توکل اور رزق۔۔بشیر آرائیں

ایمان کی کمزوری ہی تو تھی کہ اس عمر میں بھی کل کی فکر نہیں چھوڑتی تھی ۔ بچوں کی شادیاں کر چکاہوں ، وہ دونوں خود کفیل ہیں ، خوشی خوشی اپنی زندگی جیتے ہیں مگر میں آج سے 15 دن پہلے تک اس فکر سے جان نہیں چھڑا پایا تھا کہ کل کیا ہوگا یا میں نہ رہا تو بچوں کو ضرورت کے وقت کمک کہاں سے ملے گی ۔

22 فروری کو کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا ۔ دوستوں کے ساتھ براستہ حب ،اوتھل ، خضدار اور قلات سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پہنچنا تھا۔ راستے میں لنچ کرنے کیلئے ایک ہوٹل پر رُکے اور بلوچی مٹن کڑاہی بنوائی ۔ کھانا خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پھر بھی بہت سارا کھانا بچ گیا ۔ میں نے کڑاہی گوشت ایک پلاسٹک کے کنٹینر میں ڈلوایا ۔ ساتھ 5 تازہ نان منگوائے اور ایک چودہ پندرہ سالہ بچے کو جو لوگوں کی گاڑیاں صاف کر رہا تھا، تھما کر کہا کہ بیٹا لو کھانا کھالو اور جو بچے رکھ لینا ،شام کو کھا لینا ۔ بچہ قریب ہی بیٹھ کر کھانا کھانے لگا اور ہم چائے پینے لگے ۔

بچے نے خود کھایا اور باقی بچاہوا کھانا قریب بیٹھے دو کتوں کے سامنے رکھ کر ہماری میز پر سے پانی پینے آگیا ۔ میں نے اسکی یہ حرکت دیکھ کر خاصہ غصے میں کہا کہ اتنا اچھا اور مہنگا کھانا تم نے کتوں کو ڈال دیا ۔ ایسا کیوں کیا؟ اب تم رات کو کیا کھاؤ گے ؟

میری بات سن کر وہ لڑکا عجیب بےپرواہی سے کہنے لگا صاحب کتے بھی صبح سے بھوکے ہیں اور رہا میرے رات کے کھانے کا سوال تو جس رب نے ابھی کڑاہی گوشت کا انتظام کر دیا تھا وہ رات کو مجھے کیسے بھوکا سونے دے گا۔ میں اسکی بات سن کر دس منٹ تک کچھ کہے بغیر ہکابکا لاجواب بیٹھا رہا ۔ اپنے غصے اور کہے الفاظ پر انتہائی شرمندگی سے کچھ بول نہیں پارہا تھا ۔ ایک ان پڑھ سے دیہاتی بچے کے ایک جملہ نے میری 64 سالہ زندگی کی سوچ اور فکر کو ہوا میں اڑا دیا ۔ اس بچے نے مجھے توکؔل اور اصل رازق کے معنی بغیر کسی دلیل بغیر کسی حوالوں کے ایک منٹ میں سمجھا دئیے ۔

میں کراچی واپس آگیا ہوں ۔ اپنے کل کی فکر سے تو جان چھوٹ ہی گئی ہے مگر ساتھ ساتھ توکل پر زندگی گزارنے کا سلیقہ اپنانے کی راہ پر بھی چل پڑا ہوں ۔ میں اس لڑکے کی سوچ کی بلندی کو تو نہیں پہنچ سکتا کہ جو ارد گرد کے کتوں کی بھوک کا بھی خیال رکھتا ہے مگر رب کریم سے دعا مانگتا رہتا ہوں کہ مجھے ایسا تو بنا دے کہ کم از کم کسی انسان کو بھوکا دیکھوں تو اس سے اپنا کھانا بانٹ لیا کروں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انشااللہ اس بچے کی طرح اگلے کھانے کے میسر ہونے کی فکر سے بھی جلد آزاد ہونے کی کوشش کروں گا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply