چھیاسی ہزار چار سو ڈالر۔۔۔۔اسرار احمد بخاری/آپ بیتی

یہ حقیقت کسی ملکوتی کلام اور کسی ڈیوائن گائنڈنس کی صورت یوں میری زندگی کی راہنماء بن جائے گی یہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔۔اگرچہ یہ ایک خواب ہی تھا ، بلکہ خواب کی ایک سیریز جسے سوچ کر بھی میرے جسم کا رواں رواں شاداں و فرحاں شکر خداواندی کے جذبے سے سرشار ہوجاتا ہے، یہ کیا تھا ، کیوں تھا، کیسے تھا زبان اس کے بیان سے عاجز ہے ۔
مختصر یہ کہ ایک ایسا پرکیف روحانی تجربہ جو تاعمر یاد رکھے جانے کے قابل ہے،

چھیاسی ہزار چار سو ڈالر یوں تو ایک رقم ہے لیکن ایک پراسرار خدائی رہنمائی کی صورت اس نے میری زندگی بدل کررکھ دی ۔ یہ حالیہ دنوں میں پیش آنے والا نیا روحانی تجربہ ہے جس کا آغاز ایک خواب سے ہوتا ہے،

چند ہفتے پہلے کی بات ہے میں نےخواب میں دیکھا کہ میں ائیرپورٹ کی انتظار گاہ – ویٹنگ ایریا – میں کھڑا اپنے بڑے بھائی کا انتظار کررہا ہوں جو بیرون ملک سے پاکستان آرہے ہیں ، ان کا جہاز لینڈ کرگیا ہے اور اب وہ اررائیول لاونج سے باہر آنے ہی والے ہیں، میری نگاہیں کبھی گھڑی کی طرف اور کبھی لاونج کی طرف بےچینی سے ان کو تلاش کررہی ہیں ، ایسے میں اچانک ایک بڑے میاں جن کی عمر لگ بھگ 90/ 95 سال ہوگی ایک بریف کیس تھامے اور ایک عدد سوٹڈ بوٹڈ اسسٹنٹ کے ہمراہ لاونج سے سیدھے باہر آئے اور میرے سامنے آکر اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا،

میں نے ایک دم غیرارادی طور پر ان کا ہاتھ تھام کر انہیں السلام علیکم کہا، انہوں نے جس لینگوئج میں جواب دیا وہ میری سمجھ میں نا آسکی، اتنے میں ان کے اسسٹنٹ نے انگریزی میں مجھ سے کہا کہ ” آپ ہی سید اسرار احمد ہیں؟” میں نے کہا.. یس!

انہوں نے بس میرا نام سننا تھا ایک عدد نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس میری جانب بڑھایا اور کہا یہ چھیاسی ہزار چار سو ڈالر آپ کی امانت ہے، گزارش ہے اسے رکھ لیجئے اور رسید پر سائن کردیں۔۔۔۔
جی؟؟!!
میں سمجھا نہیں!!
میرا حیرت میں آجانا بالکل فطری امر تھا، لیکن وہ دونوں صاحبان انتہائی اطمینان کے ساتھ سوالیہ نظروں سے میرے چہرے کی جانب دیکھنے لگے گویا میں اُن کی اس عجیب و غریب آفر کو قبول کرلوں گا،
دفعتاً  منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ جیسے خیالات دماغ میں کلبلانے لگے اور عرض کیا ۔۔۔بھائی کیوں منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کروانے کا ارادہ ہے؟ میں آپ لوگوں کو نہیں جانتا اور نا ہی یہ رقم کسی طور میری ہوسکتی ہے، آپ کو یقیناً دھوکہ ہوا ہے، آپ کسی اور شخص کی تلاش میں ہیں،
یہ سُن کر وہ اسسٹنٹ مسکرایا اور مجھے میری تعلیمی قابلیت اور میری مصروفیات گنوانے لگا، حیرت انگیز طور پر سب کچھ لفظ با لفظ درست تھا، اب تو مجھے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی کہ نامعلوم کس مافیا کے لوگ ہیں جو اس درجہ تفصیل سے میرے متعلق جانتے ہیں، اسی شش و پنج میں تھا کہ ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔۔۔
حیران و پریشان چند سیکنڈز تک ساکت رہا اور خود کو بستر پر پاکر خوش اور مطمئن ہوا کہ یہ الحمدللہ خواب ہی تھا کوئی حقیقت نہیں۔۔۔بےاختیار زبان سے نکلا۔۔۔ شکر الحمد للہ!

خیر یہ خواب گزرگیا، لیکن اُس دن اور چند اور دن تک میں اس کے بارے میں سوچتا رہا کہ یہ آخر تھا کیا۔۔۔

چھیاسی ہزار چار سو ڈالر کی رقم ، اور ایک اجنبی انسان کا میری تعلیم و مصروفیات سے مکمل آگاہ ہونا ،،، یہ سب بہت عجیب تھا، میرا آڈیٹر مائنڈ خاص طور سے 86400 ڈالر کی رقم پر فوکسڈ تھا کہ اس مخصوص رقم کی کیا خاص اہمیت ہے؟
ایسا کیوں نہیں ہوا کہ رقم پورے 86000 ڈالر ہوتی، یا 80 ہزار / 90 ہزار ڈالر کی صورت میں راونڈ فیگر ہوتی۔۔۔۔ یہ 86،400 کی رقم کچھ عجیب معنویت رکھتی ہے،

ہو نا ہو اس رقم ، اس فگر میں کچھ نا کچھ ایسا ہے جو اہمیت کا حامل ہے، منفی یا مثبت ابھی میرے علم میں نہیں ، لیکن ہے بہرحال اہم۔۔۔

کچھ دن انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں رہا اور پھر تقریبا” 4 سے 5 دن بعد ایک اور خواب دیکھا جس میں میں ایک ٹرین میں کسی نامعلوم منزل کی جانب محوِ سفر ہوں اور میری اردگرد کی نشستوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہیں جو سب مل کر مجھے کسی زبردست پراجیکٹ کی منفعت اور افادیت سمجھا رہے ہیں، ہرشخص مجھ سے 86،400 ڈالر انویسٹ کرنے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے کہ اس رقم کو انویسٹ کئے بغیر کامیابی کی کوئی دوسری صورت نہیں ہے!
زہن ایک بار پھر حیران تھا کہ آخر اس اماؤنٹ میں ہے کیا؟!

اور یوں اس دوسرے خواب نے چھیاسی ہزار چار سو ڈالر کی حقیقت جاننے کی شدت کو دو چند بلکہ سہ چند کردیا،

پراسراریت کچھ اسطرح قائم تھی کہ اب تو چلتے پھرتے بھی کبھی کبھی بےدھیانی میں زبان 86،400 کا ورد شروع کر دیتی، اور میں دعا و مناجات میں لگ جاتا کہ خدا خیر کرے معلوم نہیں اس مخصوص رقم میں ایسی کیا رہنمائی یا تنبیہ چھپی ہوئی ہے جس کو میں سمجھنے ہی سے قاصر ہوں!!

یہ کیفیت اور پراسراریت مزید چند روز قائم رہی، چھیاسی ہزار چار سو ڈالر کا معمہ لاینحل حالت میں زہن کے ایک گوشے میں ہر وقت ساتھ ساتھ رہنے لگا! اایسے میں کسی شام ایک پرانے دوست کی کال unknown نمبر سے موصول ہوئی جو چند روز قبل بیرون ملک سے پاکستان آیا ہوا تھا، اس طویل عرصے بعد اس پرانے دوست کی یوں اچانک کال سے بےحد خوشی ہوئی اگلے ہی اتوار اُس دوست کے گھر پر ملاقات کا پروگرام طے پا گیا

وقت مقررہ پر ہم پہنچے، الحمد للہ اچھی گپ شپ رہی، تقریباً ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ کمرے میں ایک سات / آٹھ سال کی بچی داخل ہوئی اور میرے دوست کی جانب متوجہ ہوکر گویا ہوئی
” چاچو ایک کوئسچن نہیں solve ہورہا پلیز ہیلپ می! ”
یہ ظاہر ہے اس کی بھتیجی تھی جو کسی نوٹ بک میں لکھے سوال کہ جانب اشارہ کرکے اسے اپنے چاچو سے سمجھنا چاہتی تھی،
چاچو صاحب نے بجائے خود سمجھانے کے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘ بیٹا یہ والے چاچو اچھا سمجھاتے ہیں ان سے سمجھ لو یہ ٹیچر بھی ہیں!
بچی کچھ بیزار سی صورت بنائے میرے پاس آگئی، میں نے بچی کو پاس بٹھایا اور نوٹ بک اپنے ہاتھ میں لے لی!

یہ ایک چھوٹا سا میتھمیٹکس کا سوال تھا جسے بغیر کیلکولیٹر کے حل کرنا تھا،
سوال یہ تھا
How many seconds are there in a day?
ایک دن میں کتنے سیکنڈز ہوتے ہیں؟

میں نے چند سیکنڈز کے لیے سوچا اور کہا ” بیٹا یہ تو بہت آسان سوال ہے، میں آپکو سمجھا دیتا ہوں solve آپ نے خود کرنا ہے ”

بچی نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا ” ٹھیک ہے ”

میں گویا ہوا ” بیٹا جب کیک بڑا ہو تو اسے کیسے کھائیں گے؟  بچی نے کہا hmm pieces کرکے!

گڈ!…بس یہ سوال بھی ایسا ہی، آپکو ایک بڑے سے کیک کے چھوٹے چھوٹے pieces کرنے ہیں،
اب میں آپکو بتاتا جاتا ہوں، آپ پیسز کرنا شروع کردیں،
اس کے بعد جملوں کا تبادلہ ان الفاظ میں ہوا

میں : پہلا piece : یہ بتائیے کہ دن اور رات میں کُل کتنے گھنٹے ہوتے ہیں؟
بچی: 24 گھنٹے!
میں : گڈ!!..دوسرا piece ایک گھنٹے میں منٹس کتنے ہوتےہیں؟
بچی : ہمممم 60 منٹس!
میں : شاباش… اب تیسرا piece : ایک منٹ میں کتنے سیکنڈز ہوتےہیں؟
بچی : وہ بھی 60 ہی ہوتے ہیں؟
میں : ویری گڈ!…. اب 60 سیکنڈز کو 60 سے ملٹی پلائے کرو..
بچی : چند لمحوں کے بعد : آنسر ہے 3600
میں : شاباش… یہ ہوگئے ایک گھنٹے میں 3600 سیکنڈز!!!
اب تو جواب آسان ہوگیا، اب آپ 3600 سیکنڈز کو 24 hours سے ملٹی پلائے کرو.

بچی نے چند منٹ لیے اور جواب میری آنکھوں کے سامنے کردیا…

جواب تھا : 86,400 چھیاسی ہزار چار سو

یہ جواب دیکھتے ہی مجھے ایک زوردار جھٹکا لگا، ایسا لگا کسی نے میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو، میرا سر چکرانے لگا، گزشتہ خواب میرے دماغ میں فلم کی طرح چلنے لگے اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا،
میں نے بے اختیار دوست کو اشارے سے پانی لانے کو کہا، میری گھبراہٹ اور عجیب و غریب ری ایکشن کو دیکھ کر بچی بھی پریشان ہوگئی کہ پتہ نہیں اس نے کیا غلطی کردی!! میں نے موبائل فون پر کیلکولیٹر نکال کر آنسر کو بار بار چیک کیا وہ 86,400 ہی تھا،

میں نے تقریباً چیختے ہوئے بچی سے کہا بیٹا آپ نے تو کمال کر دیا، میری الجھن حل کردی، مائی گاڈ، آئی ایم سوووووووو تھینک فل ٹو یو!! میں دیوانہ وار اس کا شکریہ ادا کرتا رہا اور بچی حیرت زدہ میری شکل ایسے دیکھتی رہی جیسے میں واقعی پاگل ہوں یا ایکٹنگ کررہا ہوں ، اُف، اُف، اُف!

اتنے میں دوست پانی لے کر آیا اور میری عجیب و غریب ایکسائٹمنٹ دیکھ کر ہنسنے لگا،
” او بھائی کیا ہوگیا خیر تو ہے ”

میں نے تصدیق کے لیے اپنے آپ کو ہلکے ہلکے چانٹے مارے،  چیونٹیاں کاٹی کہ پتہ نہیں یہ بھی کوئی خواب تو نہیں!
خیر.. دوست کا تجسس عروج پر تھا، اسے خوابوں کی تفصیلات اور 86,400 ڈالر کی کہانی سنائی… وہ بھی دنگ رہ گیا کہ واقعی یہ تو ڈیوائن سگنل ہے.

مجھے اس تمام تر صورتحال سے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہی کہ اللہ رب العزت ان خوابوں سے مجھے وقت کی اہمیت سمجھانا چاہ رہے تھے، زاتی زندگی کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوا کہ میری سب سے بڑی کمزوری ان دونوں ٹائم مینجمنٹ کی کمی تھی!

وقت بلاشبہ ایک بیش قیمت دولت ہے جس کو ہم انتہائی بےدردی سے ضائع کرتےہیں، میں ایک فائنینس پروفیشنل ہوں اسلیے خواب بھی انویسٹمنٹ سے متعلق تھے یہیں سے ٹائم از منی کا کانسپٹ اسطرح وجدان میں اترگیا کہ کسی لیکچر یا رہنمائی کی چنداں ضرورت نا رہی، فی الفور اپنی زندگی کے تمام معاملات کا شیڈول بنایا اور محض اللہ کی توفیق سے اس پر قائم ہوگیا،

اس موقع پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وہ حدیث یاد آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،

آپ نے فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدر انسان کو ان نعمتوں کے چھن جانے کے بعد ہوتی ہے،

Advertisements
julia rana solicitors

ایک وقت۔۔
اور دوسری صحت!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply