بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہــــو لاکھ آفتابِــــ قیامتــــ کی دُھوپــــ تیز
میرے لیے تو سائیء دیوان آپ ﷺ ہیں
تعارف :
اللہ سبحان تعالی کا بڑا کرم ہے کہ سبحان تعالی نے ہمیں دو نعمتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جن کی ازل سے ابد تک کوئی نظیر نہیں، ایک قرآن پاک اور دوسری سراپا قرآن یعنی حضور انور مُحَمَّدٍ مُصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی جو خود قرآن کی تشریح و تفسیر ہے. اگر ہم ان دو نعمتوں کے بتائے ہوئے روشن راستوں کو اختیار کرلیں تو گمراہی کا کوئی امکان نہیں. آج ہمارے درمیان جو مسائل ہمارے بس سے باہر ہوتے جارہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ان دونوں راستوں کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں.
سیرت مُحَمَّدٍ مُصطفیٰ ﷺ کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیا جائے یہ اجروثواب، رہنمائی، اور برکات کا ذریعہ ہے۔ آپؐ تو سراپا رحمت و برکت ہیں اور اجر و ثواب کا سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھنا ہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ضروریات، کمزوریوں، اور کوتاہیوں کا پہلا دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں، جبکہ دوسرا دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جا رہا ہے، اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں مُحَمَّدٍ مُصطفیٰ ﷺ کی سیرت وتعلیمات کے ان پہلوؤں کو ترجیحی بنیاد پر سامنے لانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جن کا تعلق ہماری موجودہ ضروریات، کمزوریوں، اور کوتاہیوں سے ہے۔
اسی طرح مُحَمَّدٍ مُصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات و ارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں ان اشکالات و شبہات کا جواب پایا جاتا ہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جارہے ہیں، اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں.
آج نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ، اور ارشادات مقدسہ کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہوگا، لیکن اس کے لیے ارباب عزم و ہمت اور اصحاب فہم و ادراک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب و فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فکری دھارے کا رخ موڑ دیں۔
سیرت الرسول ﷺ کی عصری اور بین الاقوامی اہمیت کا پہلو جدید انسانی مسائل کے حوالے سے اجاگر ہوتا ہے۔
آج انسانیت مقامی اور عالمی سطح پر کئی پیچیدہ مسائل میں گھری ہوئی ہے اور ہر کوئی ان مسائل کے حل کے لئے پریشان ہے مگر یہ حقیقت تقویتِ ایمان کا باعث بنتی ہے کہ جو عالمی انسانی مسائل موجودہ دور میں پریشانی کا باعث بن رہے ہیں سیرت نبوی ﷺ نے قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کی صورت میں ان کا حل چودہ سو سال قبل ہی عطا فرما دیا تھا۔ اور اب ہماری ذمہ داری ان عصری مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں بلکہ بارگاہ مصطفوی ﷺ سے ملنے والے حل کو نافذ اور رُو بہ عمل کرنا ہے
آغاز تحریر :
قارئین کرام زیر قلم مضمون میں انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے ان چیدہ چیدہ مسائل پر نبی کریم ﷺ کی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں حدیث و سنت مبارکہ کے دائرے میں بلترتیب قلم کو حرکت دی جائے گی جن مسائل نے آج کل کے معاشرے میں انسان کو بے بس کر دیا ہے. یوں تو ہماری زندگی کے لئے رہنما اصول نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارک میں بھر پور ہیں لیکن وہ نقات جو قابل توجہ ہیں اور جس کی وضاحت ضروری ہے وہ درجہ ذیل ہیں.
1: تعمیر شخصیت
2: فلاح انسانیت
3: اجتماعیت
4: مساوات و اعتدال
5: عدل و انصاف
6: انسداد رشوت
7: عورتوں کے حقوق
8: تعلیم نسواں یا عورتوں کی تعلیم
9: انسداد جرائم
10: اقلیتوں سے سلوک
11: معاشی نظام
12: احتساب
13: دہشت گردی
14: انتہا پسندی اور بنیاد پرستی
ترتیب تحریر :
مندرجہ بالا تمام نقات کو دور حاضر کے الفاظ میں مختصر بیان کیا جائے گا اور ان تمام مسائل کے حل کرنے کہ واسطے وہ تمام کوششیں قلم بند ہوں گی جو ہمارے معاشرے کے ان حضرات نے پیش کئے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ان مسائل کا بہترین حل نکالا ہے.
اور پھر ہر ایک مسئلہ کے بارے میں ہم احکام و ترتیب محمدی ﷺ کی روشنی میں بحوالہ حدیث نبوی ﷺ یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گے کہ ان تمام مسائل کا حل نبی کریم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے پوری امت کے سامنے بیان فرمایا ہے اور ان کے لئے راہ روشن اختیار کرنے پر زور دیا ہے
نمبر 1 : تعمیر شخصیت
تعمیر شخصیت کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جدید دور میں ہر ایک ملک اپنے شہریوں کی تعمیر میں سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے، کیونکہ باشعور افراد ہی ایک کامیاب معاشرے کے ضامن ہوتے ہیں، جدید دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ باشعور معاشرے اپنی کمائی کا ایک خطیر حصہ اس میں صرف کرتے ہیں اور آئے دن ان کی افادیت ان پر آشکار ہوتی رہتی ہے کہ باشعور اور مہذب قوم بننے کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ ان کے آس پاس کے لوگوں کی شخصیت کی تعمیر پر آخری حد تک کام کیا جائے تاکہ ان کا مقام دنیا میں ہمیشہ عزت دار کہلائے.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
جناب رسالت مآب ﷺ کے ساتھ نسبت اور عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے ایمانی تقاضوں میں سے ہے اور ہر مسلمان کسی نہ کسی انداز میں اس کا اظہار ضرور کرتا رہتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کن مقاصد کے لیے ہوئی تھی؟
اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ﷺ نے انسانی معاشرہ کو خیر کے کن کاموں کی تلقین کی تھی، شر کے کن کاموں سے روکا تھا، اور بھرپور محنت کے ساتھ انسانی سوسائٹی کو کن تبدیلیوں اور اصلاحات سے روشناس کرایا تھا جن کی وجہ سے انہیں پیغمبر انقلاب ﷺ کہا جاتا ہے۔
اور مؤرخین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی میں اتنی کم مدت میں اتنے مکمل انقلاب کی اور کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
انسانی معاشرے میں افراد کی اسی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے نبی ﷺ نے سب سے پہلے اپنی توجہ کا مرکز فرد ہی کو بنایا اور اپنی تعلیمات و عمل کے ذریعے اتنا کچھ موادِ رہنمائی دنیا کے سامنے پیش فرما دیا کہ فرد کی تمام حیثیتوں اور صورتوں کے لئے کافی ہے، اور رہتی دنیا تک وہ ہر ہر فرد کے لئے رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے گا
حضرت ﷺ کی تعلیمات انسان دوستی سکھاتی ہیں، امن و سلامتی، محبت و اخوت، بھائی چارہ و باہمی احترام سکھائی ہیں۔ ان تعلیمات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو خود اس کے اپنے حقوق سے آگاہ کرتی اور دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی ترغیب دیتی ہیں۔
حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ سخت جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔ محنت شاقہ اور ڈسپلن ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کو برتر انسان بنایا اور رسول اکرم ﷺنے ہماری محنت کی سمت اور سانچے کو بھی متعین کردیا ہے۔
غلط سمت میں دوڑنے والا یقیناًمنزل سے دور ہوجاتا ہے اور غلط سانچے میں خود کو ڈھالنے سے شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر محض خواہش ،علم، غوروفکر، اچھی نیت و ارادے سے انجام نہیں پاتی بلکہ شخصیت معاون عناصر کوعمل کے قالب میں ڈھالنے سے ممکن ہوتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر آرزؤں سے نہیں بلکہ آرزؤں کو حقیقت میں بدلنے سے ہوتی ہے.
آپ ﷺ نے افراد کی تربیت کے لئے جن باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور جن کو کردار کی پختگی کے لئے لازم قرار دیا ان کو درجہ ذیل عنوانات میں تقسیم کیا جاتا ہے
1: علم
2: اخلاق
3: اخوت و درگزر
4: صداقت و امانتداری
5: عفو و درگزر
آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی تربیت کا ایسا بلند معیار پیش فرمایا ہے کہ فہم و شعور رکھنے والوں کے لئے اس کی طرف لپکنے اور اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں.
اسی بارے میں ارشاد ﷺ ہے
“اصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتما هتديتم”
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاجاو گے.
(مشکوۃ، باب فی مناقب الصحابۃ، حدیث نمبر 2018 )
نمبر 2 : فلاح انسانیت
انسانیت کی فلاح و بہبود پر آج کے دور کے لوگوں کی خاص نظر ہے بہت سے ممالک میں آج وہاں کے باشندے امن چین و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ ان کے سربراہوں نے ان کی فلاح و بہبود کے لئے ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی بدولت وہ اپنی زندگی کو بھر پور انداز سے گزار رہے ہیں لیکن جہاں یہ چین و سکون ہے وہاں کئی ایسے خطے بھی ہیں جہاں کا انسان ایک وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے خواہ وہ معاشرہ کتنا ہی امیر کبیر اور اللہ تعالی کے دیئے ہوئے خزانوں سے مالا مال ہو مگر ان کے رعایا کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے.
انسان نے کوشش تو بہت کی ہے بہت سے فارمولہ اور پالیسی سازی سے کام لیا ہے لیکن وہ آج بھی ناکام ہیں کیونکہ ان کی ان سب ترکیبوں میں وہ عیب ہیں جن سے معاشرہ کبھی انسانی فلاح کی طرف نہیں جا پاتا ان کی سب چالیں ناکام ہیں کیونکہ ان کے تعلیمات و پالیسی میں وہ شفافیت و افادیت نہیں جو سیرت نبوی ﷺ کا خاصہ ہیں
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
یہ حقیقت ہے کہ اگر افراد کی اصلاح ہو جائے تو معاشرے کے تمام منفی پہلو تبدیلی کے عمل کو قبول کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہوسکتا ہے.
لیکن بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق انسانیت کے مجموعے سے ہے اور افراد کی تعمیر کے باوجود ان میں اصلاح کی گنجائش موجود رہتی ہے اور اگر اس پہلو کو نظر انداز کردیا جائے اور تو افراد کی تربیت کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کے ضیاع کا امکان ہوتا ہے.
چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرد کے ساتھ پورے انسانی معاشرے کی اصلاح و رہنمائی کے لئے ایسے قوانین مرتب فرمائے ہیں جن کی بنیاد پر وہ خالص انسانی معاشرہ وجود میں آیا جہاں اور تو اور حیوانوں کے حقوق کا بھی تحفظ ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل تھا جہاں اگر بشری کمزوریاں تھی تو ان کا انسداد بھی تھا کوئی خطا تھی تو اس کی تلافی کا نظام بھی موجود تھا.
آپ ﷺ نے یہ سب کچھ پیش فرما کر ثابت کر دیا کہ اگر انسان چاہے تو اللہ تعالی کی جانب سے ودیعت کردہ صلاحیتوں کے بل پر ایسا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جو ہر لحاظ سے قابل رشک و قابل تقلید ہو اور آج یہ حقیقت بھی ہے کہ دنیا میں جہاں کہی کسی بھی معاشرے میں استحکام و ارتقاء کے بعد انہدام و فساد کی صورت پیدا ہوئی تو اس کا واحد سبب یہی تھا کہ انہوں نے تعلیمات محمدی ﷺ کو پس پشت ڈال دیا تھا اور اپنے بنائے ہوئے نظام پر چلنے لگے تھے.
بہرحال اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کے انسانی فلاح و بہبود پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے صرف اور صرف سیرت نبوی، تعلیمات نبوی اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی مشعل راہ ہوسکتا ہے.
آپ ﷺ نے فلاح انسانیت کے لئے جن بنیادی تعلیمات و احکامت صادر فرمائے ہیں وہ درجہ ذیل ہیں جس کو اختیار کرنے سے کوئی بھی خطہ فلاح انسانیت کے لئے عظیم کارنامے سر انجام دے سکتا ہے.
1: اجتماعیت
2: مساوات
3: عدل و انصاف
4: نظام جزا و سزا
مندرجہ بالا تمام نقات وہ خاص مسائل ہیں دور حاضر کے جن کے حل کے لئے تمام انسانیت کوشاں ہے لیکن بہترین حل ان سب کا سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہوتا ہے اور آج بھی اگر ان مسائل کے حل کے لئے احکامات نبوی ﷺ پر عمل درآمد کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کے نتائج سو فیصد مثبت حاصل ہونگے
نمبر 3 : اجتماعیت
آج کے دنیا میں جس رفتار سے ترقی کے منازل طے ہو رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں آئے روز نت نئی ایجادات ہوتی رہتی ہیں، اس تیز رفتار دور میں اگر ایک طرف ترقی و کامرانی کے زینے طے کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف ہر انسان دوسرے انسان سے دور ہوتا جارہا ہے لوگوں کی سماجی زندگی محدود ہوتی جارہی ہے اجتماعیت ختم ہونے کے قریب ہو گئی ہے ہر انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اجتماع ہر معاشرے کی ضرورت ہے ہر انسان کسی نہ کسی طرح سے دوسرے کا محتاج نظر آتا ہے لیکن آج کل خود پسندی اور خود غرضی کا عنصر اتنا زیادہ معاشرے میں سرائیت کر گیا ہے کہ فلاحی معاشرے کی بنیاد بنانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے.
دنیا کی کتنی ہی اقوام آپس میں اخوت و بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں کئی این جی اوز اس پر کام کر رہی ہیں کہ معاشرے کو یکجا کیسے کیا جائے لیکن وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
رسول اللہ ﷺ نے اجتماعیت پر خاص زور دیا ہے اور آپس میں تفرقہ سے منع فرمایا ہے. اسلام نے اپنی اجتماعیت کی شان کو مختلف مواقع پر نمایاں فرمایا ہے اور ایمان کے بعد ارکان اسلام میں پہلا حکم نماز کا ہے اور نماز ہی سے فلسفہ اجتماعیت سمجھ میں آتا ہے کہ کیسے سب لوگ آپس میں بغیر کسی روک ٹوک کے اور ذات پات کے ایک صف میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں.
آپ ﷺ نے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی نہایت تاکید فرمائی ہے اور جماعت کے ساتھ ادا کی گئی نماز کو تنہا پڑھی جانے والی نماز کے مقابلے میں اجر و ثواب کے اعتبار سے کئی گناہ زیادہ فرمایا ہے.
اس پوری تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ آج کے اس مسئلے کو نبی کریم ﷺ نے ہمارے لئے پہلے ہی حل فرمایا ہے کہ معاشرے میں مل جل کر کیسے رہا جائے. تاکہ معاشرے میں اجنبیت کا خاتمہ ہو اور ہر کوئی ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے.
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے :
“دو افراد کا باہم جماعت سے نماز پڑھنا اللہ کے نزدیک چار افراد کے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور چار افراد کا باہم جماعت سے نماز پڑھنا اللہ کے نزدیک آٹھ افراد کے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور آٹھ افراد کا باہم جماعت سے نماز پڑھنا اللہ کے نزدیک سو افراد کے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھنے سے بہتر ہے”
(مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 163 نمبر 2142)
نمبر 4 : مساوات و اعتدال
مساوات کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کسی دوسرے کو خود سے کمتر نہ سمجھے چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو تمام انسانیت برابر ہیں، ہر انسان کی اپنی الگ ایک پہچان ہے اور اس کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہم سب پر فرض ہے.
آج کی دنیا میں مساوات کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہونا چاہیے ہر کوئی خود کو دوسرے سے افضل سمجھتا ہے چاہے وہ مال و دولت کے لحاظ سے ہو یا پھر ذات پات کے لحاظ سے دنیا میں ایسے ممالک کی کمی نہیں جہاں ہر دوسرا انسان شخصی نفرت کا اس وجہ سے شکار ہے کہ وہ پہلے سے میل نہیں کھاتا اس کی شخصیت کو اس وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ دوسرے ان سے مختلف ہیں موضوع تفصیل کا محتاج ہے لیکن ہم مختصر یوں بیان کریں گے کہ اس مسئلہ کے بارے میں پوری دنیا میں آگاہی مہمات چلائی جاتی ہیں علمی و فکری طور پر بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کیسے انسان کو اس انا کی ضد سے نکالا جائے.
لیکن جو بہترین نمونہ ہم کو تعلیمات نبوی ﷺ میں ملتا ہے اس کی مثال اور کہی نہیں ملتی آج مغرب میں جو ذات پات کے لحاظ سے گومگو کی کیفیت ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ ان میں بنیادی تحقیق کی کمی ہے اور وہ اس نظریہ سے کوسوں دور ہیں جو نبی کریم ﷺ کا پیش کردہ ہے.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
نبی کریم ﷺ نے معاشرے میں اونچ نیچ ختم کرنے پر زور دیا ہے اور مساوات کا درس نہایت شفافیت سے دیا ہے.
جاہ و مال کی غیر ضروری نمائش کا مقصد اپنی برتری کا اظہار ہوتا ہے. اس لئے آپ ﷺ نے آرائش پر تو پابندی عائد نہیں کی لیکن نمائش کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے، اور ہر معاملے میں مساوات کا درس اس لئے دیا ہے کہ معاشرے میں لوگ نمائش پسندوں کا شکار نہ ہو سکے.
چنانچہ عبادات و ریاضت ، کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے ، ملنے جلنے ، اور رہنے سہنے سے لیکر لباس و مکان تک ہر مقام پر آپ ﷺ کی ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں اور اسی انداز سے اگر ہر معاملے میں اعتدال و میانہ روی کو اختیار کرلیا جائے تو معاشرے میں مساوات خود بخود قائم ہوسکتی ہے. آپ ﷺ کی ان تمام ارشادات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مساوات کا درس نبی کریم ﷺ نے بہت خوب انداز میں فرمایا ہے انہی احکامات پر عمل پیرا ہونے سے مساوات کی اولین مثال معاشرے میں پیدا کی جاسکتی ہے.
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے :
“کتنے ہی پراگندہ حال چھیتھڑوں میں ملبوس انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی اس کو پورا کرتے ہیں”
(ترمذی جلد 5 صفحہ 459 نمبر 3880)
اور خود نبی کریم ﷺ نے کس حالت میں زندگی بسر کی؟
“حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گواہی کی روشنی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک یمن کی بنی ہوئی لنگی پیش کی اور خدا کی قسم کھا کر کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے انہی دو کپڑوں میں اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کی تھی”
(بخاری شریف جلد 4 صفحہ 21)
اس تمام قلم شدہ تحریر کا یہ مقصد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات کو قائم و برقرار رکھنے کے لئے جو معاشرتی اقدار کو بیان فرمایا ہے وہی راہ نجات ہے اور اس میں بہترین حل موجود ہے اس مسئلہ کو حل کرنے کی، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ان اوصاف کو اپنی زندگی میں کیسے ڈھال دیں. جس معاشرے میں اونچ نیچ کی تمیز ختم ہو ذاتی حیثیت کا فقدان ہو جائے وہ اقوام فلاح پاتی ہیں اخوت و بھائی چارے کی فضا ہو تو ہر سو امن و امان کا بول بالا ہوگا.
نمبر 5 : عدل و انصاف
آج اگر دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ انسانیت جس بنیادی حق سے محروم ہے وہ عدل و انصاف جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے قانون میں عدل و انصاف کے الفاظ تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا جرم بھی ہوتا ہے مجرم کھلے عام گھومتا رہتا ہے یہ سب اس وجہ سے کیونکہ عدل و انصاف کا فقدان ہے.
ایک انسان جرم کرتا ہے عدالت میں کیس دائر ہوتا ہے کبھی کبھار تو باہر ہی معاملہ طے ہوجاتا ہے اور مجرم جیل یا حوالات جاتا ہی نہیں جب ایسا نظام ہوگا تو وہ معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا وہاں تو شدت پسندی پیدا ہوگی جو آگے جاکر کئی کبیرہ گناہ تک کروا بیٹھتی ہے انسانوں سے، دنیا کے عدل و انصاف تو اس سطح تک ہی ہیں کیونکہ جب تک کسی بھی قانون پر پوری آزادی سے عمل درآمد نہیں ہوگا وہ قانون معاشرے کو عدل و انصاف فراہم نہیں کرسکتا.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
دنیا کا یہ سارا نظام جو آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے صرف اللہ تعالی کے عدل و انصاف کی بنا پر قائم ہے، عدل و انصاف صرف نظام حکومت و سلطنت کے برقرار رکھنے کے لئے ضروری نہیں یہ و صفات ہیں جن کا ہونا ہر شعبے میں ضروری ہے.
عام طور پر شاہی حکومتوں میں بادشاہ اور شاہی خاندان کے افراد قانون سے بالاتر ہوتے تھے جبکہ رعایا کی ذرا سی بے ادبی و گستاخی بھی ناقابل برداشت اور سخت ترین سزا کی موجب ہوتی تھی. اس کے برعکس نبی کریم ﷺ نے اسلامی قانون کی بالادستی قائم کی امیر و غریب ، حاکم و محکوم راعی و رعایا کو قانون کی نظر میں یکساں اور مساوی حیثیت کا حامل قرار دیا. اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی قانون الہی کی تعمیل کا اصل نمونہ بطور مثال اپنی ذات گرامی اور اپنے اہل بیت کے ذریعے پیش فرمایا.
ایک واقعہ قابل تحریر ہے
ایک بار ایک مخزومی (قبیلہ مخزوم) عورت نے چوری کی، نبی کریم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، چونکہ اس کا تعلق معزز قبیلے سے تھا اس لئے صحابہ کرام نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیج کر سفارش کرانی چاہی.
آپ ﷺ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ انس رکھنے کے باوجود ان پر غصہ ہوئے اور فرمایا کہ
” پہلی امتیں اسی بنا پر تباہ و برباد ہوئیں کہ ان کے ہاں جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اس کو سزا دیتے اور جب وہی جرم کسی بڑے رتبے والے آدمی سے سرزد ہوتا تو اس کو چھوڑ دیتے پھر فرمایا ( اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں یقیناً اس کا ہاتھ کاٹتا) ”
(بخاری جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 1282 نمبر 3288)
یہ تھا آپ ﷺ کا عدل و انصاف جس نے فلاح انسانیت پر مبنی مثالی اور کامیاب معاشرے کی بنیاد رکھی.
آپ ﷺ نے جس عالمگیر عدل و انصاف کی ترغیب دی اور اس کو عملی طور پر رائج کرکے دیکھایا اس کی رو سے سب انسان برابر تھے، اور آپ ﷺ اسلام کے اور اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی اسی انصاف سے کام لیتے تھے، جس کے ذریعے اپنے صحابہ کے مابین فیصلے فرماتے اور کسی سے اس بنا پر تعصب کا مظاہرہ نہ ہوتا کہ وہ شخص مسلمان نہیں.
نمبر 6 : انسداد رشوت
جدید دنیا میں آج کے دور میں جو سب سے بڑی لعنت ہے اگر ہم اس کو رشوت کا نام دیں تو یقین ہے کہ غلط نہ ہوگا، رشوت ہی وہ چیز ہے جو کسی حقدار کا حق دوسرے کو غلط انداز سے منتقل کردیتا ہے جو کہ معاشرے مین بگڑاو کا سبب بنتا ہے، یہ ایسی لعنت ہے جس نے قلیل مدت میں اچھے اچھے معاشروں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے.
دنیاوی قانون میں اس بیماری کی روک تھام کے لئے بہت سے اقدامات کئے اس کے لئے خاص ادارے بنائے گئے لیکن کبھی بھی وہ اقدامات پورے کے پورے مسلط نہ ہو سکے جس کی وجہ سے معاشرے میں ظلم و استبداد ، برائیاں، بدعنوانیاں، بڑھتی رہی اور انصاف کا قلع قمع ہوتا رہا اور عام لوگوں کے جائز حقوق غصب ہوتے رہے اور ان کے جان و مال پر ڈاکہ پڑتا رہا حق تلفی، فریب کاری، حرص و طمع، عہد شکنی اور باہمی نزاع کا دروازہ کھلتا گیا اور نظام کا درہم برہم ہوتا گیا.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
“عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ ”
( سنن أبو داود :3580 ، القضاء – سنن الترمذي :1337، الأحكام – سنن ابن ماجه :2313 ، الأحكام)
” ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے”
زیر بحث حدیث میں بھی رشوت کا لین دین کرنے والوں کو نبی رحمت ﷺ کی زبان پر میں ملعون قرار دیا گیا ہے کسی عمل پر اللہ تعالی یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت کا معنی ہے کہ اسےانتہائی ناراضگی و بیزاری کا اعلان ہے.
اللہ تعالی کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ رحمان و رحیم نے اس شخص کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کر دینے کا فیصلہ فرما دیا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین ﷺ نے ایسے شخص سے بیزاری کا اظہار فرمانے کے ساتھ ساتھ ارحم الراحمین کی رحمت سے محروم کئے جانے کی بد دعا فرما رہے ہیں.
بد قسمتی سے اس واضح شرعی حکم کے باوجود رشوت اور اس سے ملتی جلتی بہت سی شکلیں آج ہمارے درمیان عام ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ہلاکتوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے ، امانت داری اور خیر خواہی اہل کاروں سے رخصت ہو چکی ہے ، اور مصلحت پسندی و خود غرضی ہر ایک کا مذہب بنا ہوا ہے.
نمبر 7 : عورتوں کے حقوق
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں.
لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خرید و فروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیا جاتا تھا، حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے.
ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے.
اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر و ذلیل نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے معاشی و سیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
اسلام فطرت انسانی کا مظہر ہے جس کی تعلیمات کے مطابق بنیادی حقوق کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں ہر بچہ فطرت اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے اور سب انسان اولاد آدم ہیں اس لحاظ سے اسلام میں جنس کی بنیاد پر عورت مرد کی کوئی تفریق نہیں اللہ کے نزدیک دونوں ہی اس کی مخلوق ہیں
احادیث رسول ﷺ میں بھی عورتوں کے حقوق، فرائض اور ان کی معاشرے میں اہمیت کا ذکر موجود ہے.
خاتم النبین حضرت محمد ﷺ نے ایک حدیث میں عورت کے وجود کو دنیا میں محبوب قرار دیا
(الحدیث)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اس لئے کہ عورتوں کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کاحصہ ہے اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اسے چھوڑے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کاخیال رکھو”
صحیح بخاری (٥١٨٤)
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو‘‘
(الحدیث)
دیگر فرمایا
“جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی پھر ان کو ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے”
عورتوں کے مسائل سے متعلق کوئی بھی قانون ہو اس کی تشریح وتعبیر میں ہمیشہ انصاف وتوازن ومعاشرتی مفاد مقدم ہوگا لہٰذا اگر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اسلام میں دیے گئے عورتوں کے حقوق وفرائض کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بظاہر امتیازی نظر آنے والے قوانین امتیازی نہیں بلکہ خود عورت کی عزت وعصمت کے محافظ اور معاشرے میں اخلاقی وخاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ہمارے ملک میں جو کہ اسلام کے نفاذ کے لیے وجود میں آیا یہاں بھی عورتوں پر تشدد اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کئی قوانین تشکیل دیے گئے ہیں
حضرت رسول اکرم ﷺ نے اسی طرح حجۃ الوداع میں مسلمانوں سے خطاب فرمایا:
” اے مسلمانوں تم اپنی بیویوں پر کچھ حق رکھتے ہو اور وہ بھی تم پر کچھ حق رکھتی ہیں تم پر ان کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ اس لیے کہ وہ تمہاری مددگار و یاور ہیں اور تم نے ان کو اللہ سے امانت کے طور پر لیا ہے”
نمبر 8 : تعلیم نسواں یا عورتوں کی تعلیم
کسی بھی ملک میں تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل معاشرہ اس کی کامیابی کے لئے بہت ضروری ہے ایک باعلم ملک و قوم ہی ترقی کے وہ منازل طے کرسکتے ہیں جو دور حاضر کے ضرورت کے عین مطابق ہو.
دنیا میں جتنا زور مردوں کی تعلیم حصول پر لگایا جاتا رہا ہے اتنا ہی عورتوں کے لئے بھی کوششیں ہو رہی ہیں، بعض افراد کا یہ دعوہ ہے کہ اسلام میں عورتوں کی تعلیم پر سنت کی رو سے کوئی خاص شواہد موجود نہیں یعنی واضح الفاظ میں یہ کہ سیرت محمدی ﷺ کے پیروکاروں میں عورتوں کی تعلیم پر آزادی کم اور پابندیاں زیادہ ہیں جو کہ ہمارے سنت نبوی ﷺ سے جوڑتے ہیں خاص کر مغربی تہذیب لیکن یہ بات سراسر غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی ہے
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
اسلامی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔
اگر اس حکم و اصول کو ترک کر دیاجائے تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت بے شمار احکام شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے وقت عموماً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے، لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کے لیے ثابت ہے، انہی کے ذریعے یہ حکم خواتین کے لیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے۔
فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“حصول علم تمام مسلمانوں پر (بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے”
(سنن ابن ماجہ، المقدمہ، 181، نمبر: 224)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے”
(ابن عبد البر، جامع بیان العلم، 1: 24، نمبر: 15)
لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کے لیے تو اب اسوۂ رسول اللہ ﷺ اور سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ
حضور اکرم ﷺ نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا:
“حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورتیں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں:
آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے، لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے.
آپ ﷺ نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اس دن آپ ﷺ ان سے ملتے انہیں نصیحت فرماتے اور انہیں ﷲ تعالیٰ کے احکام بتاتے”
(صحیح بخاری، کتاب العلم، 1: 50، رقم: 101)
نمبر 9 : انسداد جرائم
جتنی انسانی تاریخ پرانی ہے اتنی ہی جرائم کی تاریخ، جدید دور میں بھی جرائم کا خاتمہ انتہائی دشوار گزار ہے روز روز نئے نئے طریقوں سے جرائم کی شرح بڑھتی رہتی ہے دنیا کے تمام قانون اس کی سرکوبی کے لئے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن مکمل خاتمہ کر نہیں پاتے.
کیونکہ یا تو جرم کی سزا اس کے عین مطابق نہیں ہوتی یا پھر مجرم کو شفارشی عناصر سزا سے بچا کر اڑا لے جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں جرم کی شرح کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہتی ہے.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
ریاست کے استحکام اور اس کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار جرائم کی حوصلہ شکنی کرنے والے قوانین کے اجرا اور ان کے نفاض کا ہوتا ہے، یہ کام جس قدر اختیاط ، غیر جانبداری اور انصاف سے کیا جائے گا اسی قدر ریاست و معاشرے کے لئے مفید ہوگا.
تعلیمات و احکامات نبوی ﷺ کی خصوصیات یہ ہیں کہ آپ ﷺ کو انسداد جرائم کے سلسلے جو قوانین عطا ہوئے ہیں وہ وحی کی صورت میں منزل من اللہ ہیں ، جو کہ انسانی لغزشوں اور بشری کوتاہیوں سے بلکل پاک ہیں.
جرائم کے انسداد و سدباب کے لئے قوانین کا وضع کرنا ہی کافی نہیں ہوتا ، اصل مسئلہ ان کا نفاذ ہے.
نبی کریم ﷺ نے اس معاملے میں بھی اپنے عمل مبارک سے واضح رہنمائی فرمائی اور جرائم کی روک تھام کے لئے صرف قوانین کے اعلان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سلسلے کو تفریق سے محفوظ رکھتے ہوئے تمام اراکین ریاست پر انہیں یکساں طور پر نافذ کیا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رعایت سے کام نہیں لیا.
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے
” خدا کی قسم اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو محمد ﷺ اس کا بھی ہاتھ کاٹتا”
(بخاری شریف صفحہ 122)
اس حدیث میں پوری امت کے لئے یہ واضح پیغام ہے کہ کوئی بھی جرم کرے چاہے وہ کتنی ہی اونچی حیثیت کا مالک ہو اس کی سزا اس کو عین بروقت اور بھرپور ملنی چاہئے تاکہ معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم و برقرار رہے.
نمبر 10 : اقلیتوں سے سلوک
اقلیت کسی بھی ملک کا لازمی جز ہوتا ہے، ملک کے حکمرانوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت اقلیت برادری مین امن کی فضا قائم رکھے اور ان کو وہ تمام سہولیات فراہم کرے جو اکثریت کو حاصل ہوں، ان کو بلاوجہ عتاب کا نشانہ نہ بنایا جائے.
دور حاضر میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ہر ایک ملک میں رجحان خطرناک حد تک غیر مطمئن ہے خواہ وہ کوئی بھی اقلیت ہو اتنی تعلیم و تربیت اور جدید نظام کے باوجود ایک معاشرہ اقلیت کو وہ حقوق نہیں دے پاتا جو کسی بھی اقلیت کا بنیادی حق ہوتا ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں.
فلاحی ریاست میں اقلیت کے حقوق کی پامالی نہیں کی جاتی ہم آج کسی بھی ملک میں نگاہ دوڑائیں تو ہم کو وہ دراڑ ضرور نظر آجاتی ہے جس سے جھانک کر اقلیت کے بےبسی دیکھی جاسکتی ہے.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
اقلیتیں ایک اسلامی ریاست کی اہم برادری ہوتی ہے، اسلامی تعلیمات اور احکامات نبوی ﷺ کی خوبی یہ ہے کہ اگر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی ان کا اثر ضرور قبول کرتے ہیں اور انہیں اپنانے کی خواہش رکھتے ہیں.
اسلام کے زریں دور میں جب مسلمان پوری طرح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور اسلام کا نظام اپنے ہر پہلو سے پورے جہاں میں تابانیاں بکھیر رہا تھا تو اقلیت خود کو ان کے درمیان رہنا زیادہ محفوظ سمجھتے تھے.
نبی کریم ﷺ نے اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید فرمائی ہے اور اپنے طرز عمل سے بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو واضح کیا ہے. ایک واقعہ قابل تحریر ہے
“ایک غیر مسلم ایک شب آپ ﷺ کا مہمان ہوا
آپ ﷺ نے اسے بکری کا دودھ پیش کیا، وہ پی گیا، دوسری بکری دوہی گئی، وہ اس کا دودھ بھی پی گیا تیسری بکری دوہی گئی اور اس طرح وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا لیکن آپ ﷺ نے اپنے انداز سے کسی ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا اور اس حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صبح تک مسلمان ہو چکا تھا”
(ترمذی ، باب ماجاء ان المومن یا کل فی معاواحد الاطمعہ)
آپ ﷺ نے مکمل اختیار کے ہوتے ہوئے مدینہ منورہ کی ریاست میں غیر مسلموں کی گستاخیوں اور شرارتوں کے باوجود کبھی ان پر سختی نہیں فرمائی بلکہ ہر مرتبہ درگزر سے کام لیا.
“ایک مرتبہ ایک یہودی نے کہہ دیا کہ ‘قسم ہے اس ذات کی جس نے موسی علیہ سلام کو تمام انبیاء پر فضیلت دی’ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ نے سنا تو ان سے رہا نہ گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا محمد ﷺ پر بھی؟ اس نے کہا ہاں، صحابی رسول ﷺ نے غصے میں اسے تھپڑ مار دیا ، وہ یہودی سیدھا آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور واقعہ بیان کیا ، آپ ﷺ نے یہودی کو سخت سست کہنے کی بجائے اس صحابی پر برہمی ظاہر فرمائی”
(سیرت نبی جلد 2 صفحہ 224)
نمبر 11 : معاشی نظام
قومی سطح پر معاشی زندگی میں استحصالی، خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ طرزِ عمل وہ بنيادی انحراف ہے جو اعليٰ اقدار کی تخلیق، ارتقاء اور استحکام میں سدِ راہ کے طور پر حائل رہتا ہے.
کیونکہ جب انسانی طرزِ عمل پر حرص، لالچ، بخل و کینہ، خود غرضی اور مفاد پرستی غالب ہو جائے تو اجتماعی مفاد کی خاطر معاشرے سے انفاق، نفع بخشی اور فیض رسانی کا عنصر غائب ہو جاتا ہے. جس کے نتیجے میں جہاں ارتکاز کا رجحان پیدا ہوتا ہے وہاں معاشرے کے عام افراد معاشی تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں. چنانچہ معاشرتی زندگی میں تفاوت، ہر سطح پر مفاد پرستانہ طرزِ عمل کو جنم دیتی ہے.
خود غرضی اور مفاد پرستی کی بنيادوں سے اٹھنے والی معیشت معاشرے کی سياسی اور اجتماعی اقدار کو بھی پامال کرتی ہے، اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے اپنے اخلاقِ رذیلہ اور اجتماعی بقاء کے تصور سے انحراف کے باعث بالآخر محکومی اور غلامی جیسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے.
اندریں حالات اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ افرادِ معاشرہ کے دل سے افلاس کا خوف رفع کيا جائے۔ معاشی تعطل اور غیر فطری تفاوت کو ختم کرنے کے لیے ایسا مؤثر اقتصادی نظام وضع کيا جائے جہاں ہر شخص کی تخلیقی جدوجہد بحال ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک معاشرے میں رائج معاشی نظام کے بنيادی تصورات، اَقدار اور عملی اقدامات میں ایسی بنيادی تبدیلياں نہ لائی جائیں جو ان اہداف کے حصول کو یقینی بناتی ہوں۔
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
اسلام کے دیے ہوئے تصورِ معیشت کے تحت ہر شخص حتی القدور کسب معاش کا پابند ہے. بلا عذر شرعی تساہل، غفلت اور کاہلی کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے.
سیرت الرسول ﷺ کا اس جہت سے مطالعہ ایسے واضح اُصول فراہم کرتا ہے جو زندگی کے معاشی پہلو میں آنے والی خرابیوں کی اصلاح اور اس پہلو کے ارتقاء کے حوالے سے جملہ تقاضوں کا احاطہ کرتا ہے.
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے قول و عمل سے اسلام کے معاشی نظام کے خدو خال اور ان کے بنيادی تصورات نہ صرف واضح فرمائے بلکہ ایسی تعلیمات عطا فرمائیں جو معاشی رویوں اور رجحانات سے نہ صرف مختلف تھیں بلکہ آنے والے زمانوں کے لئے ایک رہنما اُصول قرار پائیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی عطا کردہ تعلیمات میں مسئلہ معاش کو براہ راست انسانی زندگی میں نیکی اور بدی کے امتياز میں ایک موثر بلکہ فیصلہ کن عامل قرار ديا ہے۔
حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگايا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمايا :
“طلب کسب الحلال فريضة بعد الفريضة”
“رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے”
(بیہقی، السنن الکبری، باب6 : صفحہ 128، رقم : 11695)
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
“عن رافع بن خديج، قال : قيل : يا رسول اﷲ، أيّ الکسب أطيب؟ قال : عمل الرّجل بيده وکلّ بيع مبرور”
“حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ سے پوچھا گيا :
يا رسول ﷲ ﷺ! کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے؟
آپ ﷺ نے فرمايا : آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز تجارت”
(أحمد بن حنبل، المسند، جلد 4 صفحہ 141، نمبر 17265)
نمبر 12 : احتساب
احتساب کی لغوی معانی حساب، جانچ پڑتال اور آزمائش کے ہیں اور اس کی ضرورت سے کوئی باعزت اور متمدن معاشرہ بھی انکار نہیں کر سکتا خواہ وہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر احتساب کی ضرورت و اہمیت ہمیشہ مسلم رہی ہے.
احتساب کی ضرورت ہر متحرک اور فعال و مستحکم معاشرے میں ہوتی ہے ہم مانتے ہیں کہ دنیا میں انتہائی سخت احتساب کے قوانین موجود ہیں جن کی رو سے مجرموں کو سخت سے سخت سزا بھی ملتی رہی ہے بعض ملکوں میں تو یہ سزا سزاِ موت ہوتی ہے لیکن احتساب کی بنیاد ہمارے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بہت سخت اور مظبوطی سے رکھی گئی تھی، آج کہ قوانین کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو کچھ لچک دیکھائی دیتا ہے لیکن سیرت نبوی ﷺ کے احکامات میں ایسی کوئی نقش پایا نہیں جاتا جو اسلامی ریاست کا خاصہ تھا.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
آپ ﷺ نے قوانین کے بلا امتیاز نفاذ کے سلسلے میں ہمیشہ اہم اقدامات کئے اور ریاست کے تمام اراکین پر بغیر تخصیص کے انہیں لاگو کیا اور اس بارے میں نہ کسی کی سفارش قبول کی اور نہ رعایت سے کام لیا.
ایک واقعہ قابل تحریر ہے
آپ ﷺ کی مدینہ آمد سے قبل وہاں آباد یہود کے قبائل بنو نضیر اور بنو قریظہ میں عزت و شرف کا بلکل غیر فطری اور نہایت غیر معقول طریقہ رائج تھا.
جس کے مطابق بنو قریظہ کا کوئی شخص بنو نضیر کے کسی فرد کو قتل کردیتا تو قصاصاً قاتل کو بھی مارا جاتا، لیکن اگر کوئی بنو نضیر کا فرد بنو قریظہ کے کسی شخص کو مار ڈالتا تو اس کا صرف خون بہا سو وسق کھجور کی صورت میں ادا کیا جاتا.
آپ ﷺ جب اس قسم کی صورت حال پیش آئی تو آپ ﷺ نے اس غیر فطری اور غیر منصفانہ طریقے کو ختم کردیا اور تمام قبائل میں برابر کا قصاص جاری فرما دیا.
(ابو داود جلد 4 صفحہ 165 نمبر 4494)
نمبر 13 : دہشت گردی
دہشت گردی سے عالمی انسانی برادری میں امن و سکون، باہمی برداشت و رواداری اور افہام و تفہیم کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں
دوسری طرف یہ حالات عالم اسلام اور عالم مغرب کے درمیان تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
“إِنَّ دِمَاء کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ”
“بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں
(مقرر کی گئی) ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے”
(بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی، صفحہ 620، نمبر : 1654)
اسلام خود بھی امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے.
اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیے نام ہی اسلام پسند کیا ہے. اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے.
سیاسی، فکری یا اعتقادی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کی اکثریت کو کافر، مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہوئے انہیں بے دریغ قتل کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی کیا اہمیت ہے.
حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“لَا يُشِيرُ أَحَدُکُمْ إِلَی أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُکُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ، فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ”
’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة بالسلاح، 4: 2020، رقم: 2617)
نمبر 14 : انتہا پسندی و بنیاد پرستی
انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ایک عالمگیر حقیقت ہے اور ہر طبقہ فکر، ہر مذہب، اور ہر علاقے میں موجود ہے، فرق صرف یہ ہے کہ بعض چیزیں میڈیا کے اس دور میں سامنے آگئی ہیں یا انہیں بعض مقاصد کے تحت سامنے لایا جا رہا ہے.
انتہا پسندی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی قوم یہ تصور کر لے کہ نہ صرف حق اس کے پاس ہے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے دوسروں پر مسلط کیا جائےاگر مخاطب نا مانے تو اس پر تشدد کیا جائے اور اس سے بزور منوایا جائے.
سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں
اسلام کی رو سے تو انتہا پسندی وہ ہے جب اسلام و سنت کے طے کردہ احکامات و ارشادات سے تجاوز کیا جائے.
مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کا فائدہ پوری طرح سے غیر اقوام اٹھا رہے ہیں۔ ہم آپس میں تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں ، ہماری ہی طاقت کا استعمال ہمارے ہی اوپر کیا جا رہا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں ہم پر راج کر رہی ہیں اور ہم ان کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دیکر اپنی بچی زندگی گزارنے پر آمادہ ہو رہے ہیں.
اسلام تو اوّل تا آخر امن ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہا پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔
حضور نبی ﷺ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں یوں دیا کہ:
” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى، أَبَلَّغْتُ؟
قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
ثُمَّ قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟
قَالُوا: يَوْمٌ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟
قَالُوا: شَهْرٌ حَرَامٌ:
قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟
قَالُوا: بَلَدٌ حَرَامٌ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ بَيْنَكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ، هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَبَلَّغْتُ؟
قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ”
اے لوگو!
تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ ایک ہے.
آگاہ ہو جاوّ
کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے.
کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری ہے سوائے تقویٰ کے.
بیشک تم سب میں سے ﷲ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے.
سنو! کیا میں نے تم تک دعوتِ حق کی بات پہنچا دی؟
لوگوں نے جواب دیا: جی!
رسول ﷲ ﷺ نے پہنچا دی ہے.
آپ ﷺ نے فرمایا:
جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ اس
(دعوتِ حق) کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
(احمد بن حنبل، المسند، ج:5، ص:411، رقم:23536)
حروف آخر
محترم قارئین!
دیا گیا عنوان نہایت تفصیل طلب ہے میں نے اپنی حقیر سی کوشش کی ہے کہ
سردار دوجہاں محمد مصطفی ﷺ کے تعلیمات و احکامات پر مختصر سی کاوش تحریر کروں، دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی وجود پائے گا جس کا حل تاجدار حرم ﷺ کی سیرت و شخصیت مبارکہ میں ہمیں نہ ملے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی حیات میں اُن تمام احکامات کو شامل کرلیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور ہر مسئلے کو سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں تلاش کریں انشاءاللہ ہم کو روشن راہ ملے گی موضوع پر لکھنے کا بنیاد صرف یہی ہے کہ آپ ﷺ کی احادیث کو بطور ثبوت و حل پیش کیا جاسکے جس سے احکامات نبوی ﷺ و حل واضح ہو. ہمارے لئے ہر ایک حدیث میں زندگی کی پوری تفسیر موجود ہے جس کو لکھنا شاید ذاتِ واحد اللہ تعالی کے علاوہ کسی کے بس کا کام نہیں. انسان جتنی بھی کوشش کر لے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا جہاں نبی آخر الزمان ﷺ کی صفات مقدسہ کی آخیر کر سکے.
دعا ہے اللہ رب العزت ہم سب کو سیرت نبوی ﷺ پر چلنے اور آپ ﷺ کے احکامات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
عبداللہ خان چنگیزی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں