فرقہ ، فرق اور تفرقہ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

فرقہ ‘ فرق سے ہے۔ اصل سے فرق‘ فرقے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ مکاتب و مسالک کا مختلف ہونا کچھ عیب نہیں۔ مکاتب ِ فکر دراصل دینی حقائق کو سمجھنے کے ہمارے اپنے  اپنے شعوری درجے ہیں۔ دین کا اصل باطن ہے   اور باطن اپنی اصل میں ایک تجریدی حقیقت ہے۔ اس تجریدی حقیقت تک پہنچنے کے لیے جس ذی شعور نے اپنی شعور کی کمند جہاں تک پھینکی ٗوہاں تک کا منظر اُس کی فکر نے آنک لیا۔ ہمارے شعور کی آنکھ میں بے پناہ صلاحیت پنہاں ہوتی ہے۔ اس خفتہ صلاحیت کو ہم اپنے گروہی اور مسلکی تعصب کی رنگین عینک پہننا کر خود ہی گہنا دیتے ہیں۔ ہم محبت اور تعصب میں فرق نہیں کر پاتے۔ جسے ہم محبت کا نام دیتے ہیںٗ بسا اوقات وہ کسی اور جگہ سے منافرت اور مناقشت کا ردّ عمل ہوتا ہے۔ یوں ہم بہت آسانی سے اپنے تعصب کو محبت کا نام دے دیتے ہیں اور اِس وہم اور زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم دین سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ دراں حالے کہ دین سے محبت دراصل دین والے  سے محبت ہے۔ دین کے وارثوں کو تج کرنے کے بعد ہم لاکھ تفسیریں لکھ دیں، سیکڑوں توجہیات گھڑ لیںٗ دین کی روح تک نہیں پہنچ سکتے۔ تعصب کا کاٹھ کباڑ اُٹھائے ہم دَر دَر بلکہ دَربدر گھوم رہے ہیں اور کوئی ذی شعور ہمارے لیے دروازہ نہیں کھولتا۔ تب اپنی مخالفت کو ہم دین کی مخالفت پر تعبیر کر لیتے ہیں۔ یہ دنیا ذی عقل لوگوں کی بات سنتی ہے۔ تعصب اور نفرت عقل کے دشمن ہیں۔ کہا گیا کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ تکبر اور عقل کا بھی ایک اَزلی بَیر ہے۔ تعصب دراصل تکبر کی اجتماعی ہیئت کا نام ہے۔ تعصب اور تکبر ایسے جرائم کا کفارہ ادا کرنے کے لیے طرح طرح کے ظاہری رسوم و رواج اور تراش خراش میں خود کو پیش کرنا ہماری مجبوری بن جاتی ہے۔ بسا اوقات اپنے مخالف مسلک کی مخاصمت ہمیں حق بات تسلیم کرنے سے مانع ہو جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں’’ فرقہ پرست ‘ حق پرست نہیں ہوتا‘‘۔

دین ہمیں باطنی جہت سے مخاطب کرتا ہے۔ اگر باطن درست ہو جائے تو ظاہر کا درست ہونا فوری اور فطری ہے۔ باطن سے ظاہر تک پہنچنا قدرے آسان ہے لیکن ظاہر سے باطن میں پہنچنا ایک کارِ دشوار ہے۔ ظاہر اور باطن میں فرق انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ یہ فرق اگر قصداً کھڑا کیا جائے تو منافقت کہلائے گا، اگر سہواً سرزد ہو رہا ہو تو قابلِ معافی ہے کہ یہ کمزوری ، کم علمی اور ایک فرصتِ مہلت میں شمار ہوگا۔ دین کی روح تک پہنچنے کے لیے ہمیں باطن کی خوشبو تک پہنچنا ہوتا ہے۔ روح کے بغیر جسد ایک جامد بوجھ کے سوا کیا ہے؟ روح دَر آئے تو یہی بے جان جسمٗ جان دار ہے اور ہزاروں جانداروں کا کفیل ہے۔ روح سے دستبردار ہو کر ہم خود کو زندوں سے نکال کر مُردوں میں داخل کر رہے ہوتے ہیں۔ روح— رب کے اَمر سے ہے۔ روح سے دستبرداری اُولی الامر کی پہچان میں دشواری پیدا کرتی ہے۔ ظاہر پرست لوگ تخت پر براجمان بادشاہوں کو ظلِ سبحانی کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر کی خوگر آنکھ دین کو بھی محض ایک نظام کے نفاذ کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔ ظاہر پرست لوگ کے نزدیک گویا اسلام بھی ایک “ازم” ہے، اور وہ اس کا مقابلہ خاکی انسانوں کے بنائے ہوئے “کمیون ازم” ،’’ سوشل ازم‘‘ اور’’ کیپیٹل ازم‘‘ سے کرتے رہتے ہیں، حالانکہ” چہ نسبتِ ایں خاک را با عالمِ پاک ! یہ مقابلہ اور موازنہ خو دساختہ ہے ۔ آسمانی احکام کا زمینی نظام سے کیا مقابلہ؟

باطنی جہت سے ناواقف اور روح کے تصور سے نا آشنا کلمہ گو حیات النبی ﷺ کا بھی قائل نہیں رہتا۔ اُس کے نزدیک زندگی کا تصور انتہائی محدود ہے، شاید وہ کھانے پینے اور بازاروں میں چلت پھرت کو زندگی سمجھتا ہے۔ کسی نے حضرت واصف علی واصف ؒسے پوچھا ٗ کیا حضور اکرم ﷺ حیات ہیں؟ آپ ؒنے فرمایا ٗاگر حضور ﷺ زندہ نہیں ہیں تو پھر اللہ درود کس پر بھیج رہا ہے؟ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ انسان جس چیز کا علم نہیں رکھتا ٗاس کا دشمن ہو جاتا ہے۔ ہر علم کے اوپر ایک علم موجود ہے۔ جہاں ایک صاحبِ علم کی حد ختم ہو جاتی ہے، وہاں کسی ــ’’صاحب‘‘ کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ باطن ظاہر کا قد ناپ لیتا ہے— بعض اوقات گردن تک ناپ لی جاتی ہے۔ ظاہر باطن کا قد کاٹھ نہیں دیکھ سکتا۔ ظاہر صرف اقرار کر سکتا ہے یا پھر انکار! اقرار اسے باطن کا عکس عطا کرے گا، انکار اسے برعکس راستے پر لے جائے گا۔ سورۃ فاتحہ میں ہر نماز میں ہم صراط مستقیم کی طرف ہدایت پانے کی دعا مانگتے ہیں ۔ صراطِ مستقیم کی نشانی یہ بتائی گئی کہ وہ انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے  اور انعام یافتہ لوگ باطن شناس ہوتے ہیں۔

فرقٗ ظاہر میں رونما ہوتا ہے، باطن میں کوئی فرق نہیں ۔۔ کوئی فرقہ نہیں۔ باطن کی روشنی لیزر لائیٹ کی طرح ہے ٗجو سیکڑوں میل کے فاصلے کے بعد بھی بکھر کر مدھم نہیں ہوتی ، منتشر نہیں ہوتی۔ باطن سے منحرف ہر گروہ نے دین اور قرآن کے بیان پر ایک نیا فرقہ ایجاد کیا ہے۔ اصل سے فرق فرقہ پیدا کرتا ہے اور فرقہ ہی تفرقہ پیدا کرنے کا سبب ہے۔ وحدتِ ملی سے انحراف تفرقہ ہے ۔ وحدتِ ملت کے حوالے سے یہی حال شارحینِ دین و قرآن کی بابت دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے اسلاف سے منحرف تفاسیر ہمیں دین و قرآن کی اصل سے دُور کر رہی ہیں۔ قرآن کریم کی سب سے افضل تشریح خود صاحبِ قرآن ﷺ کی زبانِ مبارک سے ہے۔ اس کے بعد اہلِ بیت کی تفسیر معتبر ترین ہے کہ جن کے گھر میں قرآن نازل ہوتا ہے‘ وہ سب سے بہترین شارحینِ قرآن ہیں—قولِ رسولؐ –’’ میںؐ ؐ علم کا شہر ہوں اور علی ؑ کا اِس کا دروازہ ہے‘‘ اس پر شاہد ہے۔ ازاں بعد ٗدرجہ بدرجہ مقرب صحابہ اکرام ، تابعین اور تبع تابعین کی تشریحات جاری و ساری ہیں۔ اگر کوئی مفسر چودہ صدیوں کی مسافت پھلانگ کر کوئی ایسی تفسیر بیان کرے جس کی سند ہمیں اسلاف سے میسر نہ آئے‘ وہ کسی فرقے کی وکالت تو ہو سکتی ہے’ حق پرستی کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہرگز نہیں۔ حق کی نشانی یہ ہے کہ حق ٗحق کو نہیں کاٹتا۔ مرشدی واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ دین میں بات جتنی قدیم ہوگی ‘ اتنی ہی معتبر ہوتی ہے۔

اہلِ مدرسہ میں سے کسی نے کہا کہ’’ قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى ” سے مراد اہلِ بیت نہیں۔ راقم متعجب ہوا کہ اوئل عمری ہی سے اس آیت کو درشانِ اہلِ بیت ہی سنا اور سمجھا گیا۔ چنانچہ کتابوں کی پڑتال شروع ہوئی، ایک جید مفتی صاحب سے بھی رابطہ کیا کہ اپنی اصلاحِ فکر مطلوب تھی۔مفتی صاحب نے صحیح مسلم، صحیح بخاری اور مسند احمد بن حنبل کے حوالہ جات سامنے رکھ دیے۔
(ذكر المحدثون والمفسرون من علماء أهل السنة أحاديث كثيرة في تفسير هذه الآية؛ منها ما يلي:
مسند أحمد بن حنبل: عن ابن عباس قال: لما نزلت (قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى) قالوا: يا رسول الله من قرابتك الذين وجبت علينا مودتهم قال: ” علي وفاطمة وابناهم”
صحيح البخاري: عن ابن عباس أنه سئل عن قوله تعالى (إلا المودة في القربى) قال سعيد بن جبير:” قربى آل محمدﷺ ”
صحيح مسلم: سئل ابن عباس عن هذه الآية فقال ابن جبير: “هي قربى آل محمد ﷺ”
الكشف والبيان للثعلبي: اختلفوا في قرابة رسول الله (ص) أمر الله تعالى بمودتهم قال: عن ابن عباس قال: لما نزلت * (قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى) قالوا: يا رسول الله من قرابتك هؤلاء الذين وجبت علينا مودتهم؟ قال: “علي وفاطمة وابناهما”)

(عربی کی ان عبارات کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابنِ عباس سے روایت ہے کہ جب لوگوں نے رسولِ کریمﷺ سے اس آیت کے حوالے سے دریافت کیا کہ ہم پر آپؐ کے کن عزیز و اقارب کی مؤدت واجب قرار دی گئی ہے، تو رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ وہ علیؑ ، فاطمہؑ اور ان کے دو بیٹے ( حسنین کریمین) ہیں)

Advertisements
julia rana solicitors

حضرت عبداللہ ابن عباس رض قرآن کے سب سے پہلے مفسر ہیں، انہیں اس منصب پر خود رسولؐ اللہ نے فائز فرمایا۔ ایک صحابیٔ رسولؐ کی تفسیر کے بعد اپنی ذہنی تفسیر پر اصرار‘ دراصل انکار کے زمرے میں آتا ہے۔ لوگ اپنے مدرسے کا ساتھ دیتے ہیں‘ حق کا ساتھ نہیں دیتے۔ حق کا متلاشی دین کی اصل کی تلاش میں ہوتا ہے،اُس کا فکر اپنے فرقے کا اسیر نہیں ہوتا۔وحدتِ ملی کے پیام بر حضرتِ اقبال ؒ نے یوں ہی تڑپ کر کہا ہو گا
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالٰہ الا اللہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply