عجیب لوگ تھے۔۔۔ اللہ والے/عدیل رضا عابدی

    ہر برس محرم الحرام کی آمد کے ساتھ میرا ماضی مجھے آ لپکتا ہے، خود کو آم کے درخت کے سائے میں سہ پہر 3 بجے لکڑی کی  چوکی پر بیٹھا ہوا پاتا ہوں۔
    “خالہ” جنہوں نے میری ماں کو اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا، محلے کے سارے بچے اُن سے قرآن پڑھے ہوئے تھے۔ قرآن پڑھنے کی ” تمیز” آئی تومعہ تجوید و قرات قرآن کی تعلیم کے لئے اقبال صاحب کے پاس بیٹھا دیا گیا۔ موصوف محلے میں قائم مسجد عائشہ کے پیش امام تھے۔ گھر کے سامنے والا صابر بڑے بھائیوں کا دوست تھا۔ بغل والے گھر کے ایاز، فیصل اور فضل میرے دوست تھے۔ ہم گلی کے نکڑ والے سبطین اور اس کے سامنے والے حسن کے ساتھ مل کر سرشام محلے میں اودھم مچائے رکھتے۔کھیلتے، کھیلتے سراج الدین خالو کے گھر اکثر گھس جاتے یہاں پیٹ پوجا بلاآسرا ہوجاتی۔ سراج الدین خالو کے بچے میری پھپھو اور چچا کے کلاس فیلو ہوا کرتے تھے۔ ان کے یہاں محرم کی 12کو بننے والی حلیم کا سب کو انتظار رہتا۔رجب کی 22کو میرے گھر کونڈوں کی نیاز ہوتی۔ محلے کی لڑکیاں میری والدہ اور پھپھو کا آکر ہاتھ بٹاتیں اور صبح بعد از نیاز اپنے اپنے گھروں کو جاتیں۔

    رمضان المبارک کے مہینے میں بڑی پرانی ریت کو دوام بخشا جاتا تھا۔ تمام اہل ِ محلہ رمضان کی پندرہویں اور اکیسویں کو میرے گھر کے آنگن میں اور ستائیسویں کو فرید خان صاحب کے گھر پر روزہ افطار کرتے۔ہمیں فکر نہ ہوتی کہ روزہ کس کے ساتھ کھولنا ہے۔ اذان ہوتی تو بس کھول لیتے تھے کیونکہ محلے کے سب ہی لوگ کھول رہے ہوتے تھے ویسے بھی بھوک اور پیاس کا ایک ہی مسلک ہے، اور وہ ہے ” سیرابی”۔

    عید آتی تو عین موقع پر والد اور دادا کو فیصلہ سنا دیتے کہ ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھنی۔کیوں ؟؟ کیا ہوا؟؟ جیسے سوالوں کا جواب کچھ اس طرح ہوتا کہ پچھلی بار امبر اور ثمرین نے ممانی ( چار گھر چھوڑ کر رہنے والی مرحومہ) سے ہم سے پہلے جاکر عیدی لے لی تھی۔ اب سب لڑکے ساتھ جائیں گے۔خدا جانے کتنی عیدین اورجمعے کس کس فاروقی اور صدیقی کے ساتھ اور پیچھے پڑھ ڈالے یاد نہیں۔
    محرم آتا تو گلی کے سارے بچے شوقیہ چندہ جمع کرتے سبیل بناتے۔ بڑے بھی خوب تعاون کرتے اگر کسی سے بیس یا تیس روپے چندہ مل جاتا تو خوشی کا ٹھکانا نہ ہوتا۔ سبطین کا گھر واحد گھر تھا جہاں مردانہ مجالس کا جبکہ میرے گھر زنانہ مجالس کا عشرہ ہوتا۔ مجالس کے بعد بچ جانے والا ” تبرک” تمام گھروں میں باقاعدگی سے تقسیم ہوتا۔ محرم کی آٹھویں کو گلی کے کسی گھر میں دوپہر اور رات کا کھانا نہیں پکتا تھا۔ سب ہی ہمارے گھر میں لگے مولا عباس علمدار کی نیاز کے دسترخوان پر اپنے مقدر کا رزق کھاتے۔ جو آ نہیں سکتے تھے ان کے گھر پہنچا دیا جاتا۔ آٹھویں کی رات 10بجے چھ گلی پیچھے پتن چچا کے گھرسے جلوس برآمد ہوتا جو ہماری گلی میں اختتام ہوتا۔

    Advertisements
    julia rana solicitors

    اکثر تبرکات اسحاق بھائی اور پپو چچا کے گھر میں بڑھائے جاتے ان کا صحن کافی بڑا تھا۔ پرویز بھائی ہاتھ میں شربت کا جگ پکڑے مولانا قاسم نانوتوی کی نمائندگی کرتے نظر آتے۔ لپک لپک کر ایک ایک ماتمی کو شربت پلاتے۔ سر پر ہرا عمامہ باندھے کشمیری ابا عزاداروں کو گھر کے بنے نانختائی تقسیم کرتے دیکھے جاتے۔ نویں اور دسویں کو محلے کے سادات کے لئے ” امتی” اپنے گھروں سے کھانا پکا کر لاتے۔ شام غریباں پر بڑی بھابھی ( سامنے سے دو گھر چھوڑ کر) کے یہاں کھچڑا بنتا۔ مرکزی جلوس کے بعد سب سے بڑا رش انہی کے گھر نظر آتا تھا۔ مغرب کے فوری بعد سارا محلہ اندھیرے میں ڈوب جاتا۔ کیا ہوا کس لئے؟ شام غریباں کا وقت ہے۔ حسین اور آل ِ حسین پر پریشانی کا وقت ہے۔ کسی کسی گھر سے ٹی وی پر شام غریباں کی مجلس چلنے کی آواز آتی۔ ادھر ٹی وی پر نشر ہوتی مجلس ختم ہوتی ادھر حسینی نقارہ بجتا۔ ہم بھی گھر سے باہر آجاتے۔ گلی سے گزرتے تعزیعے کے جلوس میں شامل ہوجاتے۔عجیب وقت تھا ۔ عجیب لوگ تھے۔ اللہ ان خالہ پر رحم کرے ۔ بڑا ہوا تو پتا چلا کہ قرآن والی خالہ دیوبندی تھیں۔ اقبال صاحب اہل حدیث تھے۔ بھائیوں کا دوست صابر سپاہ صحابہ کالعدم کا مقامی امیر تھا۔ ایاز، فضل، فیصل تینوں بھائی جماعت ِ اسلامی کے کشمیر جہاد میں ’’جام شہادت نوش ‘‘کر چکے ہیں۔ انہیں لے جانے والا وہی گلی کے کونے والا حسن خان تھا جو آج کل مچھ جیل میں ہے۔ سبطین کالعدم سپاہ محمد میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد سے روپوش ہے, محلے میں آج بھی رجب کے کونڈے آتے ہیں مگر کوئی ہاتھ بٹانے نہیں آتا کیونکہ بدعت ہے۔رمضان آتے ہیں مگر اب ایک دوسرے کے آنگن میں روزہ افطار  نہیں ہوتا کیونکہ حرام ہے۔ عید آتی ہے تو اب کوئی عید نہیں ملتا کیونکہ سمجھ نہیں آتا کہ  دو بار گلے ملنا ہے یا تین بار۔ محرم آتا ہے اور گزرجاتا ہے۔ مجالس ہوتی ہیں مگر تبرک اب گھروں میں تقسیم نہیں ہوتا کیونکہ  تبرک کھانا گناہ سمجھا جاتا ہے۔سراج الدین خالو حلیم اور دلیم کےتبلیغی چکر میں ایسے پھنسے کہ  انتظار عبث ٹھہرا۔محرم کی آٹھویں آتی ہے گزر جاتی ہے۔ اسحاق بھائی اور پپو چچا کے گھر کے دروازے نہیں کھلتے۔اکثر تبرکات گلی میں شامیانہ لگا کر بڑھا دئیے جاتے ہیں۔پرویز بھائی اب شربت نہیں پلاتے کیونکہ ان کے حصے کا حُسین یزید کا باغی ثابت ہوچکا ہے۔ ہرا عمامہ باندھے کشمیری ابا انتقال کر چکے ہیں ان کے بیٹے باپ کی بدعت سے خود کو روک چکے ہیں۔ بڑی بھابھی بیماری کے بستر پر ہیں۔ بے چاری بہوؤں کے رحم وکرم پر۔ چار بیٹے اپنے اوپر دیوبندی اہل حدیث اور بریلوی کا ٹیگ لگائے پھرتے ہیں۔ اب شیعوں کے لئے عصر عاشور فاقہ شکنی کا اہتمام نہیں ہوتا۔ گلی میں اندھیرا بھی نہیں ہوتا۔اکثر گھروں سے فلمی گانے چلنے کی آواز ضرور آجاتی ہے۔ ایک چیز کا انتظار رہتا ہے۔ ڈھول کی تھاپ کا، اس کے ساتھ اٹھتے ” سفید روشنی” والے تعزیے کا جس میں مَیں کبھی خالہ، ممانی، بڑی بھابھی ، اسحاق بھائی، فرید خان، پپو چچا،پرویز بھائی، سراج الدین خالو اور کشمیری ابا کے مسکراتے چہرے حبِ حسین علیہ السلام میں مغموم نظرآتے تھے۔ عجیب لوگ تھے۔۔۔ اللہ والے! اللہ اُن پر خاص کرم جاری رکھےیہاں بھی ، وہاں بھی۔

    دعاگو!
    عدیل رضا عابدی

    Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply