نور ظہیر کے نام۔۔۔۔۔سجاد ظہیر سولنگی

پاکستان کی ترقی پسند روایات اور انقلابی سیاست کی تاریخ میں سید سجاد ظہیر کی علمی، ادبی، انقلابی اور مارکسسٹ کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ برِ صغیر کی عوام دوست ترقی پسند و انقلابی سیاست میں اتنا مستحکم، آدرشوں پر قائم اور مرتے دم تک اپنے ارادوں پر ڈٹے رہنے والے انسان کو یادا کیا جائے تو سید سجاد ظہیر کانام ہمارے ذہنوں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے سجاد ظہیر سے زیادہ کمیٹیڈ انسان کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے کہ بہت سے لوگ ہیں لیکن فکری طور پر جس تنظیم کاکارواں لیکر چلے، مرتے دم تک اسے قافلے سے وفا کی۔انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد میں سید سجاد ظہیر”بنے بھائی“ کا جو کردار ہے، وہم ہمارے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہے، ادب برائے زندگی کے نظریات کو اپنے ساتھ لیکر چلنے والے سجاد ظہیر کو جب سرخ پارٹی کی قیادت دی گئی۔ تو انہوں نے اپنے بچوں اور بیوی کی بھی پرواہ نہیں کی۔ایک طرف ادبی قیادت دسری طرف سیاسی قیادت دونوں تنظیموں کے ساتھ جس خوش اسلوبی سے انہوں نے نبھایا ہے۔جس کا اعتراف مخالفین بھی کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے توسید سجاد ظہیر کے خاندان نے اس ملک کی بنیاد پرست روایتوں کو توڑنے میں جو جنگ کی ہے، اس جدوجہد کو اس ملک کے ترقی پسند، محنت کش اور عوام دوست قوتیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ سید سجاد ظہیر کو جھکانے کے لیے اس ملک کی بیورکریسی نے عالمی سامراج کی خوش نودی سے سختیوں، پابند سلاسل اور تشدد جیسے ہتھکنڈے استعمال کیئے لیکن ناکام رہے، اور سرخ سپاہی اپنی بات کرتے رہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب پاکستان کو بنے دن ہی بیتے تھے، سرخ سیاست کے سپاہی سرخ پرچم لیکر یہاں آپہنچے تھے۔سید سجاد ظہیر اسی کارواں کے لیڈر تھے، یہاں کی سامراج نواز حکومت کو پتا تھا کہ یہ سرخ راہنما کسانوں اور محنت کشوں کو جگانے آئے ہیں، اس لیے انہوں تیں سالوں کے اندر جھوٹے مقدمات بنانے شروع کیے، ” پنڈی سازش کیس” انہیں ٹھیک لگا جس کے تحت انہوں نے سید سجاد ظہیر اور نامور شاعر فیض احمد فیض کو ان کے ساتھیوں کے ہمراہ جیل میں ڈال دیا۔اس حکومت کو بہت کچھ منظور تھا لیکن سجاد ظہیر کا یہاں رہنا پسند نہیں تھا۔کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو اس ملک میں سوچی سمجھی سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا، سامراج نواز قوم پرست بھی سید سجاد ظہیر کی تنظیم اور اس کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے، لیکن انہوں نے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں کی سجاد ظہیر اپنے علمی اور فکری نظریات سے کامریڈوں کی تربیت کرتے رہے،اور وہ تاریخ آج بھی حیات ہے، آج بھی مارکسی اور لیننی فکر کی روشنی میں سماج کا تجزیہ کرنے والوں کا جو کارواں موجود ہے، اس کے بانی سید سجاد ظہیر ہی تھے۔ دیکھا جائے تو سجاد ظہیر کے خلاف نفرتیں تو قائم رہیں، لیکن تاریخ ان محبتوں کوختم نہیں کرسکی، جو کہ ہمارے جیسے بہت سے نوجوانوں کے دلوں میں موجود ہے۔ پاکستان میں سجاد ظہیر کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پچھلے دنوں کراچی میں ہونے والی”عالمی اردو کانفرنس“ میں ترقی پسند ادب کی جوڑی سید سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر کی سب سے چھوٹی بیٹی نور ظہیر پاکستان تشریف لیکر آئی، ان کے اعزاز میں ہونے والی تقاریب اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ نور جب بھی پاکستان آتی ہیں، تو ہزاروں محبتیں لیکر جاتی ہیں، نور کا خود ترقی پسند فکر کی طرف مائل ہونا، ان لوگوں کے لیے بھی بہت بڑی مثال ہے، جو خود تو ترقی پسندی کا نعرہ بلند کرتے رہے، لیکن اپنی اولاد کو اس سے دْور ررکھا، نتیجہ یہ نکلا کہ بہت بڑ بڑے نام تاریخ میں یاد ہی نہیں ہیں، کیوں کہ ان کے بچوں نظریاتی نہیں تھے۔نور ظہیر کے جن کی صاحب زادی پنکھڑی ہندوستان کی طلبہ سیاست میں اپنا نظریاتی و عملی کردار ادا کر رہی۔
نور ظہیر اس سے پہلے بھی پاکستان آتی رہی ہیں، پہلی بار1986 ء میں سید سبط حسن کے جس خاکی کو ہندوستان سے پاکستان لیکر آئی تھیں، سبط صاحب جو کہ ہندوستاں میں ہونے والنے والی انجمن کی 50 سالہ تقریب میں شرکت کے لیے وہاں گئے تھے، جہان ان کی وفات ہوگئی تھی۔ وہ دوسری بار 2005 ء میں سجاد ظہیر کے صد سالہ جش میں شرکت کرنے لیے پاکستان آئیں۔ 2014 ء میں میں ببھی آپ کا پاکستان آنا ہوا، مختلف لوگوں اور سید سجاد ظہیر کے حوالے سے معلومات اکٹھا کی، انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کی جانب سے انہیں، انجمن کے دفتر میں استقبالیہ بھی دیا گیا تھا، نور نے اپنا ایک افسانہ بھی پڑھا تھا، جو کہ اس بات کی دلیل تھا کہ ترقی پسند ادب آج بھی ہماری ضرورت ہے، اور اس کے فروغ کے لیے عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک بار اور ر نور ظہیر صاحبہ 2016 ء میں ہونے والے ”کراچی ادبی میلے“کے سلسلے میں تشریف لیکر آئیں۔سندھ اور بلوچستان کے مختلف شہروں کا دورہ بھی کیا، اپنے تجربات اور پاکستان کے سفر کو انگریزی زبان میں ”at home in enemy land“ کے عنوان سے قلم بند کیا، جو کہ حال ہی کتاب پبلشر کراچی کی جانب سے شایع کی گئی ہے۔
نور صاحبہ اپنے بابا کی علمی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہے، علم اور ادب ان کا مشغلہ ہے۔ آپ کا نام ہندستانی ادب اور انگریزی صحافت میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک دہائی تک انگریزی اخبارات نیشنل ہیرالڈ، اور ٹیکII، پوائنٹ کاؤنٹرپوائنٹ میں اخبارات میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔نور طہیر کی علمی خدمات میں مضامین، تراجم اور افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان جہاں سرخ کارواں کے نظریات نے نے علم،ادب، سیاست، سماجیات، فلسفے اور تاریخ میں جدید تجربات کیئے، وہی ثقافتی روایات کو بھی جدید بنیادوں پر ترقی پسند فکر سے روشناس کروایا گیا۔ ہندوستان میں “انڈین پیپلز تھیٹر(اپٹا) “، جس نے آرٹ کونئی بنیادیں فراہم کی، نور بھی ان ہی روایات کو زندہ رکھے آرہی ہیں، اس وقت نور ظہیر اپٹا کے قیادت کر رہی ہیں۔ نور کتھک رقص پر بھی مہارت رکھتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جا چکی ہیں، آدیواسیوں کی تحریک میں میں کام کرتی آرہی ہیں۔
سید سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ایک شاہکار کتاب ” روشنائی ” کے خالق ہیں، نور ظہیرجو کہ اس وقت بہت چھوٹی تھیں، جب سجاد ظہیر کی وفات ہوئی، تو ان کے حصے میں اپنے والد کی شفقت بہت کم رہی، جو لمحات انہیں یاد رہے، گھر کے کی محفلیں، جنہیں وہ یاد کرسکیں ہیں، جتنا بھی انہوں نے اپنے والد کے بارے میں پڑھا، ان کی تحریروں کو سامنے رکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ انہیں اپنے حصے کی روشنائی لکھنی چاہیے، اور بعد میں نور ظہیر کو اپنی امی اور ابا کے ساتھ گزاری ہوئی یادیں سمیٹنا پڑیں، سید سجاد ظہیر کے صد سالہ جشن پر نور ظہیر کے قلم سے ایک اور روشنائی منظر عام پرآئی، جس کا نام ” میرے حصے کی روشنائی” رکھا گیا۔ نور کی اس کتاب کو ترقی پسنداور اردو ادب کے حلقوں میں اچھی خاصی پزیارائی حاصل ہے۔
نور کہ جس کو ان کے حصے کی روشنائی انہیں بار باراس ملک کی طرف کھینچ لاتی ہے، جہاں اس کے والدِ محترم نے زندگی کی کچھ بہاریں اور خزائیں جیل کی کال کوٹھڑی میں گزاریں۔ نور ظہیر کی آمد کا اس مرتبہ سن کر ترقی پسند حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑی، اس سلسلے مین جب نور ظہیر نے 21 نومبر کو ہمارے ملک کی سرزمین پر قدم رکھے، تو ٹھیک 22 نومبر کی شب،انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سید جعفر احمد اور کے بزرگ ترقی پسند راہنما اقبال علوی نے ملکر انجمن کی جانب سے انہیں مدعو کیا، جہاں انجمن کراچی کمیٹی کے ارکان عہدیداران اور میمبران نے شرکت کی۔ جہان انجمن کی تنظیم سازی پر بھی گفتگو ہوئی۔
نور ظہیر کے اس استقبالیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ترقی پسند تحریک نے سماج میں فرسودہ نظام کو کس طریقے سے توڑا، ہمارے انقلابی بزرگوں نے عوامی ادب کی تخلیق میں کس طرح سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ برِ صغیر میں مختلف زبانیں بولنے والے ادیبوں نے ادب برائے زندگی کے موضاعات پہ عام انسانوں، کسانوں،مزدوروں کے حقوق کے لیے جو آواز بلند کی، اسی کی بہ دولت ہم آج سرخرو ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند مصنفین نے اپنی تخلیقات کا مرکز انسانی مسائل اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حصول کو اپنا موضوع بنایا، اس تقریب میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی ملکی اورصوبائی تنظیمی کاری،سرگرمیوں اورموجودہ سماجی و ابی صورتحال پرانہیں بتاتے ہوئے کہا کہ آج ایک بار پھر انجمن ترقی پسند مصنفین ادب کے فروغ کے لیے نچلی سطح تک اپنا عملی کردار ادا کررہی ہے۔ مختلف زبانیں بولنے والے لکھاری اور دانشور انجمن کا حصہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختون خوا، گلگت – بلتستان، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے علمی ادبی تنظیموں کے راہنما بھی انجمن ترقی پسند مصنفین میں شامل ہوئے ہیں۔
نور ظہیر جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سرکردہ راہنما کے ساتھ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) کی صدر بھی ہیں، انہوں نے ہندوستان کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں بھی مشکلات درپیش ہیں،لیکن اس کے باوجود انجمن اپنا کردار کرہی ہے، بائیں بازو کی سیاست جس میں مزدور، طلبہ، خواتین اور کسانوں کی تحریکوں کا بہت بڑا کردار ہے، مختلف زبانوں میں ترقی پسند ادب تخلیق ہو رہا ہے، سماج میں ہونے والے جبر کے خلاف شاعری،، ڈارمے،ناول اورافسانے لکھے جارہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے جس طرح آپ مشکلات کا شکار ہیں، ٹھیک اسی طرح ہم بھی ایسے ہی سماج میں جدوجہد کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محنت کشوں، کسانوں اور خواتین کی تحریکوں کو نظریاتی بنانے کے لیے ایک بڑی جدوجہداورعملی جفاکش کی ضروت ہے، جس میں عوامی مسائل پر اسٹیڈی سرکل، سیمنار اور بیٹھک منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امن کی بات کرتے ہیں۔ایسے ادبی تخلیق کی ضرورت ہے،جو دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی امن کی بات کرے۔ تقریب میں انجمن کے راہنماؤں اور مختلف ادیبوں کی جانب سے سوالات بھی کیئے گئے۔ اس موقع پر نامور ادیبوں اوردانشوروں جن میں انجمن ترقی پسندمصنفین کے سابق مرکزی صدر مسلم شمیم اور کراچی کے صدرپروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد، اقبال علوی، ڈاکٹر ریاض شیخ، اے آر عارف،سلیم شیخ، حامد علی سید،علی اوسط جعفری، سلطان نقوی، انیس زیدی، سجاد ظہیر اوردیگران نے ترقی پسند تحریک و ادب کے حوالے سے سوالات اور جوابات میں حصہ لیا۔ کراچی میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں نور ظہیر اپنی بڑی بہن نادرہ ظہیر کے ہمراہ اپنی امی اور نامور ترقی پسند ادیبہ رضیہ سجاد ظہیر کے صد سالہ جنم دن دن کے حوالے سے ایک تقریب میں شرکت بھی کی۔
نور ظہیر ایسے سماج کی متلاشی ہیں، جہاں امن، آشتی اور برابری ہو، نور جنہیں عالم میں امن سب سے زیادہ عزیز ہے۔ نور اس وقت اپنے وطن میں امن اور پیار کا پیغام لیکر واپس پہنچ چکی ہیں، جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گئی ہیں ہے کہ ہم خواتیں،کسانوں، مزدوروں اور نوجوانوں کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔نور ظہیر کے جس والد پابند سلاسل رہنے کے باجود ان کے اس ملک پر بہت بڑے احسان ہیں، شملہ معاہدہ،کے جس میں ہندوستان کی جانب سے سجاد ظہیر کوشامل کیا گیاتھا، اس میں قیدیوں کی رہائی میں بھی سید سجاد ظہیر کا بہت بڑا کردار تھا، جس پر تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے۔ نور ظہیر یہاں ہمیشہ آتی ہیں، اور پیار لاتی ہوئی پیار لے جاتی ہیں۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں، کہ سید سجاد ظہیر کا یہاں آنا غلطی تھی، تو وہ کل بھی غلط تھے، آج بھی غلط ہیں اور آنے والے کل میں بھی غلط ہوں گے۔ کیوں کہ سرخ سیاست کا کامریڈ عالمی انقلاب کا مانے والا ہوتا ہے، وہ کہیں بھی جاسکتا ہے، اس کا فیصلہ کوئی اور قوت نہیں بلکہ اس کی قیادت ہی کر سکتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جنہیں کمیونزم اور سوشلزم سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے، ایسی تنظیموں کے راہنماؤں نے بھی کیا، جو پسے ہوے طبقات پر بات تک نہیں کرتے، دیہاتی کسان کی بیٹی، کس طریقے سے سڑ رہی ہے، تھر سے لیکر کشمور تک وادی مہران میں ناریا ں کس طرح غیرت کے نام پرقتل کی جاتی ہیں۔ اہل بلوچستان میں مائیں کئی سالوں سے اپنے گمشدہ بچوں کی واپسی کی جنگ لڑ رہی ہیں، ہمیں اپنے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے ان تمام استحصالی ہتھکنڈوں پر بات کرنی پڑیگی۔ جس طرح انقلابی خواتین اورمارکسسٹ راہنما کیا کرتے ہیں۔نور ظہیر پسماندہ علاقوں کے آدیواسی مظلوم خواتین اور محنت کشوں کے لیے ہونے والی جدوجہد میں بھی شامل ہیں، یہی پیغام سیدسجاد ظہیر، رضیہ سجاد ظہیر اور ان کی پارٹی کا ہمیشہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ پاکستان کے کچھ انگلیوں پر گننے والے سوڈو سوشلسٹ کہا کرتے ہیں کہ سید سجاد ظہیر اور اس کے قافلے نے ہتھیار ٹال دیے تھے، سجاد ظہیر کے جانشین اس کے بعد حسن ناصر شہیداور نذیر عباسی شہید کے روپ میں سامراج نواز آمریتوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ ہمیں کسی بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، نور ظہیر ہم آپ کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔ آپ نے ہمیں وہاں کے انقلابیوں کا لال سلام ہمیں تو پہنچا ہی دیا ہے، ہماری طرف سے بھی آپ ہندوستان کے انقلابیوں کو بھی ہمارا لال سلام پہنچائیے گا۔ سید سجاد ظہیر نے جو راستہ کسانو ں، دہکانوں، محنت کشوں، عورتوں اور نوجوانوں کی نجات کے لیے چنا تھا، آج بھی ہم اس پر فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا راستا وہی ہے جو سجاد ظہیر کا راستہ تھا۔ ہمیں یقیں ہے کہ ہم سرخرو ہوں گے!۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply