ھنڈا ایٹلس ایک حادثہ یا لوگوں کا منظم قتل ۔۔۔ شریف اللہ محمد

محمد عامر ایک سیلف میڈ کیمیکل انجینئر تھا اور نہایت محنتی لڑکا تھا ایسوسی ایٹ انجنئیرنگ کے بعد اسنے اپنا بی ٹیک آنرز کمپلیٹ کیا۔ وہ کچھ نیا سیکھنے کے لئے ہر لمحہ آمادہ رہے۔ اللہ انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔

عامر کی اپائنٹمنٹ لیڈ فرنیس کے لئے میکینیکل فورمین کے طور پر ہوئی۔ عامر کے ڈیپارٹمنٹ میں لیڈ کی تین فرنیسسز ھیں، جن میں بیٹری انگٹ کی تیاری ہوتی ہے جس کو ایٹلس بیٹری بھیجا جاتا ہے جہاں ان انگٹ کو بیٹری پلیٹس کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیڈ میلٹنگ کی یہ آر ٹی ایف فرنیسسز پہلے دن ہی سے بہت اچھا کام کررہی تھیں۔ اور ان میں کوئی میجر خرابی ان سالوں میں نہیں آئی۔ عا مر کے یونٹ کے اندر کل 3 فرنچ میڈ فرنیسسز موجود تھیں جس کی لوگنگ، رپورٹنگ اور مینیجمینٹ کی ذمے داری عامر کی تھی۔

ایلومینیم فرنیس کا ایک الگ ڈیپارٹمنٹ ہے جہاں ایلومینیم کی میلٹنگ اور ریفائیننگ پراسیسنگ ہوتی ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں ایلومیینیم کی ایک فرنیس موجود ہے جس میں آئے دن کوئی نہ کوئی فالٹ سامنے آتا رہتا ہے۔ اور فالٹ بھی اس قسم کے جس کی کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس فرنیس میں ایلومینیم میلٹنگ کےبعد ریفائینڈ ایلومینیم کار / موٹر سائیکل پارٹس اور کین وغیرہ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

کچھ دن پہلے عامر نے خود بتایا تھا ٹاپ مینجمنٹ کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ لیڈ کی کی فرنیس کو ایلومینیم کی پراسیسسنگ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ چونکہ عامر خود کیمیکل انجینئر تھا اسی لئے اسکی رائے یہی تھی کہ ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ باقی سارے لوگوں نے جو مشورہ دیا تو اس میں وہ دونوں چیزیں شامل تھی کہ یہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے اور ہوسکتا کہ پراسیس کمپلیٹ ہو یعنی ففٹی ففٹی۔ دس بارہ دن پہلے ٹاپ مینجمنٹ نے کسی انڈین کنسلٹنٹ سے بھی بات کی (اس انڈین کنسلٹنٹ کمپنی نے ھنڈا میٹلز میں ان فرنیسز کی ایریکشن کے حوالے سے بھی کام کیا تھا۔) اور ان سے پوچھا گیا کہ اگر ہم اس فرنس میں ایلومینیم کا پراسس کمپلیٹ کرائیں تو یہ کیسا رہیگا تو انہوں نے بھی ان کو یہی مشورہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ بلاسٹ ہوجائے۔ خود عامر بھی کیمیکل اینجنئیر تھا اسکا مشورہ بھی یہی تھا کہ ایسا نہ کیا جائے۔

یاد رہے کہ ایلومینیم کی فرنیسز اور لیڈ کی فرنیسز کے بنیادی ڈیزائن میں ہی فرق ہے،

1۔ لیڈ کی فرنیس میں سامنے اور پیچھے دونوں طرف سے ایئر ایگزاسٹ ہے اور ایلومینیم کی فرنیس میں ایگزاسٹ صرف سامنے کی طرف سے ہوتا ہے۔

2۔ لیڈ فرنیس میں برنر فرنس کے اندر موو کرتا ہے اور ایلومینیم کی فرنیس میں برنر فکسڈ ہوتا ہے اور فرنس کی اوپننگ پر موجود ہوتا ہے۔

3۔ چونکہ لیڈ کی فرنیس میں برنر اندر کی طرف موو کرتا ہے اور پھر باہر آتا ہے اسی لئے اسکا برنر کے ساتھ پائپڈ روٹیٹنگ واٹر سپلائی بھی اٹیچ ہوتی ہے تاکہ یہ ٹھنڈا رہے اور یہ خود نہ میلٹ ہو جبکہ ایلومینیم فرنیس میں فکسڈ برنر کو کول ڈاون کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

دوسری طرف 14 نومبر کے دن کمپنی کی ٹاپ مینیجمنٹ کی باڈی لینگویج ہی بڑی تبدیل تھی، فرنیس کے سامنے موجود ایمپلائیز تک یہ کہتے ہوے پائے گئے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہاں تک کہ کچھ لوگوں کی ذمے داری لگائی گئی تھی کہ کسی گڑ بڑ کی صورت میں گیس سپلائی، پاور سپلائی اور آکسیجن سپلائی کس کس نے بند کرنی ہے۔

اورکچھ کی ذمے داری لگادی گئی تھی کہ بڑے فائیر ایکسٹنگویشر کوبھی وہ اندر ڈریگ کرکے لائیں۔

—————————————————————————–

واقعہ ہونے کے بعد کمپنی کی اپنی ایمبیولینس کو استعمال کیا گیا جن کا کام تھا کہ وہ انتہائی برے طریقے سے ڈیپ فرائیڈ مریضوں کو سیدھا ہسپتال منتقل کرتے مگر کیا آپ کو یقین آئے گا 90 سے 100 فیصد جلے ہوئے مریضوں کو سوشل سکیورٹی ہسپتال منتقل کیا گیا (سوشل سیکورٹی ہسپتال لانڈھی جہاں شاید بخار کا علاج بھی نہ ہو) اور اسی دوران انسڈنٹ سین کو صاف کیا گیا۔ اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد انکو کو سول ہسپتال برنز سینٹر لے جایا گیا۔ میرے پاس اس کا بھی ویڈیو ایوڈینس موجود ہے۔

—————————————————————————–

عامر کی ڈائینگ ڈیکلریشن:

عامر نے مرتے وقت 3 نہایت اہم چیزیں ڈسکلوز کی تھیں۔
1۔ آج کے دن یہ ایکسپیریمنٹ پرفارم کیا جارہا تھا جس میں لیڈ آر ٹی ایف فرنیس کو ایلومینیم پراسیس کے لئے استعمال کیا گیا۔
2۔ یہ ایکسپیریمنٹ ٹاپ مینجمنٹ کی انسٹرکشن کے عین مطابق کیا گیا اور اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
3۔ میری ٹیبل کی دراز میں ایک ڈائیری اور کچھ ڈاکیومنٹس موجود ہیں جو آپکو یہ انسڈنٹ سمجھنے میں مدد کریں گے۔

آج جب ہم محمد عامر کی بلونگنگ کو لینے کے لئے فیکٹری پہنچے تو ان کے پاس عامر کی چیزیں ایک پلاسٹک شاپر میں موجود تھیں۔ انکی لاکرز کی اشیاء اور انکے سٹنگ ایریا سے صرف سیل فون اور کی چین اٹھا کر ہمیں تھما دی گئیں۔جب میں نے انسے کہا کہ ہمیں وہ ایریا وزٹ کروائیں تو انھوں نے جواب دیا کہ قانونی نافذ کرنے والے اداروں نے منع کیا ہے۔ جب آفیشل کارڈن آف کی انسٹرکشن کا پوچھا تو انھوں نے فائیر اسٹیشن کی طرف سے کلیئرنس رپورٹ آگے کردی۔ آخر تک انکا کہنا یہی تھا کہ ہمیں قانون نافذ کرنے والے ادوارن نے منع کیا ہے مگر کوئی قابل قبول دستاویز پیش نہ کرسکے۔

—————————————————————————–

اب کچھ سوالات ہیں جن کے جواب مجھے چاہیئں۔

1. پلانٹ کی فٹنس سامنے لائی جائے؟
2. اس ایکسپیریمنٹ کا حکم کس نے دیا؟
3. وقوعہ کے فورا بعد کس کے حکم پر کلیننگ کی گئی؟
5. لیڈ پلانٹ کے اندریا آس پاس 2 یا تین سی سی ٹی وی کیمرا لگے ہیں، انکی فوٹیج کہاں ہے۔
میرا مطالبہ ہے کہ ایک انڈیپینڈنٹ باڈی تشکیل دی جائے جس میں کیمیکل پراسس اینالسٹ، ھیلتھ اینڈ سیفٹی ایکسپرٹ اور ایک قانونی امور سے متعلق ماہر، ہنڈا کی طرف سے ایک نمائندہ اور ایک ورثا کی طرف سے نمائندہ لیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ زیادہ وقت نہیں لگے گا اور پوری حقیقت سامنے آجاتے گی۔

میں نے محمد عامر کو جیتا جاگتا اور باتیں کرتا ہوا اپنی جاب پر بھیجا تھا لیکن راکھ کا ڈھیر ریسیو کیا۔ میں کسی بھی حد تک جاؤں گا تاکہ اس سانحے کے ذمے دار سامنے آسکیں۔ میرے پاس کوئی ریسورس موجود نہیں نہ میں میڈیا میں طوفان بپا کرسکتا ہوں اور نہ قانون کو اپنے ذرائع سے پہیئے لگا سکتا ہوں۔ یہ صرف محمد عامر کا معاملہ بھی نہیں ہے 6 مزید زندگیوں اور انکے خاندانوں کا معاملہ بھی ہے۔

اس واقعے کی رپورٹنگ بھی انتہائی گھٹیا طریقے سے کی گئی۔ واقعے میں شہید ہونے والے افراد کی بنیادی معلومات تک درست نہیں تھیں۔۔ فیکٹری اور واقعے کے حوالے سے درست معلومات سامنے ہی نہیں آئیں۔ بذات خود میں تین دن تجہیز و تکفین اور اور دعا میں مصروفیت کی وجہ سے کوئی کام نہ کرسکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اس رپورٹ کے ایک ایک پوائنٹ کے بارے میں پوری طرح کلئیر ہوں اور اسکے ایک ایک لفظ کا ثبوت پیش کرسکتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply