کاش بچے کبھی بڑے نہ ہوں۔۔اے وسیم خٹک

نجانے کیوں میرے دل میں کبھی کبھار یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کوئی بھی بچہ کبھی بڑا نہ ہو ۔وہ یوں ہی چھوٹے رہیں تاکہ تمام گھر والوں کے چہروں پر خوشیاں برقرار رہیں ۔بچے جب پہلی سالگرہ کو پہنچتے ہیں تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا شروع کردیتےہیں ،اور اپنی توتلی زبان میں کچھ نام بھی لینے لگتے ہیں ۔وہ کوئی   بھی لفظ ہوسکتے ہیں جو روزانہ اسکی قوت سماعت سے ٹکراتے ہیں، وہی الفاظ بچے زیادہ آسانی سے سیکھنا شروع کرتے ہیں ۔یہی وہ پل ہوتے ہیں جو والدین، اور باقی سارے رشتوں میں منسلک لوگ انجوائے کرتے ہیں ۔بچے کے نازونخرے اٹھائے جاتے ہیں ،انہیں اتنی انسیت دی جاتی ہے کہ وہ دور نہیں جاتے ۔جو رشتے انہیں اُس وقت ڈانٹتے ہیں وہ بچے اُن سے دور بھاگتے ہیں ،یا ڈر کر سہم جاتے ہیں ۔اس عمر کے بچوں کو جتنا لاڈ کیا جاتا ہے وہ شاید دوسرے عمر کے بچوں کو نہیں کیا جاتا۔بچہ جب اپنے پیروں پر چلنا شروع کردیتا ہے تو وہ لمحات بھی قابل دید ہوتے ہیں ۔ہر بندہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کے پاس اپنے قدموں پر چل کر آئے ۔ پھر وقت گزرتا ہے بچہ تین چارسال کی عمر تک چلا جاتا ہے اب وہ کچھ نہ کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے اُسے اپنوں اور پرائے  کی پہچان ہوچکی ہوتی ہے ،اس وقت اسے سکول کے جھمیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ مغرب میں بچوں کو سات سال کی عمر  میں سکول میں داخل کیا جاتا ہے ، مگر نجانے کیوں   ہم بچوں سے چار سال میں ہی بچپنا چھین لیتے ہیں اور وقت سے پہلے ان کی معصومیت  تباہ  کر دیتے  ہیں ۔

میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں کہ کاش بچے بڑے نہ ہوں ۔میرے سامنے دو مثالیں ہیں میرے اپنے بچے جو اب بھی بچے ہی ہیں، اتنے بڑے نہیں ہیں مگر سکول جاتے ہیں وہ جب چھوٹے تھے ہمارے پاس ہر وقت بیٹھا کرتے تھے ۔ہم سے سوالات کرتے تھے وہ بھی ایسے سوالات جن کے سر پیر نہیں ہوتے تھے ۔ہمیں اُن سوالات کے جوابات دینا اچھا لگتا تھا۔

ہم چاہتے تھے کہ وہ ہم سے سوالات کریں تھوڑے بڑے ہوئے جب سکول جانے لگے جو وقت ہمیں ساتھ مل بیٹھنے کا ملتا وہ ختم ہوگیا کیونکہ سکول کا کام، دینی سبق ہوم ورک اتنی  مصروفیت میں وہ پڑ گئے کہ ہم اُن سوالات کے لئے ترس کر رہ گئے ۔جب باہر سے آنا ہوتا ،ساتھ میں کھلونے لاتے اور کبھی کبھار ایسے کھلونے بھی لاتے جو ہم پہلے ہی لاچکے ہوتے تو بچے کہتے کہ یہ تو آپ پہلے بھی لا چکے ہیں ، آپ کو اب یاد بھی نہیں رہتا ۔حالانکہ وہ یاد ہوتا  تھا مگر ہم خود ہی دوسری دفعہ لے جاتے کہ ہمیں بچوں کا  ہم پر وہ طنز اچھا لگتا تھا۔دکاندار بھی کہتا کہ یہ تو پہلے لے جاچکے ہیں ، ہم مسکر ادیتے کہ تمھیں کیا پتہ کہ ہم اسے دوبارہ کیوں لے کر جا رہے ہیں ۔ہم اُن لمحوں کو یادگار بنا نا چاہتے اور اُن لمحوں کو امر کرنا اور جینا چاہتے  ہیں جن لمحوں کو ہمارے والدین پھر اُن کے والدین اور پھر اُن کے والدین جی چکے ہیں ۔

تو میں اس لئے کہتا ہوں کہ کاش بچے جلد بڑے نہ ہوتے ۔اُن کا بچپنا زیادہ دیر تک رہتا۔آج بھی کسی سے بھی پوچھیں کہ وہ زندگی کے کون سے لمحات میں جینا چاہتے ہیں تو جواب ہوگا کہ کاش بچپن واپس لوٹ کر آئے اور وہ اس میں ہی جئیں ، ایسا کیوں ؟۔۔کیونکہ بچپن کے دن بے فکری کے دن ہوتے ہیں ۔کسی چیز کی فکر نہیں، کوئی غم نہیں، بس مستیوں میں ڈوبے ہوئے لمحات ہوتے  ہیں ،مگر اب وہ  سب کچھ کہاں  ممکن ہے ۔زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ خود سےملنے کی بھی  فرصت نہیں ہوتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری چھوٹی بیٹی    سے اتنی  انسیت  ہوگئی ہے کہ اس کے بغیر لمحے نہیں گزرتے ۔وہ بھی حد درجہ مانوس ہوگئی ہے ۔ہر وقت مجھے ہی ڈھونڈتی رہتی ہے ۔میں ابھی سے پریشان ہوں کہ ایک دن تو اسے بھی ضوباش اورضیاف کی طرح بڑا ہونا ہوگا تو وہ بھی اُن دونوں کی طرح اپنے سکول کے کاموں میں بزی ہوجائے گی پھر وہ لمحات کیسے جیئے جائیں گے جو آج میں جی رہا ہوں اس لئے تو کہنے پر مجبور ہوگیا کہ کاش بچے اتنی  جلد بڑے نہ ہوں۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply