سی پیک کے پس منظر میں۔۔۔۔۔امتیاز بلوچ

 ہر گزرتے دن کے ساتھ پاک چائنہ کوریڈور سے جڑی کچھ اچھی کچھ بری خبریں سننے کو ملتی ہیں لیکن ہم نے کبھی اس سے جڑے دیگر عوامل کو جاننے  کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہمیں صرف سی پیک سے جڑی اچھی خبروں کی چادروں کی چاردیواری میں رکھا گیا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگوں نے مزید اس میں دلچسپی لینا شروع کردی چونکہ یہ پاکستان کے گرتے معاشی اثرات کو راہ راست پر لانے کیلئے ایک اچھا منصوبہ ہے تو لوگوں کی امیدیں بھی اس سے زیادہ جڑی ہیں تو کیا لوگ اس سے پہلے گوادر کی اہمیت سے ہمنوا نہ تھے تو یقیناً اسکا جواب نفی میں ہوگا چونکہ سمندری راستے ہمیشہ مختلف مقاصد کیلئے استعمال کئے جاتے تھے اور کیے جارہے ہیں چاہے سمندر کے راستوں کے ذریعے طارق بن زیاد کی سپین پر چڑھائی کے حوالے سے ہو یا کہ ہم سے جڑے گوادر ہی پر پرتگیزیوں کے حملے کے حوالے سے ہو سمندری راستے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت تاریخی اہمیت کا مرکز رہے  ہیں موجودہ دور میں بھی مختلف طریقوں سے سمندری  راستے کو یا زمینی راستے کو مختلف مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے سی پیک تو دراصل ون بیلیٹ ون روڈ سے جڑاایک منصوبہ ہے  جو چا ئنہ کو پوری دنیا سے ملا رہا اس میں ستر کے قریب ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ زمینی راستے کے ساتھ ساتھ بحری راستوں کے ذریعے بھی ملانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس منصوبہ کے پایہ تکمیل کیلئے چائنہ قریبا 1 ٹریلین ڈالر خرچ کریگا اور اس منصوبہ کے ذریعے چائنہ مختلف کم آمدنی والے ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبوچ لینا چاہتا ہے جس میں سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا پورٹ واضح مثال ہے سری لنکن حکومت کو قرضوں تلے دبا کر 99 سال کیلئے لیز پر لے لیا ہے تاہم وہ اتنے زیادہ قرضے بھی نہیں ہیں چونکہ سری لنکن حکومت کرپشن اور بندربانٹ کا شکار ہوچکی تھی اس لئے یہ چھوٹے قرضے بھی نہیں اتار سکی جس کااب  جاکے انہیں خیال آیا ہے اور سری لنکن حکومت قرضہ واپس کرنے کی کوشش کررہی ہے اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ،جہاں پر پہلے ہی اس کے حکمران کرپشن کے کیسس بھگت رہے ہیں جو پہلے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں امن و امان کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جارہا ہو کیا پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ میں اتنی سکت ہوگی کہ وہ ملک کو سی پیک جیسے بھلا کی قرضوں سے جان چھڑا سکے چائنہ کے  اپنے زیادہ تر مفادات تو پورے ہونگے جس میں اس کیلئے عرب ممالک سے تیل کے لین دین میں آسانی کے ساتھ ساتھ پاکستان  مارکیٹوں میں اپنا مال آسانی سے پہنچا سکے گا جس کی وجہ سے پاکستان کی اپنی منڈیاں سست روی کا شکار ہوجائیں گی واضح رہے کہ 2002 میں امریکہ کی اسٹیل مل جسے ڈیبنگ کے ذریعے چائنہ نے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اس کے بعد امریکہ نے چائنہ کی بہت سے چیزوں میں درآمد اور برآمد میں واضح کمی کرنا شروع کردی اور چائنیز بزنس مین کو بھی ملک بدر کرنا شروع کردیا ،حال ہی میں امریکن حکومت نے چائنہ کی بیس سے زائد کاروباری شخصیات کو اپنی ملک کے کاروباری ڈیٹا چرانے  کی پاداش میں ملک بدر کردیا اس سارے پس منظر کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو پاکستان کی اپنی پیداواری منڈیوں کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں وہی امن وامان کا مسئلہ بھی سی پیک کیلئے مشکلات پیدا کررہا ہے جس میں اسے چائنہ کے علاوہ دوسرے ممالک کی کاروباری شخصیات کو ملک میں لانے اور اپنی منڈیوں کو مضبوط کرانے کیلئے کافی زیادہ مشکلات درپیش ہونگی جس کیلئے اسے ملک کی کرپشن اور بندر بانٹ پر نمایاں کمی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ملکی اکائیوں کا سی پیک سے جڑے مسائل پر غور کرنا ہوگا جس میں فاٹا اور بلوچستان کے مسائل سی پیک پر اثر انداز ہوسکتے ہیں چائنہ اگر اپنےزی چنگ صوبہ کی ترقی کیلئے اتنا بڑا منصوبہ شروع کرسکتاہے  تو ہمیں بھی اپنے چھوٹے صوبہ کا خیال رکنے کیلئے ان صوبوں کی تعمیر اور ترقی سمیت جدید دنیا سے مقابلے کرنے کیلئے بہتر تعلیمی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبے زیر غور لائے جانے چاہئیں  وگرنہ پاکستان کے محروم علاقے مزید محروم ہونگے جس کا پاکستان پر معاشی سیاسی سماجی اور اخلاقی اثر پڑ سکتا ہے، اور  سی پیک منصوبہ پر چائنیز کی بوجھ تلے دبے ہوئے قرضوں کی ادائیگی میں مزید مشکلات پیدا کرنے کا بھی باعث بن سکتے ہیں جو چائنہ کے لئیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل اختیار کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply