کل ہو نہ ہو/عظیم الرحمٰن عثمانی

وہ ایک ملنسار اور نڈر نوجوان لڑکی تھی۔ جسے لگتا تھا کہ اسے سب معلوم ہے، ساری دنیا جیسے اس کی چٹکیوں میں ہو۔ اسے پورا بھروسہ تھا کہ جیسے ہی اس کا اسکول ختم ہوگا، وہ یونیورسٹی میں من پسند ڈگری کیلئے داخلہ لے لے گی، بہترین نوکری یا بزنس کرے گی اور پھر جلد ہی اس کا شمار ایک کامیاب ترین جوان عورت کے طور پر ہونے لگے گا۔ اسی یقین اور خواب کے ساتھ حسب معمول وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی، خود کو آئینے میں سنوارا اور جاکر اپنے ‘بنک بیڈ’ (بستر) پر لیٹ کر آنکھیں موند لی۔ صبح بیدار ہوئی تو آنکھیں نیند سے بہت بوجھل تھیں مگر پھر بھی بستر چھوڑ کر کھڑی ہوگئی۔ ان ہی نیم بند آنکھوں میں حسب معمول آئینے کے سامنے پہنچی، آنکھیں بمشکل کھول کر جو آئینہ دیکھا تو مارے خوف کے تیزی سے پیچھے ہٹی۔ آئینے میں اس کا اپنا عکس نہیں تھا بلکہ سامنے سلوٹوں جھریوں بھرا ایک بڑی عمر کی بدحال عورت کا عکس اسے گھور رہا تھا۔ گھبرا کر اس نے اپنے اردگرد غور کیا تو وہ اس کا کشادہ کمرہ نہیں تھا بلکہ یہ تو کوئی پرانا بوسیدہ سا فلیٹ کا تنگ کمرہ تھا۔ وہ اس خوفناک صدمے سے ابھی ابھر بھی نہ سکی تھی کہ اچانک کمرے میں ایک گیارہ سال کا لڑکا دوڑتا ہوا داخل ہوا اور اسکی جانب ماں !! ماں !! کہتا ہوا بڑھنے لگا۔ اس منظر کو دیکھ کر خوف و بوکھلاہٹ سے ھسٹیریائی حالت میں کانپتی ہوئی وہ چیخیں مارنے لگی اور بیہوش ہوکر زمین پر گرگئی۔ اسے ایمرجنسی میں اسپتال لے جایا گیا۔

ڈاکٹروں نے اس کے دماغ کا چیک اپ کیا تو انکشاف ہوا کہ سخت معاشی حالات میں شدید اسٹریس اور ڈپریشن کے سبب اس عورت کا دماغ کچھ اس بری طرح متاثر ہوا کہ وہ اپنی سابقہ زندگی کے سترہ سال بھول گئی ہے۔ گویا اسکی یادداشت سے اب سترہ سال ایسے محو تھے جیسے کبھی وہ گزرے ہی نہ ہوں۔ لہٰذا اب اسے نہ اپنی شادی یاد تھی اور نہ ہی اپنا گیارہ سال کا بیٹا۔ وہ آج بھی ذہنی طور پر خود کو پندرہ سال کا سمجھ رہی تھی کیونکہ اس کی موجود یادیں پندرہ سال کی عمر تک ہی محیط تھیں۔ لیکن حقیقت اب کچھ اور ہی تھی۔ وہ خواب سب گم ہوگئے تھے اور ایک بھیانک زندگی سچ بن کر زبردستی اس پر سوار تھی۔ وہ تو سمجھتی تھی کہ چونتیس برس کی عمر میں یہ دنیا اسکے پیروں تلے ہوگی، شاندار گھر ہوگا، وجیہہ شوہر ہوگا اور پیسوں کی ریل پیل ہوگی۔ مگر یہ کیا ؟ وہ تو زندگی سے شکست خوردہ ایک ایسی عورت بن چکی تھی جو گورنمنٹ کے دیئے ہوئے ایک چھوٹے سے سیلن زدہ گھر میں مقیم تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک سچی کہانی ہے جو انگلینڈ میں مقیم ایک عورت کے ساتھ پیش آئی۔ یادداشت کا جزوی طور پر موقوف ہوجانا جس سے مریض اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بلکل فراموش کربیٹھے ، ایک ایسی بیماری ہے جو ہر سال بہت سے افراد کو کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ میں نے اس عورت کے واقعے کو جب برطانوی اخبار میں سالوں قبل پڑھا تھا تو جیسے دل کو جھٹکا لگا تھا۔ اس کرب کو معلوم نہیں کیوں؟ میں نے اپنے سینے میں محسوس کیا۔ بلکہ اگر سچ بولوں تو اس وقت بھی کررہا ہوں۔ کیا ہو کہ اس لڑکی کی جگہ آپ ہوں؟ اور کل صبح جو آپ کی آنکھ کھلے تو آپ خود کو ستر برس کا ایک بوڑھا انسان پائیں؟ کیا کرسکیں گے ہم؟ کیا سوچیں گے ہم؟ کیسے جی سکیں گے؟ پچھتاووں کا سامنا کیسے کریں گے؟ ۔۔۔ ہمیں نارمل کی سچی قدر اسی وقت ہوتی ہے جب کچھ ابنارمل ہوجائے۔ کاش کہ ہم موجود زندگی سمیت ہر اس شے کی قدر کرنا سیکھ لیں جو ہمیں حاصل ہے۔ کیا معلوم کل ہو نہ ہو؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply