہے، اس کی زندگی انہی سوچوں میں گزر جاتی ہے پہلے اپنے لئے پھر اپنی اولاد کے لئے.

اب اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم یہ دیکھیں تو صاف احکام دیئے گئے ہیں کہ بلوغت کے بعد شادی کرا دی جائے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اب اس بات میں تو دو رائے ہو نہیں سکتی  کہ اسلامی تعلیمات آج کے دور کے مسائل کی  صحیح ترجمانی نہیں کرتی ، کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کہ ہر ایک مسئلے کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان بری صحبت کے اثرات سے بچا رہتا ہے ان میں شعور کی  منازل طے کرنے کے لئے قوت جِلا پاتی ہے.

مغربی اذہان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان سب سے پہلے خود کو منظم کر لے خواہ اس میں پچاس سال کا وقت ہی کیوں نہ لگے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہر انسان کے پاس ایک منفرد مقام تک پہنچنے کے لئے وسائل نہیں ہوتے نہ ہی وہ پہنچ پاتا ہے، تو کیا وہ بھی برسوں انتظار کرتا رہے؟

شادی کی عمر اور اس کے بارے میں اسلامی دلائل یہ بات واضح کردیتی ہیں کہ خواہ آپ کو زندگی کی دوڑ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو لیکن ضروری نہیں کہ اپنی شادی کو اپنی کامیابی کے ساتھ مشروط کیا جائے، جس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ آج کل کے سائنسی انکشافات سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ زیادہ عمر میں شادی کرنے سے انسان میں تولید کے جرثومے کمزور پڑ جاتے ہیں ان کی وہ قوت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوتی ہے، جس سے ہوتا کیا ہے کہ ایک تو پینتیس سال میں شادی کرلی اور دوسری طرف معلوم ہوا کہ اولاد ہونے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.

اور اسی شوشے کی وجہ سے آج ہزاروں بہنیں بیٹیاں گھروں میں اپنے سفید بال لے کر کنواری بیٹھی ہیں کیونکہ جب شباب کا عالم تھا تب تو مقصد کامیابی تھی، جب اصل کامیابی کی طرف توجہ ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کامیابی کے امکانات معدوم ہو چلے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون کا مطلب یہ کہ ہر انسان کو اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا بہت ضروری ہے اور وہ اپنے  مستقبل کو سنوارنے کے لئے محنت کرتا رہے اور ضرور کرے محنت، لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے،کہ جن کی خوشیوں کے لئے وہ پینتیس سال سے یہ سب دوڑ دھوپ   کر رہا ہے کیا وہ ان کی خوشی دیکھنے کے لئے زندہ رہیں گے؟

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply