مولانا طارق جمیل اور عمران خان ۔۔۔۔۔آصف محمود

عمران خان کے ساتھ مولانا طارق جمیل کے تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے ؟ آپ چاہیں تو اسے یوں پڑھ لیں کہ ایک حکمران کے ساتھ ایک داعی کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

ہمارے ہاں علماء اب محض دعوت تک محدود نہیں ، وہ میدان سیاست کے شہسوار بن چکے ہیں اور پاکستان کی داخلی سیاست کی ایک اہم حقیقت ہیں ۔ اب معاملہ یہ ہے جب علماء نے سیاست کا رخ کیا تو وہ گویا کشمکش اقتدار میں باقاعدہ ایک حریف بن گئے۔اقتدار کی کشمکش کا تقاضا یہ ہوتا ہے سیاسی حریف کو کسی بھی طرح سے مات دی جائے ۔ یہ گویا مفادات کے تصادم کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں خیر خواہی نام کی کوئی چیز کم ہی ظہور کرتی ہے ۔ بنیادی خواہش یہی ہوتی ہے حریف کو چاروں شانے چت کر دیا جائے اور اپنے لیے اقتدار تک راستہ ہموار کیا جائے ۔ اس لیے الزام تراشی بھی گوارا ہے اور نیم خواندہ سماج میں اپنا ووٹ بنک بچانے کے لیے ایک مسلمان حریف کو یہودی ایجنٹ کہنا پڑے تو ایسا کرتے ہوئے خدا کا خوف دامن گیر نہیں ہوتا ۔ یہ کشمکش بڑی ظالم چیز ہے ، سید مودودی جیسے جلیل القدر عالم دین نے اسی کے زیر اثر بھٹو کے خلاف ایک انتخابی معرکے کو ’’ بعینہ غزوہ تبوک ‘‘ قرار دے ڈالا تھا۔

ایک دوسرا رویہ بھی ہے۔ یہ ان علماء کا رویہ ہے جو کشمکش اقتدار کے حریف نہیں ۔ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے نہ وہ کسی کے مخالف ہیں ۔ ان کا تعلق صرف اور صرف خیر خواہی پر مبنی ہے ۔ وہ سب کے لیے سراپا خیر ہیں ۔ انہیں کسی کو مات نہیں دینی ۔ وہ کسی سے معاملہ کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ کہیں خود کو سیاسی نقصان نہ ہو جائے ا ور دوسرا کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھا لے۔ یہ صرف داعی ہیں اور داعی کسی اقتدار کی کشمکش کا حریف ہوتا ہے نہ تاج و تخت اور عہدوں کا امیدوار ۔ داعی کا بنیادی کام سیاسی مفادات کا اندھا دھند تعاقب نہیں بلکہ انذار کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے. ۔

جب آدمی کشمکش اقتدار کا ایک باقاعدہ حریف ہو تو وہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق ہوتا ہے ۔ یہ دونوں حضرات بھلے صاحبان علم ہی کیوں نہ ہوں ، ان کی بنیادی شناخت ایک داعی کی نہیں بلکہ کشمکش اقتدار کے باقاعدہ حریف کی ہے ۔ لیکن جب آدمی اقتدار کی صف بندی سے بے نیاز ہو کر صرف ایک داعی کے طور پر کام کر رہا ہو تو وہ مولانا طارق جمیل ہوتا ہے ۔ یہ دو مختلف میدان ہیں ۔ ہر میدان کے آدمی کا رویہ دوسرے سے مختلف اور جدا ہے ۔ اس لیے ان دونوں رویوں کو ایک پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا ۔ دونوں کے تقاضے بھی الگ ہیں اور معیار بھی جدا۔

اقتدرا کی کشمکش کے حریف کی ترجیحات ایک داعی کی ترجیحات سے مختلف ہوتی ہیں ۔ داعی کسی کا برا نہیں سوچ سکتا لیکن اقتدار کی کشمکش کے حریف کا زہرہ اس تصور ہی سے آب ہو جائے کہ سیاسی حریف کے لیے اچھا سوچے ۔ داعی سراپا خیر ہوتا ہے لیکن اقتدار کی جدو جہد کا اولین تقاضا ہی دوسرے کی دھجیاں اڑا دینا اور اسے عوام کی نظروں میں رسوا کر کے خود کو معتبر کرنا ہے ۔ داعی صرف اللہ کی طرف بلاتا ہے جب کہ اقتدار کی کشمکش کا حریف اپنے گروہ اور اپنے انتخابی نشان کی طرف بلاتا ہے ۔ داعی کسی کے پاس جاتا ہے جو اس کے پیش نظر صرف اللہ کے پیغام کا ابلاغ اور مخاطب کو نجات کی طرف بلانا ہوتا ہے لیکن کشمکش اقتدار کا حریف اپنے مخاطب کو اپنے سیاسی جھنڈے تلے اکٹھا ہونے کی دعوت دیتا ہے ۔

مولانا طارق جمیل داعی ہیں ۔ عمران خان مولانا فضل الرحمن کا حریف ہو سکتا ہے مولانا طارق جمیل کے لیے وہ حریف نہیں ۔ مولانا فضل الرحمن عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے یہ سوچ کر کانپ جائیں کہ اس سے عمران خان کو سیاسی فائدہ حاصل ہو جائے گا لیکن طارق جمیل صاحب کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی ضرورت ہو سکتی ہے کہ عمران خان کے ہر اقدام کو دین دشمن بنا کر پیش کیا جائے تا کہ وہ آئندہ مذہب پسند طبقے کی نفرت کا شکار بن جائیں اور مولانا کا ووٹ بنک محفوظ ہوجائے لیکن مولانا طارق جمیل کی ایسی کوئی ترجیح ہے نہ انہیں اپنا ووٹ بنک ضائع ہونے کا کوئی خوف دامن گیر ہے ۔ چنانچہ اب یہ لازم ہے کہ عمران خان جتنے مرضی اچھے کام کر لے وہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی لغت میں یہودی ایجنٹ ہی رہے گا کیونکہ کشمکش اقتدار کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن مولانا طارق جمیل اس کشمکش سے بے نیاز ہیں اس لیے انہیں عمران کے بارے میں کلمہ خیر کہنے میں کوئی تردد نہیں ۔ یہاں اہل علم اور علمائے کرام تقسیم اقتدار کے فارمولے طے کرنے کے لیے کس کس حکمران سے نہیں ملے اورکس کس کے حق میں’ فرمان بکف‘ نہیں ہوئے؟ تب اسلام خطرے میں کیوں نہیں پڑا ؟ یہاں غالبا خوف یہ ہے کہ عمران کے حق میں مولانا طارق جمیل کا یہ بیان کہیں ہمارے پہلے سے سکڑتے ووٹ بنک پر مزید برا اثر نہ ڈالے۔

عمران خان کا طرز حکومت کہاں اور ریاست مدینہ کہاں ؟ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے ریاست مدینہ ہی کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے اور اس اظہار بھی بار بار کیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن سمیت عمران کے جملہ مخالفین اور ناقدین کے نزدیک ریاست مدینہ کی بات عمران خان کا سیاسی بیان ہو سکتا ہے لیکن طارق جمیل جیسے داعی کو یہی زیبا ہے کہ ایسے مواقع پر عدیم ہاشمی بن جائے:
’’ اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا‘‘

دلوں کا حال اللہ جانتا ہے ، لیکن بات تو عمران مدینہ کی ریاست کی کر رہا ہے ۔ اب ایک داعی بد گمانی کا اظہار کر کے اسے مکر جانے کا موقع کیوں دے ؟ وہ خوش گمانی کی ڈوری سے اسے باندھ لے تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا طارق جمیل ویڈیو پیغام میں کچھ زیادہ ہی عمران کے حق میں بول گئے اور انہیں ایک داعی کے طور خیر خواہی ضرور کرنی چاہیے لیکن یہ احتیاط بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ خیر خواہی کے تقاضے نبھاتے نبھاتے کہیں وہ کسی ایسے آدمی کے پلڑے میں وزن تو نہیں ڈال رہے جو نہ صرف کشمکش اقتدار کا حریف ہے بلکہ اس وقت حکمران بھی ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاق و سباق میں وہی مدینے کی ریاست کا وعدہ کھڑا ہوا ہے ۔ آپ اسے حسن ظن کہ لیں ، اتمام حجت کا نام دے لیں یا مکرنے نہ دینے کی ایک کوشش سمجھ لیں ۔لیکن یہ کوئی ایسی بات نہ تھی کہ طوفان ہی کھڑا کر دیا جاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیے بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply