خواجہ خورشید انور کی کہانی۔۔۔۔۔اصغر علی کوثر/قسط3

قیام ِ پاکستان ،برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ہربرِ فرزانہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی عظیم کامیابی اور اس خطے کے دس کروڑ فرزندانِ توحید کی طویل جدو جہد ِ آزادی کا ثمر تھا۔14 اگست 1947 کو نقشہ عالم پر ایک ملک ابھررہا تھا اور ہر مسلمان اپنے اپنے شعبہ ء زندگی میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بے چین تھا،خواجہ خورشید انور بھی انہی مسلمانوں میں ایک جذباتی مسلمان اور سچے پاکستانی تھے۔انہوں نے ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون Signature tuneتیار کی ،یہ ٹیون ہر ملک کے ریڈیو کی علامت ہوتی ہے،کسی ملک کے ریڈیو کے پروگرام کے آغاز سے پہلے یہ ٹیون بجائی جاتی ہے جس سے بلا تکلف و تذبذب یہ پتہ چل جاتا ہے کہ کس ملک کا ریڈیو اپنے پروگرام کا آغاز کرنے والا ہے،جس فنکار اور موسیقار کے سر یہ ٹیون بنانے کا سہرا بندھ جائے وہ امر ہوجاتا ہے اور پورا وطن اس کی تکریم اور احترام کرتا ہے انہی احساسات نے خواجہ خورشید انور کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں معاونت کی اور انہوں نے دنیا کے نو زائیدہ ملک پاکستان کے لیے ایک ٹیون تیار کی جو 14 اگست 1947 کو رات بارہ بجے ریڈیو پاکستان کی آواز بنی۔

اس حقیقت کا اظہار انہوں خواجہ خورشید رشید انور نے اس نشست میں کیا جو واقعتاً ابھی جاری ہے۔انہوں نے اس ٹیون کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ اب نجانے ریڈیو پاکستان والوں کے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہے بھی یا نہیں ۔۔میں نے یہ دھن بڑی محنت سے تیار کی تھی،پاکستان جیسے ایک اسلامی ملک ملک کے نظریاتی تقاضوں کو ملحوظ خاطر کھ کر اسے مرتب کیا گیا تھا۔آل انڈیا ریڈیو کے لیے سگنیچر ٹیون مشہور موسیقار کاف سین نے تیار کی تھی اور پاکستان کے لیے یہ کام کرنے کا موقع مجھے ملا ۔میں نے مین ٹیون کے لیے کلارنٹ کا انتخاب کیا اور کلارنٹ نواز مانڈو کی خمات حاصل کیں جو اپنے فن میں یکتا تصویر ہوتے ہیں ،اس کی بنیاد قرآن مجید کی قرات پر رکھی گئی،گویا جب یہ دھن بجتی تو معلوم ہوتا کہ قرات ہورہی ہے۔ٹیون میں مشرقیت کو قائم کرنے کے لیے کلارنٹ کے ساتھ ہلکا سا ردھم رکھا گیا تھا جبکہ کاف مین نے بھارتی ریڈیو کی سگنیچر ٹیون تیار کرتے وقت مشرق اور مغرب کا امتزاج پیش کرنے کی کوشش کی تھی،اس  مقصد کے حصول کے لیے وائلن کو نمایاں کیا تھا۔ میری تیار کی ہوئی پاکستان کی سگنیچر ٹیون جب 14 اگست کو رات بارہ بجے ریڈیو پاکستان سے بجائی گئی تو اپنے وطن عزیز کی محبت سے سرشار لوگوں کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے،پھر چھ سات ماہ تک پاکستان ریڈیو سے یہ ٹیون بجتی رہی ۔

اس زمانے میں سید ذوالفقار علی بخاری جو زیڈ اے بخاری کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ،ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے ،ان کے گرد ہر وقت بڑے بڑے خانصاحب اور موسیقار بیٹھے رہتے تھے ،ایک روز ایک خانصاحب (بڑے موسیقار) نے زیڈ اے بخاری سے کہا  کہ ہماری سگنیچر ٹیون ہے تو بہت اچھی ،مگر اسے سن کر یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی مرثیے کی کوکھ سے ابھری ہو، یہ بہت اداس کردیتی ہے، کیوں نہ اس کی جگہ کوئی اور سگنیچر ٹیون تیار کی جائے ،خواجہ خورشید انور کی ٹیون ترک کردی جائے اور نئی ٹیون بجائی جائے ،چنانچہ ان خانصاحب نے جن کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ مچھ مدت کے بعد پاکستان چھوڑ ہی گئے اور بھارت چلے گئے زیڈ اے بخاری سے مل کر نئی ٹیون بنائی اور وہ اس کی جگہ بجائی جانے لگی۔
جو 14 اگست 1947 کو رات بارہ بجے ریڈیو پاسکتان کی پہلی آواز ہونے کا اعزاز حاصل کرکے تاریخی حیثیت حاصل کرچکی تھی۔۔میں نے شاید کئ یابر ریڈیو پاکستان کے حکام سے یہ معلوم کیا ہے کہ وہ تاریخی دھن کہاں گئی ،اسے پھر کبھی کسی موقع پر دہرایا نہیں گیا۔ شاید ان لوگوں نے وہ تاریخی متاع کھو دی ہے یا ویسے ہی اسے فراموش کرچکے ہیں ۔میں کچھ نہیں کہہ سکتا ،میں تو کہتا ہوں کہ اس دھن کو تلاش کیا جائے کیوں کہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور اس ٹیون کی بنیاد قرات پر رکھی گئی تھی ۔

سوال: آپ نے خؤد بھی کبھی ریڈیو ملازمت کی ؟

جواب:میں قیامِ پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ایک سال تک میوزک کا انچارج رہا ۔اس زمانے میں تمام بڑے خانصاحب مثلاً آفتاب موسیقی استاد فیاض خاں اور استاد بندو خان وغیرہ مجھ سے بڑی الفت کرتے تھے۔ اور ان کی نگاہوں میں میری بڑی قدر تھی۔ ایک سال کی ملازمت کے بعد جب میں نے ریڈیو سٹیشن دہلی سے استعفٰی دیا تو ان فنکاروں کو بڑا دھچکا لگا ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں ملازمت چھوڑتا اور فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اے ۔آر کاردار کی دعوت پر ایک فلم کی موسیقی مرتب کرنے کے لیے عازم بمبئی ہوتا ،چنانچہ انہوں نے ایک وفد مرتب کیا جس میں آفتاب موسیقی فیاض خاں،شنکر پنڈٹ ،اور پری چہرہ نسیم بانو کی والدی مشتری بائی وغیرہ شامل تھیں ،ریڈیو کے بڑے حکام مسٹر نیلڈن اور زیڈ اے بکارے کے پاس گیا اور ان پر اپنا فنکارانہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ک ہخورشید انور کو روک لیا جائے اور ان کا استعفٰی منظور نہ کیا جائے ،مگر نیلڈن اور زیڈ اے بخاری نے کہا کہ اے آر کاردار کی دعقت پر خورشید انور خود جارہے ہیں ،ان کا یہ فیصلہ خؤد ہمارے مرضی کے موافق نہیں ہے ۔

سوال: کیا آپ خود بھی ریڈیو سے پروگرام نشر کرتے رہے ہیں ؟

جواب:میں نے ریڈیو پاکستان لاہور ست کلاسیکل میوزک کے کئی پورگرام نشر کیے،یہاں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں کہ ایک پروگرام براڈ کاسٹ کرنے سے پہلے میں ریڈیو سٹیشن کی عمارت کے اندر ہی ایک کمرے میں استاد برکت علی خان سے ملنے چلا گیا۔،وہ بڑی محبت سے ملے،اور مجھے ایک سگریٹ پیش کیا، میں نوجوان تھا اور سادہ سگریٹ پیتا تھا، مجھے معلوم نہ تھا کہ اس کوئی اور لطف بھی تھا،چنانچہ میں وہسگریٹ پیتا رہا، استاد برکت علی خان نے مجھے دوسرا سگریٹ پیش کیا ،میں وہ بھی پی گیا،اتنے میں ریڈیو کا ایک ملازم اندر داخل ہوا، اس نے کہا کہ آئیے آپ کا پروگرام شروع ہونے والا ہے ،اس زمانے میں پروگرام پہلے ریکارڈ شدہ نہیں ہوتا تھا،لائیو ہوتا تھا۔میں جب اپنا پروگرام پیش کرنے کے لیے اٹھا اور سٹوڈیو کی طرف جانے لگا تو محسوس ہوا کہ پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے،اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی اور محسوس کیا کہ خاں صاحب نے ازراہِ تواضع سگریٹ میں اپنے حساب سے کوئی پُر لطف چیز ملائی ہوئی تھی۔خیر میں اپنا پروگرام آغاز کرنے میں کامیاب ہوگیا،اس وقت میرے والد صاحب خواجہ فیروز الدین گھر پر تھے اور ریڈیو سے میرا پروگرام سن رہے تھے۔ وہ پہلے بھی میرے پروگرام سنتے رہتے تھے۔اور جانتے تھے کہ میں کس انداز میں گاتا تھا، آج صورتحال ہی بدلی ہوئی تھی۔انہوں نے پہلی تان پر ہی اندازہ کرلیا کہ معاملہ کچھ ٹھیک نہیں ،چنانچہ انہوں نے ریڈیو سٹیشن لاہور کے متعلقہ افسران کو فون کیا کہ آج میرے بیٹے کی طبعیت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔اس لیے انہیں مزید نہ گانے دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر اسوقت تک میں پوری طرح سنبھل چکا تھا،بڑا اچھا پروگرام ہوا،کیدارا کی تانوں نے اپنا سماں باندھا،جس کا ذکر کچھ مدت کے بعد موسیقار فیروز الدین نظامی نے اپنے ایک مضمون میں کیا۔جو پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا،انہوں نے کیدارا کی ان تانوں کی تعریف کی۔خیر چھوڑیے 1935 کا ذکر ہے اب اس کی کوئی کوئی جھلک ذہن میں نقش ہے۔ پروگرام کرنے کے بعد میں استاد برکت علی خان کے پاس گیا وہ مسکرا کے ملے اور میرے شکوے کو ٹالتے ہوئے کہا کہ بھئی یہ یتو وہ چیز ہے جو عاشق علی خان اور فتح علی خان وغیرہ کو گانے پر آمادہ کرتی ہے،برکت علی خان اس زمانے میں ٹھمری اور غزل کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے ،لائٹ میوزک پر بڑا عبور رکھتے تھے ۔خان صاحب بڑے غلام علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply