لفظ “نہیں” کا کردار ۔۔۔۔۔۔ شمع نورین/اختصاریہ

 ہم نے کبھی سوچا نہیں کہ “نہیں” کا کردار ہماری زندگیوں میں کس حد تک ہے ۔ کس حد تک اس “نہیں” کا لفظ ہماری زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور متاثر بھی بہت بری طرح۔۔۔۔ ہم ایک بچے کو زندگی میں نہیں کا لفظ سکھا دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس لفظ کو زندگی میں شامل کرنا ہے تو کس حد تک۔ یہ لفظ ہماری روزمرہ زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ اس نے ہماری سوچ کو منفی دائرہ تک محدود کر دیا ہے۔

اگر اس لفظ ” نہیں” کے کردار کی بات کی جاۓ تو اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ اگر دو لوگ آپس میں کسی بات پہ لڑ رہے ہوں یا کسی بات پر تکرار کر رہے هوں تو اس وقت تیسرا اگر آکر یہ کہے کہ “نہیں نہیں اینٹ نہیں مارنی” تو اس بات کو سن کر ان دو لڑنے والوں میں سے ایک نہ صرف اینٹ اُٹھاۓ گا بلکہ مارے گا بھی۔ یہ اس وجہ سے ہو گا کیونکہ اس تیسرے انسان کو یہ نہیں پتہ کہ اس “نہیں” کا لفظ اس کو استعمال کہاں کرنا ہے۔ اورکیسے کرنا ہے۔ اگر ہم زندگی میں “نہیں” کی جگہ “ہاں” کا لفظ شامل کرلیں تو ہمیں ہاں کا لفظ ہمیشہ مثبت دائرہ میں رکھے گا۔ ہم ایک بچہ کو ہمیشہ یہ کہتے  ہیں کہ بچہ یہ نہیں کرنا۔۔۔وہ نہیں کرنا۔اور بار بار کہتے اور اس قدر کہتے کہ وہ مایوسی کی حد تک چلا جاتا ہے۔ اگر اس “نہیں”کی جگہ صرف” ہاں”کا لفظ استعمال کیا جاۓ تو اس بچے کا دھیان اس قدر”نہیں” پہ نہ جاۓ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مثال کے طور پر۔۔۔اگرایک چھوٹا بچہ گِر جاتا ہے اور اس کو چوٹ آجاتی ہے  تو ایک ماں عام طور پر یہی کہتی کہ نہیں بیٹا چوٹ نہیں آئی۔ کچھ نہیں ہوا۔ بچہ اگر کہتا بھی ہے کہ ماں مجھے درد ہو رہا ہے، مجھے چوٹ آئی ہے تو ماں تسلی دینے کیلۓ یہی الفاظ دہراتی ہے۔ اگر ان الفاظ کی بجاۓ ان الفاظ کو دہرایا جاۓ کہ “ہاں” بیٹا چوٹ آئی ہے ہاں درد بھی ہے۔ لیکن تمہیں صبر بھی کرنا ہے۔ تمہیں برداشت بھی کرنا ہے ۔ درد ہو رہا ہے لیکن اس کو بُھلا کر مسکرانا بھی ہے بیٹا۔ تو یقیناً وہ بچہ اس وقت مسکرا دے گا۔ ہمیں الفاظ میں سے مثبت الفاظ کو اپنی روزمرہ کی بات چیت کا حصہ بنانا ہے۔ ہمیں مثبت سوچ کو اپنانا ہے ۔ ہمیں اس کے لیۓ الفاظ کا زیادہ حصہ ناں کی بجاۓ ہاں میں بدلنا ہے۔ اتنی بار ہاں کو دہرانا ہے کہ ناں کی گنجائش نہ رہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply