• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔۔۔گل ساج/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔۔۔گل ساج/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستان میں شدت پسندی ، عدم برداشت انتہاپسندی کے فروغ و پرواخت کا الزام عموماََ مذہبی تنظیموں اور دینی مدارس پہ لگتا رہا لیکن امر واقعہ یہ ہے  کہ  شدت پسندی کا سرطان صرف مذہبی طبقے تک محدود نہیں پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی شدت پسندانہ افکار سے یکساں متاثر ہو رہا ہے۔
جامشورو میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹ نورین لغاری اس سے پہلے این ای ڈی یونیورسٹی کے طلباء دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اسی طرح چارسدہ یونیورسٹی میں مشعال خان کا قتل بھی تعلیم یافتہ طبقے میں عدم برداشت و شدت پسندی کا آئینہ دار ہے۔
کچھ سال پہلے گوجرانوالہ میں دو بھائیوں کو مجمعے نے بہیمانہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا اسی طرح لاہور کے علاقے یوحنا اباد میں راہ چلتے شخص کو ہجوم نے سوختہ موت سے ہمکنار کر دیا تھا۔
یہ تمام واقعات مختلف طبقات سے متعلق ہیں کسی ایک انفرادی طبقے جیسے مذہبی عناصر پہ شدت پسندی منافرت و عدم برداشت کا الزام نہیں دھرا جا سکتا۔
بحیثیت مجموعی عدم برداشت کا سرطان پاکستانی معاشرے میں یکساں طور پہ سرایت کر گیا ہے۔۔۔۔آئیے اسکی وجوہات اسباب لوازمات و تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں؟

یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ یک بیک اچانک سے ایسا ہونا ممکن نہیں ،لازماً اسے پیچھے گہرے عوامل کارفرما ہوں گے ۔برِصغیر صوفیاء کی سر زمین کہلاتی ہے جنہوں نے امن محبت رواداری انسانیت سے محبت کا کلچر ڈویلپ کیا۔امر واقعہ ہے کہ تقسیم سے قبل برصغیر میں مختلف قومیتیں باہم شِیر وشکر رہ رہیں تھیں ایکدوسرے کی مذہبی سماجی اقدار کا احترام اور سماجی تقریبات میں مُشترکہ شمولیت سے باہمی ہم آہنگی بدرجہ اُتم موجود تھی۔۔ہندوستان کی تقسیم کے تناظر نے اس خطے میں مُعروضی حالات کو تبدیل کیا۔
مُسلمانانِ ہند کے لئیے الگ ملک پاکستان کے قیام کی جدوجہد نے خطے میں سیاسی محاذ آرائی سے بین المذاہب و قومیتوں کے مابین خلیج پیدا ہوئی۔تقسیم کے وقت کشت و خون، لاکھوں انسانوں کی ہجرت ،جانی مالی نقصانات سے نوازئیدہ مُملکت کے باسیوں کے نفسیاتی رویّوں میں تغیر آنا شروع ہوا۔پاکستان کے قیام کے بعد قومی شناخت کے تعین کی جدو جہد ،ملک کے نظام و نسق کے لئیے آئینی و سیاسی نظام کی تشکیل میں نا اہلی اور تاخیر ،سیاسی عدم استحکام ، ہندوستان سے مسلسل محاذ آرائی کی وجہ سے قوم کے اذہان میں مُثبت تعمیری سوچ کا پروان نہ ہو سکا ،ابتدائی سالوں میں قوم کا مورال بڑھانے کے لئیے اسلامی وجہادی کلچر جنگی ترانے اسلامی تاریخی واقعات کو دُہراتے رہنے سے جنگجویانہ عنصر کا فروغ ہوا۔
یہ سب اس لیے کیا گیا کہ قوم میں جوش ولولہ پیدا ہو مگر اسوقت کے پالیسی میکر، فیصلہ ساز اسکے نتائج و عواقب کا اندازہ نہ کر سکے کہ وہ کسطرح سے پاکستانی قوم کو انتہاء پسند و عدم برداشت کی عفریت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں ۔
قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی قومیت کی بنیاد پہ ملک کا دو لَخت ہو جانا، پاکستانی قوم کو ایک بار پھر آگ اور خون ،نفرت و تعصب کے مُہیب طوفان کا سامنا کرنا پڑا جس سے قومی نفسیات شکست و ریخت کا شکار ہوئی۔قلیل عرصہ امن کے بعد 1980 کی دہائی میں روس کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے پاکستانی قوم کو ایک بار پھر آتش و آہن کی جنگ میں کودنا پڑا ،جہاد افغانستان کے سبب ملک میں جہادی کلچر کا فروغ ہوا باقاعدہ جنگی انڈسٹری وجود میں آ گئی ،پوری قوم ذہنی و نفسیاتی طور پہ جہادی سوچ کی اسیر ہو گئی۔9/11 کے واقعے کے بعد پھر سے ایک طویل جنگ ہمارا مقدر ٹھہری جو آج تک جا رہی ہے۔غور کیا جائے تو ایسے حالات میں پاکستان میں شدت پسندی عدم برداشت کا رُحجان کا ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔
کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت گھریلو ماحول ،تربیت آرٹ رسوم و رواج مذہبی عقائد اقتصادی و سیاسی سرگرمیاں اس معاشرے کے اجزائے ترکیبی ہوتی ہیں جو ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتی ہیں۔
حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرہ متنوع ثقافتوں کا مجموعہ ہے ایک طرف پختون ثقافت جو جنگجویانہ رسوم و رواج غیرت و بہادری سے مرکب ہے تو بلوچستان بھی قریب قریب اسی طرح کی ثقافت کا حامل ہے جہاں سندھ میں جاگیرداری وڈیرہ شاہی رُجعت پسندانہ رواج کے شکنجے میں جکڑا ہوا معاشرہ ہے وہیں سندھ میں خال خال صوفی ازم کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے
اسی طرح پنجاب کو مذہب کے قریب سمجھا جاتا ہے اور مذہب کی تشریح میں بھی جہادانہ روایات و اقدار کا عنصر غالب رہا یوں دیکھا جائے تو مجموعی طور پہ پاکستان میں جنگجویانہ ثقافت غالب ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں ذرائع ابلاغ نے بھی مثبت تعمیری سوچ کو پروان نہیں چڑھایا انتہا پسندانہ لٹریچر خبارات و جرائد پہ جنگجویانہ طبقے کا اثر رہا ہے جس سے شدت پسندانہ خیالات کو فروغ ملا۔۔
قومی اخبارات کہلوانے کے دعویدار بھی کھلم کھلا جہادی تنظیموں کے تر جمان رہے ۔
پاکستان کا نظام تعلیم جو مختلف طبقات پہ مشتمل ہے اردو میڈیم اداروں اور انگلش میڈیم کے سلیبس میں واضح فرق ہے اردو میڈیم اداروں کا سلیبس مذہبی رنگ لئیے ہے جسمیں ماضی کے جنگی ہیروز کے کارنامے بیان کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں مختلف طبقات کے درمیان مُعاشی سماجی عدم تفاوت بھی انتہا پسندانہ خیالات میں اضافے کا باعث ہے۔اسی طرح عالمی سیاسی منظرنامے میں رد وبدل، بین الاقوامی طاقتوں کا خطے میں اثر و نفوذ جو اپنے مفادات کے مطابق علاقے کے حکمرانوں(آمروں) کے ذریعے عوام کو استعمال کرتے ہیں اور بوجوہ عدم برداشت نفرت تعصب کو فروغ دے کے قوم کو تقسیم کرکے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مندرجہ بالا تاریخی واقعات اسباب و عوامل کا جائزہ لینے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی سماجی اور ثقافتی بنیادیں ایسی زمین پر قائم ہیں جو کہ شدت پسندی کے لیے خاصی زرخیز ہے اور انتہا پسندی کو ہوا دینے والے عناصر براہِ راست ہی کام نہیں کرتے بلکہ انہیں کسی واسطے سے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ رویہ معاشرے میں عدم برداشت کو مہمیز کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جہاں تک شدت پسندی کو براہِ راست پھیلانے کا تعلق ہے اس میں قومی تاریخی جبر، حکومتی پالیسی کا عمل دخل،سیاسی مہرے اور بین الاقوامی ہاتھ نمایاں رہا ہے ثقافتی اور سماجی کلچر ملک کی تعلیمی ثقافت پہ متعین ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی نظام فرسودہ ہو چکا ہے اداروں میں انفرادی طور پر مسلط کردہ مذہبی ثقافت پنپ رہی ہے جو کہ فرقہ بندی اور شدت پسندی کے زیر اثر ہے وہیں ملک کی اقتصادی و معاشی نظام بھی غیر مساوی بنیادوں پر استوار ہے۔
اربابِ اقتدار، غیر جمہوری رویے اور ادارے اس شکست و ریخت میں برابر کے ذمہ دار ہیں جب کہ مذہب، ذرائع ابلاغ اور تعلیم کو بھی حکمرانوں اور بیرونی طاقتوں نے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے جس سے شدت پسندی ،عدم برداشت اور باہم منافرت ،تقسیم کو فروغ ملا ہے
مندرجہ بالا جائزے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ من حیث القوم پاکستان کو اتنا وقت میسر نہیِں آسکا جس سے قوم کی تعمیر مثبت بنیادوں پہ ہو پاتی پاکستانی قوم حالات کے جبر کا شکار رہی جو اسے نفرت شدت پسندی عدم برداشت کی طرف دھکیلتے رہے ۔عدم برداشت و شدت پسندی کے تدارک کیلئے پاکستان کو پرائی جنگوں سے نکلنا ہوگا اپنی قومی پالیسی وضع کرنا ہوگی جسمیں پاکستان کا مفاد مقدم رکھنا ہوگا۔صد شکر کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں سرخرو ہو رہا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں معاشی واقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جس سے عام آدمی کا معیارِ زندگی بلند ہو عدم مساوات، یکساں اور متوازن نظام تعلیم، اوپر دئیے گئیے اسباب و عوامل کا خاتمہ جو شدت پسند ی کے فروغ کا سبب ہیں ۔
خوش کُن اَمر یہ ہے کہ پاکستانی قوم اُولو العزم باحوصلہ، سخت جان ہے جو ان مایُوس کُن حالات میں بھی امید کا دامن تھامے ہے،شدت پسندی و عدم برداشت کے خلاف جد وجہد کر رہی ہے۔
“یقیناً یہ امر باعثِ اطمینان ہے اور پاکستانی قوم کےروشن مستقبل کی نوید ہے”

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply