سازش، سازش اور پھر سازش

سازش سازش سازش ۔اس لفظ کو سن سن کر کان پک چکے ہیں ۔اپنی ہر لاعلمی جہالت اور کوتاہی کو جواز فراہم کرنے کے لیے اک لفظ تراش لیا گیا ہے سازش۔سازش کا لفظ بہت قدیم ہے ۔ماضی بعید کو رہنے دیں۔چونکہ پاکستان کے قیام کو ستر برس ہو چکے ہیں ۔لہٰذا قیام پاکستان سے آغاز کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر لمحہ موجود تک اس لفظ کی جگالی تواتر کے ساتھ جاری ہے۔صبح و شام خود ساختہ سقراط بقراط سازش نامی منجن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس قوم کی برداشت کی داد دینا ہوگی ،کہ ماضی حال اور مستقبل اسی ایک لفظ کے گرد گھوم کر دائرے کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔جاگتے سوتے اٹھتے بیٹھتے ہر لمحہ، ہر وقت سازش سے باخبر رکھنا چند بقراطوں نے خود ساختہ فرض عین سمجھ رکھا ہے۔
لفظ سازش کو اس ملک میں ہر شخص نےاپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔مگر آج تک بیان کی گئیں سازشیں کب کیسے اور کیوں وقوع پذیر ہوئیں ۔اور سازش کی کامیابی اور ناکامی کا کیا تناسب رہا۔اس پر راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔یہ چین سائیکل والے چین کا ہم وزن ہے۔لہٰذا ملک چین کے ساتھ کوئی مماثلت تصور نہ کی جائے۔اک بات اور عام آدمی اب اس لفظ سازش کا اس قدر عادی ہو چکا ہے،کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد والا معاملہ ہو چکا ہے ۔پہلے پہل تو لفظ سازش کا سنتے ہی کان کھڑے ہو جاتے تھے۔شروع شروع میں لفظ سازش ملاوں کا من پسند تھا۔ان کی ہر بات کی تان اس پر آ کے ٹوٹتی کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف یہودو نصاریٰ اور ہندو مل کر سازش کر رہےہیں ۔خبردار ہو شیار اس سازش کا مقابلہ صرف اور صرف ہم کر سکتے ہیں ۔کیونکہ ہر قسم کے وظائف سے لیس یہ نام نہادملا بڑی سے بڑی سازش کا توڑ اپنی شعلہ بیانی سے کرنے کی قدرت کاملہ رکھتے تھے۔
بس اس کے لیے جوق در جوق جمع ہو کر ان کو چندے سے نوازنے کی دیر ہوتی تھی ،کہ سازش یہ جا، وہ جا۔ پھر سازش کا منجن سیاست دان بیچنے لگے فوج کے جرنیلوں نے بھی سازش نامی لفظ کا استعمال کر کے خوب آمریت کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹے ۔جس سیاستدان سے آمریت کو خطرہ ہوا جھٹکے سے جرنیل فرمائے ملک کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ملک کے تحفظ کے نام پر اس بیچارے کا مکو ٹھپ دیا جاتا۔سازش سازش کی گردان کرنے والے جرنیل تو اب اس دنیا فانی سے کوچ کر چکے ہیں،اور ورثے میں چند جان نثار یہ فریضہ نبھانے میں مصروف ہیں ۔سیاستدان بھی اس لفظ سازش پر دل وجاں سے فریفتہ ہیں ۔جہاں کوئی مشکل پڑی سازش سازش کا رونا شروع کر دیتے ہیں ۔جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ جتنا چاہے کھلواڑ ہوتا رہے ۔بس خاموش رہنے میں بھلائی ہے ۔ملک میں جمہوریت کی اوٹ لے کر کرپشن کا راج چلتا رہے تو ٹھیک ۔جیسے ہی اس کرپشن لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری کے خلاف کو سینہ تان کر کھڑا ہو جائے ۔تو پوری قوت کے ساتھ جمہوری درندے سازش سازش سازش کا راگ اونچے سروں میں گانے لگتے ہیں ۔
ابھی پانامہ کے ہنگامے کو ہی دیکھ لیجئے حکمران اپنی صفائی پیش کرنے کی بجائے ،اس پورے عمل کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں ۔عدالت نے حقائق کی روشنی میں فیصلہ بھی کر دیا۔مگر سازش سازش کا شور مچایا جا رہاہے۔جبکہ مجھ جیسا طالب علم حیرت میں گم ہے کہ آخر جمہوریت کے خلاف کیسی سازش ہے ۔جس میں بڑا بھائی نااہل ہوا ۔چھوٹا بھائی وزیراعظم بننے کے لیے تیار ہے ۔پنجاب کی وزارت اعلی ٰبھتیجے کو دی جا رہی ہے۔پارلیمنٹ قائم ہے ۔حواری بادشاہ سلامت کے دربار میں سجدہ ریز ہیں ۔عبوری وزیراعظم کو حواری منتخب کروا چکے ہیں ۔پھر خود ہی دہائی دی جا رہی ہے ،کہ سازش ہو رہی ہے، عالمی سازش۔سازش سازش اور پھر سازش کی منتظر عوام ذہنی طور پر ہر دم چو کس رہیں ۔ہیں جی ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply