خان صاحب بمقابلہ مولوی صاحب۔۔۔عبدالرؤف

ان دھرنوں نے ہماری ایسی ذہنی افزائش کی کہ ہمارا بھی جی چاہنے لگا کہ کیوں نہ اک دھرنا بیگم کے سامنے بھی ہونا چاہیے ، پھر خیال آیا ہمارے مطالبات کیا ہونگے ؟ کیا ہمارے مطالبات اس اہمیت کے ہوں گے کہ بیگم صاحبہ انھیں توجہ سے سنے یا پھر ہمارا دھرنا بھی ان دھرنوں جیسا ہی ہوگا جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا لیکن دھرنا بدنام ضرور ہوجاتا ہے۔

ویسے دھرنے پر ہمیں بھی جی بھر کر بولنا چاہیے تاکہ اس کے شروع کےثمرات اور بعد کے اثرات سب پر واضح ہوں ، دھرنا جیسا بھی ہو مولوی کا ہو یا خان کا، کارکن خوب محظوظ ہوتے ہیں ، لیکن کچھ چھوکروں کا خیال ہے کہ جو مزہ خان کے دھرنے میں تھا وہ اس مولوی صاحب کے دھرنے میں نہیں۔

اک بات ہے دھرنے کے دوران مائیک سے جو نعرے لگتے تھے وہ ہمیں ایسے ازبر ہوئے کہ جب اک دن بیگم نے ناشتے میں صرف چائے اور روٹی رکھی اور آملیٹ نظر نہیں آیا تو ہم نے احتجاجاً کہا کہ آملیٹ کیوں نہیں ، تو کہا کہ دیر ہوگئی ، ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور نعرہ لگایا ، جینا ہوگا مرنا ہوگا ، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا ، اس وقت بیگم کے ہاتھ میں بیلن بھی تھا میں نے معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اب کی بار دھیمے سے کہا ” آج نہیں تو کل ہوگا “۔۔۔۔

مولویوں کا دھرنا مجھے قدرے سلجھا ہوا لگا تو میں نے بیگم سے کہا کہ مجھے بھی اس دھرنے میں جانا چاہیے ، بیگم نے کہا ، خبردار اگر اس دھرنے میں گئے ، اس وقت کتنا کہا تھا کہ چلو ساتھ چلتے ہیں خان کے دھرنے میں تو آپ نے میری ایک نہیں سنی اور یہی کہتے رہے کہ یہ اک مخلوط میلہ ہے اچھا نہیں لگتا ، اب تم بھی نہیں جاؤ گے اس دھرنے میں ، بچے سے دکھائی دیتے ہو اور دھرنا بھی خالص مردوں کا ہے مجھے ڈر ہے آپ کہیں خاص خبر نہ بن جاؤ۔

اک صاحب نے کہا کہ مولویوں کے دھرنے سے پورا اسلام آباد تھر تھر کانپ رہا ہے ، میں نے کہا کہ جب خان صاحب کے دھرنے سے اسلام آباد ناچ رہا تھا اس وقت آپ کے پیٹ میں مروڑ کیوں نہیں اٹھا؟

ویسے ان دھرنوں کی روایت اچھی پڑتی جارہی ہے اور کچھ نہیں  تو کل ہم اپنے نصاب کا حصہ بنا کر آنے والی نسل کو فخر سے بتا سکیں گے ہمارے سیاسی اجداد ملک کے لیے کتنے مخلص تھے ملک بچانے کے لیے اک دوسرے سے لڑتے تھے ، عمران خان اور فضل الرحمن میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ داڑھی کا باقی دونوں کا کام سیاست ہے۔
کہتے ہیں کہ فضل الرحمان کول مائنڈ ، ٹھنڈے مزاج کے سیاست دان ہیں اور خان صاحب جذباتی ۔

جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی تھی ، اس وقت تک دھرنے کے ثمرات سابقہ لیڈروں کو پہنچنا شروع ہوگئے تھے ، نواز شریف کو جیل سے رہائی مل چکی تھی ، جیل سے گھر اور اب گھر سے لندن ، مریم نواز کو بھی مشروط رہائی کا پروانہ مل چکا ، زرداری بھی جلد یا بدیر سندھ کی طرف کوچ کرنے کو تیار ،مطلب ، مولانا فضل الرحمن نے 2019  میں حُسنِ سیاست کا میلہ لوٹ لیا ، میں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ دھرنے کے شروع کے ثمرات اور بعد کے اثرات ، ثمرات تو نظر آگئے ، اثرات میلہ ختم ہونے کے بعد نظر آئیں گے ، وہ بھی قوم کو۔۔۔

مولانا فضل الرحمن کو اس اسٹیج ، اجتماع ، اور دھرنے سے کیا ملا ؟ مولانا فضل الرحمن نے اس دھرنے سے اپنی طاقت ظاہر کی ، حکومت کو تن تنہا ناکوں چنے چبوائے ، اور حکومت کو یہ بھی بتادیا کہ اسلام آباد میں بیٹھنا صرف تمھارا حق نہیں تھا ، یہاں کوئی بھی جتھہ آکر بیٹھ سکتا ہے ، آئندہ احتیاط کرنا ۔

میڈیا کے کچھ لوگوں کا خیال ہے اگر مولانا کے مطالبات نہ مانے گئے تو مولانا مذہبی کارڈ کھیل سکتے ہیں ، مولانا کی پارٹی اک مذہبی پارٹی ہے اس کی سیاست کا مرکز مذہب ہے ، وہ شناختی کارڈ اور اس کے ساتھ جڑے دوسرے کارڈ کھیلنے سے رہا ، اور ویسے بھی تمام سیاسی جماعتوں کے پاس اپنا اپنا کارڈ موجود ہے ، جب جی چاہتا ہے کھیل لیتے ہیں ، صرف مولانا پر ہی تنقید کیوں ؟
لگتا ایسا ہے کہ خان صاحب آنے والے دنوں میں کچھ نئے یوٹرن لینے والے ہیں ، وہ یوٹرن کچھ یوں ہوں گے۔۔۔
ہم نے نواز شریف کو بیماری کی بنیاد پر رہا کیا ہے ، یہ ہمارا فیصلہ نہیں تھا ، یہ عدالت کا فیصلہ تھا ، اور اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جیل میں بیمار سب سیاست دانوں کو جلد سے جلد این آر او دے دینا چاہیے ، یہ جیلوں میں بھی ہم پر بوجھ ہیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے یہ دونوں دھرنے برسوں یاد رکھے جائیں گے ، اس کی وجہ ؟ دونوں کا کام حکومت ختم کرنا ، گرانا ، دھمکیاں دینا ، لوگوں کو اشتعال دلانا ، غلط فہمیاں پیدا کرنا  ہے، ویسے سیاست کے لیے بھی اک بڑا دل چاہیے ، یہ بھی اک فن ہے کہ آپ اپنی دل موہ لینے  والی گفتگو سے لاکھوں لوگوں کو جمع کرلیتے ہو ، اور وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ ہم حکومت کیوں گرانا چاہتے ہیں ؟
ویسے یہ قوم چونے کی بہت شوقین ہے ، ستر سال سے خود کو چونا لگوا رہی ہے ، اور مزید بھی لگواتی رہے گی ، نام نہاد جہاد کے نام پر ، وطن پر قربان ہونے کے نام پر ، زبان کے نام پر ، سیاست کے نام پر ، صوبے کے نام پر ، مذہب کے نام پر ، فرقہ واریت کے نام پر ۔اسی طرح کٹتے مرتے رہیں گے ، سیاستدانوں کو دوام بخشتے رہیں گے ، لیکن عقل پر پڑے پردے کو   نہیں  ہٹائیں  گے ۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply