انگریز آقا ، انگریزی اور لنڈے کے کپڑے

زبان و بیان بھی عجیب چیز ہے کسی کے لئے تفاخر کا باعث اور کسی کے لئے باعث شرمندگی۔ بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کی ذہنیت کامطالعہ کیا جائے تو نتیجتاً ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پاکستانی قوم اردو زبان کے معاملے میں احساس کمتری کا شکار ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی احساس کمتری کا پرتو ہے۔جس پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا جا  سکے گا۔ تعلیمی اداروں کے سلیبس کی تو بات ہی نہ کریں صاحب! وہ تو اب انگریزی ہو چکا، مطلب جس طرح انگریزوں کے بچے پیدا ہونے کے تھوڑے عرصے بعد انگریزی بولنا شروع کر دیتے ہیں اس طرح مملکت خداداد کے بچے بھی سکول میں داخل ہوتے ہی فر فر انگریزی بولنا شروع ہو جائیں گے۔
اورتو اور پڑھے لکھے ہونے کا معیار بھی یہاں پہ یہی ہے کہ سامنے والا بات کرتے ہوئے کتنےانگریزی لفظوں کی ملاوٹ اردو میں کرتا ہے  پاکستانی قوم کے سامنے انگریزی کے چند الفاظ بول دیں تو آپ خود کو وڈا چوہدری ہی سمجھیں سامنے والا بندہ ایسے دبک کر بیٹھ جائے گا جیسے اس پر گھڑوں پانی انڈیل دیا جائے۔

ابھی کل کی بات ہے ایک دوست کے ساتھ ایئرکنڈیشنر خریدنے کے لئے ایک سٹور پر جانے کا اتفاق ہوا دوست ایسے حلیے میں تھا کہ ائر کنڈیشنر خریدنا تو درکنار، اسے کوئی سٹور میں داخل نہ ہونے دے۔ قصہ مختصر ائرکنڈیشنر کے آوٹ ڈور میں کوئی مسئلہ تھا جس کے لئے وہ سیلز مین سے مسلسل تکرار کئے جا رہا تھا مگر سیلز مین بھی میں نہ مانوں کی تصویر بنا ہوا تھا۔ دوست کا میٹر گھوم گیا تو جناب نے وہ انگریزی ماری کہ موصوف دبک کر بیٹھ گئے، آوٹ ڈور بدل کر جان چھڑانے میں ہی عافیت جانی۔

ابھی تک وہ خبر بھی پاکستانیوں کی یادداشت سے ابھی محونہیں ہوئی ہوگی جس میں پاکستان کے نامور اداکار احسن نے ایک بابا جی انگریزی والے کی ویڈیو فیس بک پہ شئیرکی وہ ایسی تیزی سے پھیلی کہ بابا جی موصوف کو ایک نجی کمپنی کی طرف سے ملازمت اور رہائش کا بندوبست کر دیا گیا، حالانکہ ضرورت مند بابے تو اور بھی بہت تھے انگریزی کے سوا۔

مجھے چینی راہنما ماؤزے تنگ کا وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تو انکا رد عمل سنجیدہ ہوتا مگر وہی لطیفہ انہیں چینی زبان میں سنایا جاتا تو وہ کھل کر قہقہ لگاتے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ انہیں انگریزی نہیں آتی تھی بلکہ وہ کہتے تھے کہ چینی قوم گونگی نہیں ہے اور اس قوم کے راہنماؤں کا یہ حال ہے کہ قومی اسمبلی جیسے مقدس جمہوری ادارے میں انگریزی زبان میں تقریر فرما رہے ہوتے ہیں اور قومی زبان گئی تیل لینے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان تمام واقعات کو ایک خاص تناظر میں دیکھا جائے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ غلاموں کی زندگی میں تبدیلی اور آزادی صرف اس کیفیت کا نام ہے، بقول شخصے ان کی زنجیروں کا رنگ بدل دیا جائے یا نئی بیڑیاں پہنا دی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آقاؤں کے اترے ہوئے کپڑے ہی غلاموں کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد رامش جاوىد
پڑھنے لکھنے کا شغف رکھنے والا درویش منش

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply