• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخ، وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔حمزہ ابراہیم/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخ، وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔حمزہ ابراہیم/مقابلہ مضمون نویسی

اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ  برصغیر میں مذہبی تشدد کے لحاظ سے  بدترین ہے۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی کے کلفٹن جیسے علاقوں میں  کچھ لوگوں کی شراب نوشی کی تصویریں دیکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماضی میں پورا پاکستان ایسا تھا۔ اگرچہ کلاشنکوف اور بم کے عام ہو جانے سے شیعہ کشی کی وارداتیں بہت بڑھی ہیں، لیکن شیعہ اور سنی عوام میں تناؤ کے لحاظ سے عروج کا زمانہ پچھلی صدی کا پہلا نصف حصہ  تھا۔ اس کے بعد سے یہ تعلقات بہتری کی طرف مائل ہیں۔تاریخی عمل سست ہوتا ہے اسلئے اسکااحساس نہیں ہوتا۔ مذہبی  اختلاف  کو کسی اقلیت کے استحصال کا ذریعہ بنانے کی روش  اورنگزیب عالمگیر  کے زمانے سے بڑھنا شروع ہو کر  جنگ عظیم دوم کے دنوں میں عروج تک پہنچی تھی اور اس کے بعد پچھلے ستر سالوں میں اس میں بتدریج  کمی واقعہ ہوئی ہے۔یہ مضمون طویل ہے اور مذہبی تشدد کو دس ادوار یا مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے-  قارئین سے ٹھنڈے دل  و اطمینان سے پڑھنے کی درخواست کی جاتی ہے۔

پہلا دور: امراء کی  سرد جنگ

مغل شہنشاہ اورنگزیب  عالمگیر نے اپنے ابا و اجداد  کے سیکولر طرز حکومت کو ترک کیا، جس کا پہلا نتیجہ گجرات میں شیوا جی بھوسلے کی قیادت میں مرہٹہ بغاوت کی شکل میں نکلا۔ اورنگزیب کے زمانے کی سرکاری دستاویزات شیعہ مسلک کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔ اورنگزیب کے زمانے میں ہی تینتیس جلدوں پر مشتمل جو مجموعہ بعنوان “فتاویِ عالمگیری” مرتب کیا گیا اس میں شیعہ عقیدے کو گمراہانہ بتایا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں سرکاری طور پر شیعوں سے  امتیازی سلوک کیا جاتا اور شیعہ مسلک کی توہین کی جاتی تھی۔ شیعہ مسلمانوں کو برابری کے حقوق کے حصول کیلئے اپنا مسلک چھپانا پڑتا تھا۔ دکن پر حملوں اور اپنے بھائیوں ( دارا شکوہ اور شاہ شجاع) کے ساتھ جنگوں میں اورنگزیب کا سپاہ سالار سعید خان میر جملہ شیعہ تھا، لیکن اس کا شیعہ ہونا  اسکی وفات اور تدفین کے وقت ظاہر ہوا جب اسکی وصیت کے مطابق ایک شیعہ عالم نے تلقین پڑھی۔ بادشاہ کی شیعہ مسلک سے نفرت نے شیعہ مخالف علماء کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا پڑا۔مغل سلطنت میں بادشاہ کی موت کے بعد وہی شہزادہ تخت نشین ہوتا تھا جس کے ساتھ زیادہ امرا شامل ہو جاتے کیوں کہ مغل فوج در اصل کوئی قومی فوج نہ تھی بلکہ ہر جنگ میں امرا اپنے لشکر فراہم کیا کرتے تھے۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد شیعہ امرا نے طاقت کے کھیل میں  کردار ادا کرنا چاہا تو سنی امرا نے سیاسی رسہ کشی کو مسلکی رنگ دیا  تاکہ اپنے حریفوں کو اقلیت تک محدود کر کے کمزور کر سکیں۔ سید برادران اور نظام الملک میں رسہ کشی  طاقت اور نفوز  کی جنگ تھی۔ اب بھی بہت سے اداروں میں میرٹ کے بجائے مسلک کو بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ اگر کہیں  شیعوں کو انصاف مہیا ہونے لگے،یا  ان کا  کوئی قاتل پکڑا جائے، تو کچھ لوگ  اسے شیعہ اثر و نفوذمیں اضافے کا نام دیتے ہیں۔آصف زرداری شیعہ  ہونے کے باوجود   اپنے دور صدارت میں کیمرے کیلئے  ہاتھ باندھ کر نماز  عید پڑھتا ہے کیوں کہ سیاسی مخالفین  اس کے مسلک کو اسکی کمزوری بنا کر  امکانات میں اسکا حصہ محدود کر سکتے ہیں۔

اٹھارویں صدی عیسوی جہاں مغل سلطنت کے مغرب میں افغان حملہ آوروں اور مشرق و جنوب میں انگریزوں کے سامنے عسکری کمزوری دکھانے سے عبارت ہے، وہیں دہلی میں شیعہ اور سنی امراء کے بیچ سرد جنگ اس سلطنت کے زوال کا دوسرا اہم عامل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کی شکست و ریخت کے زمانے میں دہلی میں جامعہ رحیمیہ کے گدی نشین شاہ ولی الله محدث دہلوی ( 1703ء ۔ 1762ء) نے اہلسنت میں بہت مقام پیدا کیا۔ شاہ ولی الله 1731ء میں حج کرنے گئے اور وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک “توحید والعدل”، جس کو عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے، کے اثرات اپنے ساتھ لائے۔ 1739ء میں ایران میں مغل دوست صفوی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ایران کے نئے ترک نژاد سنی بادشاہ “نادر شاہ افشار “نے ایران کے معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے  ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کو لوٹ مار اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس قتل عام میں اس کے افغان سالار احمد شاہ ابدالی نے خون کے دریا بہا دئیے۔ 1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کے افغان دستے کے سربراہ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان نامی نئے ملک کی بنیاد رکھی۔1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے دوبارہ دہلی پر حملہ کرنا چاہا تو اس کو سرہند کے مقام پرمغل سلطنت کی طرف سے اودھ کے  شیعہ نواب صفدر جنگ نے شکست دی۔ اس کے نتیجے میں صفدر جنگ کے مرتبے اور عزت میں اضافہ ہوا تو دہلی میں اس کے خلاف سنی امراء کی سازشیں عروج پر پہنچ گئیں اور 1753ء میں اس کو دہلی چھوڑ کر اودھ جانا پڑا۔ اس ماحول میں سنی امراء نے شاہ ولی الله کو شیعہ امراء کے خلاف مہم چلانے کا کہا تو انہوں نے اپنے خوابوں کو بنیاد بنا کر اہل تشیع کے خلاف “فیوض الحرمین”، “قراۃ العینین”، “ازالۃ الخفا” اور “حجۃ الله البالغہ” جیسی کتابوں میں تنقید کی۔ اپنے ایک خواب کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ پہلے دو خلفا کا نور رسول اللهؐ کے نور سے ملا ہوا ہے، وہی بات جو شیعہ قرآن کی آیت مباہلہ اور احادیث کی بنیاد پر حضرت علی کیلئے کہتے تھے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ رسول اللهؐ نے ان کو خواب میں آ کر بتایا کہ شیعہ گمراہ ہیں۔ مرشد آباد میں موجود برصغیر   کی سب سے بڑی امام بارگاہ، “نظامت امام باڑہ”کی بنیاد نواب سراج الدولہؒ  نے رکھی تھی۔ سراج الدولہ نے انگریزوں سے جنگ کی لیکن ان کا مسلک شیعہ ہونے کی وجہ سے انھیں شاہ ولی الله کی طرف سے وہ حمایت نہ ملی جو احمد شاہ ابدالی کو میسر رہی۔ یہی مسلہ میر قاسم اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ  کو درپیش  تھا، انھیں بھی بکسر کے میدان میں دہلی کے سنی امرا یا شاہ ولی الله کی طرف سے کوئی حمایت نہ ملی۔ احمد شاہ ابدالی نے کل سات حملے کئے جن میں سے چوتھے اور پانچویں حملے میں دہلی پہنچا۔ دہلی پر 1757ء کے حملے میں افغانوں نے منظم انداز میں شہر کو لوٹا، شہر کے محلوں میں الگ الگ ٹولیاں بھیجی گئیں جنہوں نے نہ صرف گھروں کا سامان لوٹا بلکہ فرش اکھاڑ کر بھی تلاشی لی تاکہ کسی کا چھپایا گیا زیور باقی نہ رہ جائے۔بے شمار ہندو خواتین کی عصمت لوٹی گئی۔دو سال بعد شاہ ولی الله نے احمد شاہ ابدالی کو دوبارہ دعوت دی اور اس مرتبہ اس نے دہلی کے شیعہ خصوصی طور پر قتل اور شہر بدرکئے، شاہ ولی الله کے بیٹے کے بقول انہوں نے ایک سال پہلے اس کو بتایا تھا کہ اگلے سال دہلی میں ایک بھی شیعہ باقی نہیں بچے گا[1]۔ اسکی افواج نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہندوستان کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے حسن و جمال میں معروف ایک انیس سالہ مغل شہزادی کو زبردستی اپنی بیوی بنایا اور قندھار لے گیا، جہاں وہ دو سال ذہنی اذیت کے  بعد انتقال کر گئی۔ اس نے   صوبہ ملتان، صوبہ لاہور اور کشمیر کو افغانستان کی کالونی بنا لیا، کشمیر  چونکہ شیعہ اکثریتی علاقہ تھا لہٰذا افغان فوج نے وہاں شیعوں کا قتل عام کیا۔ افغانستان ایک سنگلاخ ملک ہے، لہٰذا پنجاب کی زراعت اور مویشی اس وقت سے افغان بادشاہوں کو پنجاب کا دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بارے میں کہا:۔

کھادا پیتا وادے دا

باقی احمد شاہے د ا

یعنی تمھارے دنیاوی مال و اسباب میں تمہاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ جو بچا کر رکھو گے وہ احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اس دوران مغل بادشاہ عالمگیر دوم کو اسکے سنی وزیر امداد الملک نے قتل کر دیا اور ایک اور شہزادے شاہجہاں سوم کو مسند شاہی پر بٹھا دیا ۔ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں امداد الملک کو مختار کل بنا یا اور نجیب الدولہ کودہلی اور اودھ کے درمیان روہیل کھنڈ میں افغانوں کی حکومت بنا دی۔یہاں سے بھی اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ شاہ ولی الله کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کو دعوت  کا مقصد  سنی امرا  کے مفادات کا تحفظ تھا تاکہ دہلی اور اودھ کے بیچ فاصلہ پیدا کیا جائے۔ مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی کے خلاف اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ کو اتحاد کی دعوت دی لیکن نواب نے  ہم مذہب  احمد شاہ ابدالی سے اتحاد کرنے کو مصلحت کے قریب جانا۔  آگے آنے والی تفصیلات میں معلوم ہو گا کہ آج  بھی   متحدہ مجلس عمل کی شکل میں یہی  غلطی دہرائی جا رہی ہے۔ 1761ء میں اودھ کےشیعہ نواب شجاع الدولہ(صفدر جنگ کے بیٹے)، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو پانی پت میں شکست دے دی،نجیب الدولہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔1762ء میں شاہ ولی اللہ انتقال فرما گئے۔1770ء میں نجیب الدولہ کے انتقال کے بعد مرہٹوں نے اس کے بیٹے ضابطہ خان کے قبضے سے دہلی آزاد کرایا اور شاہ عالم ثانی کے حوالے کیا ۔ 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوا اور افغان سلطنت داخلی شورش کا شکار ہو گئی۔ ادھر پنجاب میں سکھوں نے ٹولیوں کی شکل میں افغان لٹیروں کے خلاف مزاحمت شروع کی اور پنجاب میں انارکی پھیل گئی۔ سکھوں کی جو ٹولی جس علاقے میں افغانوں کو بھگانے میں کامیاب ہو جاتی، وہاں اپنا ڈاکو راج قائم کرتی۔ شاہ عالم ثانی نے شیعہ سردار نجف خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ نجف خان نے سکھوں کے مقابلے میں دہلی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 1782ء میں نجف خان کا انتقال ہو گیا۔ 1787ء میں ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نےدہلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا، اس نے شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سوئی مار کر اندھا کر دیا اور مغل شہزادیوں سے زنا باالجبر کرنے کے بعد ننگا کر کے کوڑے لگائے۔ کئی خوبصورت مغل شہزادیاں قید میں بھوکی رکھ کر ماری گئیں اور شہزادے اور ان کے بچے بری طرح پیٹے گئے[2]۔ مرہٹے دوبارہ شاہ عالم ثانی کی کمک کو پہنچے اور دو سال بعد دہلی دوبارہ شاہ عالم کے قبضے میں چلا گیا، غلام قادر روہیلہ کی آنکھیں بھی نکالی گئیں اور اس کو اذیت ناک طریقے سے مارا گیا ۔ احمد شاہ ابدالی اور شاہ ولی الله کی برکت سے  پنجاب میں قانون اور ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا۔ پنجاب کو سکھ کا سانس تب نصیب ہوا جب رنجیت سنگھ نے پنجاب کو ایک ریاست کے نیچے منظم کیا اور سکھ سلطنت  (1799ء – 1849ء ) قائم کی۔ میسور کے نواب حیدر علی اور ان کےبیٹے فتح علی ٹیپو  بھی  دہلی کی طرف سے  کسی قسم کے حمایتی  فتوے سے محروم رہے، اسکی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے ریاست میسور میں ایران کے شہر شیراز سے شیعہ علماء اور تاجروں کو آ کر شیعیت متعارف کروانے کا موقعہ دیا؟  سندھ کے شیعہ تالپور میر بھی انگریزوں کے خلاف اکیلے لڑے۔شاہ ولی الله کے بعد آنے والے دور میں شیعہ مخالف تشدد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر دور پچھلے دور سے بڑھ کر تھا۔

دوسرا دور: شاہ عبد العزیز اور تحفہ اثنا عشریہ

شاہ ولی الله کے بیٹوں میں سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ( 1746ء ۔ 1823ء) فرقہ وارانہ نفرت میں آگے تھے، اور انہی منفی جذبات کی وجہ سے ان کو مستقل معدے میں جلن کی شکایت رہتی تھی[3]۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پچیس برس کی عمر ہی میں ان کو جذام ہو گیا اور نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز نے شیعہ اعتقادات کے خلاف “تحفۃ اثنا عشریۃ” نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب ایک افغان سنی عالم خواجہ نصر الله کابلی کی کتاب ” صواقع موبقہ” کی فارسی میں شرح تھی۔اس کتاب کا پہلا نسخہ شاہ عبد العزیز نے تقیہ سے کام لیتے ہوئے “حافظ غلام حلیم “کے قلمی نام سے شائع کیا، کیوں کہ انھیں شیعہ امراء سے انتقامی کاروائی کا خوف تھا۔ البتہ اگر شیعہ صاحبان حل و عقد کو اگر سنی علماء کے خلاف تعصب سے کام لینا ہوتا تو اودھ میں وہ سنی دار العلوم فرنگی محل کی سرپرستی نہ کر رہے ہوتے، جو ہندوستان کا سب سے بڑا سنی مدرسہ تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے خلاف کوئی کاروائی نہ کئے جانے کے بعد اگلی چاپ میں انہوں نے اپنا اصلی نام بھی ظاہر کر دیا۔اس کتاب میں شاہ عبد العزیز نے حد سے تجاوز کرتے ہوئے  شیعہ سنی مشترکات کو بھی متنازعہ بنا دیا۔ اس طرح شیعہ امراء بمقابلہ  سنی امراء ،  ذاتی مفادات کی جنگ میں شیعہ عوام اور شیعہ مکتب فکر کو نشانہ بنا یا ۔ تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میں شیعہ علماء نے موقف اختیار کیا کہ شاہ عبد العزیز نے شیعہ مسلک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے علم مناظرہ اور نقل حدیث کے آداب و رسوم کی خلاف ورزی کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ شیعہ موقف دیانت داری سے اور مکمل طور پر  پیش نہیں کیا گیا ۔ اکثر شیعہ علماء نے اس کتاب کے ہر باب کا الگ الگ کتاب کی صورت میں رد کیا۔ آیت الله سید دلدار علی نقوی ؒ نے شیعہ عقیدہ توحید ، نبوت ، امامت و آخرت کے خلاف لکھے گئے ابواب پنجم ،ششم، ہفتم و ہشتم  کے رد میں “الصَّوارمُ الإلهیّات فی قَطْع شُبَهات عابدی العُزّی و اللّات” ، “حِسامُ الاسلام و سَهامُ المَلام“، ” خاتِمَۃُ الصَّوارم” ،”ذوالفقار“اور “اِحْیاءُ السُّنّۃ و اماتَۃُ الْبِدْعَۃ بِطَعْنِ الأسِنَّۃ”  لکھیں۔ علامہ سید محمد قلی موسوی ؒنے تحفہ اثنا عشریہ کے پہلے، دوسرے، ساتویں، دسویں اور گیارہویں ابواب کا الگ الگ جواب دیا اور ان کتب کا مجموعہ  “الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ” کے عنوان سے شائع ہوا۔ مولانا خیر الدین محمد الہ آبادی ؒ نے باب چہارم کے جواب میں “هدایۃ العزیز ” لکھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی علماء نے  تحفہ اثنا عشریہ کے ابواب کے رد میں کتب تصنیف کیں جن میں شیعہ مکتب فکر کا موقف واضح کیا گیا۔ البتہ بعض علماء نے اس کے تمام ابواب کے جواب میں ایک ہی کتاب لکھی جن میں سے  علامہ سید محمّد کمال دہلوی ؒنے” نزھۃ اثنا عشریۃ[4]” اور مرزا محمد ہادی رسواؒ نے اردو میں “تحفۃ السنۃ ” لکھیں۔ نزھۃ  اثنا عشریہکی اشاعت تو تحفہ اثنا عشریہ کی پہلی اشاعت کے تین سال بعد ہی ہوگئی تھی اور اس وجہ سے ریاست جھاجھڑ کے سنی راجہ نے علامہ سید محمّد کامل دہلویؒ کو بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا کر قتل کر دیا۔ شاہ عبد العزیزنہ صرف  یہ کتاب لکھ کرسنی امرا کے گروہ کے مفاد کیلئے فرقہ وارانہ سرد جنگ کا حصہ بنے بلکہ  بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی  مسلسل جسمانی اذیت  کا غصہ بھی اپنے فتووں اور خطوط میں شیعوں پر نکالتے رہے۔ تحفہ اثنا عشریہ کے جوابات کا اثر یہ ہوا کہ شاہ عبد العزیز کے شاگرد سید قمر الدین حسینی، جن کیلئے انہوں نے” اجالہ نافعہ “کے عنوان سے علم حدیث کا ایک رسالہ لکھا تھا، نے شیعہ مسلک اختیار کرلیا[5]۔   البتہ سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو نصیب  ہوئی وہ  آیت اللہ سید حامد حسینؒ  اور انکی اولاد کی لکھی گئی  بیس جلدوں پر مشتمل   کتاب  “عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار” ہے  [6] جو تحفہ اثنا عشریہ کے ساتویں باب کے رد میں لکھی گئی تھی، یہ کتاب آج تک شیعہ عقیدہ امامت پر لکھی گئی جامع ترین کتاب ہے۔یہاں ایک اہم بات کا ذکر ضروری ہے۔ اس زمانے میں اہم ترین سنی مرکز فرنگی محل تھا، جہاں ادب، فقہ، منطق، ریاضی اور کلام جیسے مضامین پڑھا ئے جاتے تھے۔ علمائے فرنگی محل مذہب کو امراء کے مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے دہلی کے علماء سے دور رہے۔

ہندوستان میں قومی تحریک آزادی چلنے کے بعد کچھ لوگوں نے شاہ ولی الله اور شاہ عبد العزیز کو سنی امرا کے ملازم  اور شیعہ سنی سرد جنگ کا مہرہ کہنے کے بجائے انقلابی سورما کے طور پر پیش کرنا شروع کیا جو کہ کھلا جھوٹ ہے۔ ان دونوں شخصیات نے انگریزوں کے خلاف  کسی مسلمان حکمران کی حمایت میں کوئی فتویٰ یا حکم جاری نہیں کیا۔ البتہ جب انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا تو شاہ عبد العزیز نے ایک فقہی مسلے کی وضاحت کی حد تک ہندوستان کو فقہ حنفی کے مطابق دار الحرب قرار دیا۔ انہوں نے نہ تو انگریزوں کے معاشی بائیکاٹ کی تحریک شروع کی، نہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ عسکری محاذ پر کوئی خطرہ پیدا کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔بعض لوگ آزادی کی جدوجہد کے آغاز کو نواب سراج الدولہ سے منسوب کرنے کے بجائے  اس فتوے کو جدوجہد آزادی کا آغاز قرار دیتے ہیں، جبکہ اس دعوے  کے کھوکھلا ہونے کو یہی بات کافی ہے کہ شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد انگریزوں کی حمایت کا اعلان کرتے رہے، جس کا ذکر آگے آ ئے گا۔اسی طرح بہت سے لوگ شاہ ولی الله کو دہلی میں سنی امرا کا مہرہ کہنے کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دہلی کو ہندو مرہٹوں سے بچایا تھا۔ مرہٹے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور احمد شاہ کی طرح لوٹ مار کر کے اسکی دولت کہیں اور منتقل کرنا نہیں چاہتے تھے۔  حقیقت میں مرہٹے مغل شہنشاہ کو معزول نہیں کرنا چاہتے تھے ، اور جب ضابطہ خان اور بعد میں اس کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نے مغل شہنشاہ کو معزول کیا تو  مرہٹے  ہی اسکی مدد کو پہنچے۔ عجیب تضاد ہے کہ جن لوگوں کے خیال میں  مرہٹوں کی حمایت حرام تھی وہ گاندھی جی کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں – شاہ ولی الله کو انقلابی رنگ میں رنگنے کیلئے یہ مشہور کیا گیا کہ ان کے ہاتھ کسی ظالم راجے نے توڑ دئیے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے ہاتھ ٹوٹنا اگر سچ ہوتا تو اتنا اہم واقعہ تھا جس کو ضرور انکے فرزند نقل کرتے، اگر وہ نہ کرتے تو کوئی مرید ضرور لکھتا۔ اس افواہ کا ذکر ڈیڑھ سو سال بعد کی تحریروں میں ملتا ہے۔وہ زمانہ ایسا تھا کہ “ظالم راجہ”  ان کے ہاتھ کاٹنے کا تردد کرنے کے بجائے سیدھا قتل کر دیتا۔شاہ عبد العزیز  صاحب کے بارے میں بھی ایک فرضی ظلم یہ گھڑا گیا ہے کہ ان کے جسم پر کسی شیعہ  نےچپکے سے  چھپکلی کا زہر ملا تھا جسکی وجہ سے انکو جذام ہو گیا تھا، لیکن برا ہو جدید علم طب کا جس نے ثابت کیا ہے کہ جذام کا چھپکلی کے لعاب دہن سے کوئی تعلق نہیں۔شاہ صاحب خود فرماتے ہیں کہ انکی معدہ اور جلد کی بیماری  جوانی کے   زمانے سےتھی۔اس زمانے میں اگر کسی نے شاہ صاحب کو نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ  تحفہ اثنا عشریہ  کا مصنف حافظ غلام حلیم  کو ہی رہنے دیتے۔

تیسرا دور:نیم خواندہ امیر المومنین

عرب دنیا میں 1802ء میں وہابی لشکر نے کربلا اور نجف پر حملہ کیا اور وہاں آئمہؑ کے مزارات کی تخریب کے ساتھ پانچ ہزار شیعہ مسلمان قتل کئے۔1804ء میں اس لشکر نے مدینہ پر بھی حملہ کیا اور روضۂ رسولؐ کی توہین کی۔ ان حرکتوں کی وجہ سے عالم اسلام میں اس تحریک کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوئے، لیکن ان کاروائیوں کا  اثر شاہ ولی الله کے خاندان کے بعض افراد پر یوں پڑا کہ  ان کے  متعصبانہ  اورسطحی  تصور ات  سے ابھرنے والے متشدد ذہن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ برصغیر میں وہابیت نافذ کرنے کی کوشش سب سے پہلے 1820ء کی دہائی میں سید احمد رائے بریلی، شاہ اسماعیل دہلوی اور مولوی عبد الحئی نے کی۔ ان میں سے شاہ اسماعیل دہلوی شاہ عبد العزیز کے بھتیجے اور مولوی عبد الحئی، شاہ عبد العزیز کے داماد تھے۔  ان تین حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں بہت اہم ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش،اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 1786ء میں پیدا ہونے والے سید احمد رائے بریلی نے پہلے عالم دین بننے کی کوشش کی مگر کند ذہن ہونے کی وجہ سے ناکام ہوئے اور پانچ سال زور لگانے کے بعد مدرسہ ترک کر دیا۔ 1811ء میں امیر خان نامی ڈاکو کے لشکر میں شامل ہوئے جس نے سات سال بعد انگریزوں سے معاہدہ کر کے ہتھیار ڈال دئیے اور آپ بیروزگار ہو گئے[7]۔ اب سید احمد نے بھی  لا شعوری طور پر امیر خان ڈاکو کی  طرح ریاست قائم کرنے  کی خواہش پیدا ہوئی۔ نیم خواندہ حضرات میں دین  یا آئیڈیالوجی کے نام پر اقتدار کے حصول کی نفسیات بہت پیچیدہ ہے۔ یہ لوگ خود راستی کے احساس کا شکار ہو کر کسی قسم کا ظلم اور غلطی کرنے سے نہیں چوکتے۔ ہمارے زمانے میں اسکی ایک مثال کمبوڈیا کے پول پاٹ، اور عراق و شام کے ابو بکر بغدادی کی ہے۔ اس مہم میں اہم موڑ شاہ اسماعیل اور مولوی عبد الحئی کا اپنے آپ کو سید احمد کی مریدی میں دینا تھا۔ یہ دونوں سید احمد سے ہرلحاظ سے بہتر تھے، چنانچہ سید احمد میں یہ مالیخولیا  پیدا ہوا کہ وہ خدا کی طرف سے چنے ہوئے اور ایک مشن پر مامور کئے گئے ہیں۔ مذہبی دنیا میں  کم علمی کی وجہ سے کوئی مقام نہ ہونے  اور پیٹ کی بھوک نے اس مالیخولیا کو اور ہوا دی۔ وہ مفتی بن کر عزت  و معاش نہ کما سکے تو امیر المومنین بن کر مفتیوں سے بھی آگے نکل سکتے تھے۔ سید احمد کی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ آج کل کے دہشتگردوں کو سمجھنے کیلئے بہت ضروری ہے کیوں کہ ان لوگوں  کوبھی جب  جہالت، غربت اور  اکابر کی حمایت  کی مثلث  کا سامنا ہوتا ہے تو انکی نفسیاتی کیفیت  بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی انسان محض حوروں سے مجامعت کیلئے خودکشی نہیں کرتا۔

اب اس تحریک کے دوسرے رخ، یعنی شیعہ مخالف تشدد کی طرف آتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے اپنی کتب میں اہل سنت کو عزاداری پر حملے کیلئے اکسایا اور کہا کہ تعزیہ توڑنے کا ثواب بت شکنی جیسا ہے۔ شاہ عبد العزیز اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تھے،  ان کے ہاں نہ صرف محرم میں مجلس ہوتی تھی(فتاویٰ عزیزی میں 1238 ہجری یعنی سن 1818ء میں ایک سوال کے جواب میں ایسی مجلس کا ذکر موجود ہے) بلکہ وہ بی بی فاطمہؑ کی نیاز بھی دیا کرتے۔ سید احمد نے ان کے گھر میں نیاز دلانے کے سلسلے کو بھی بند کروا دیا[8] ۔ اس سے پہلے محرم میں تعزیہ،  اہلبیت کا  ذکرا ور نیاز  شیعہ و سنی کیلئے مشترک  عمل تھا۔سید احمد رائے بریلی نے سہارن پور میں تعزیے کو آگ لگوا دی۔ اس توہین کی وجہ سے اہل تشیع میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے اس فتنے کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس تیاری کی خبر ملنے پر انگریزوں نے سید احمد اور ان کے مریدوں کو سہارن پور سے علاقہ بدر کر دیا۔ سید احمد جب بریلی گئے تو وہاں بھی عزاداری کے خلاف جلسے اور تقریریں کیں جن کے ردعمل میں اہل تشیع نے تبرا کا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔ صفوی دور کی شروع کردہ بدعت ہندوستان میں بھی آنے والی تھی مگر اودھ کے نواب غازی الدین حیدر اور آیت الله سید دلدار علی نقویؒ نے اہل تشیع کو اس حرکت سے باز رکھا۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر فساد پھیلانے کے بعد چار سو عقیدت مندوں کو لے کر سید احمد1821ء میں حج کرنے چلے گئے۔راستے میں بنارس کے مقام پر اہلسنت کی امام بارگاہوں پر حملہ کیا اور تعزیے جلائے۔ پٹنہ میں بھی یہی کام کیا اور وہاں کے انگریز مجسٹریٹ نے اہل تشیع کے احتجاج کے باوجود اس ٹولے کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی[8] ۔

اب اس تحریک کے تیسرے رخ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ طالبان اور القاعدہ کے امریکہ کے ساتھ عجیب و غریب گٹھ جوڑ کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں شاہ ولی اللہ کے خاندان کے اقدامات اور انگریزوں کے مفادات کے درمیان غیر مستقیم تعلق کو سمجھنا ہو گا۔ انگریز اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے – وہ اکبر کے زمانے سے ہندوستان کے معاشرے کے بارے میں معلومات جمع کر رہے تھے اور کتب لکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عرب ممالک میں وہابی تحریک اور ہندوستان میں شاہ ولی الله کے خاندان کی تحریک ان معاشروں کو اسی طرح کھوکھلا کرے گی جیسے یورپ میں 1522 ء میں چھڑ کر 1618ء سے 1648 ء تک عروج پر پہنچنے والی فرقہ وارانہ جنگوں نےمغربی معاشروں کو کیا تھا۔ لہٰذا جس طرح انہوں نے حجاز میں وہابی تحریک کی حمایت کی اسی طرح ان حضرات کو بھی اپنی نظر میں رکھتے ہوئے کھلی چھٹی دی۔ بات واضح تھی، سید احمد جیسے  انگریزوں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے البتہ ان کو اپنے جاسوسوں کی مدد سے ورغلا کر اس زمانے میں انگریزوں کے دشمن سکھوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا۔ سید احمد کو لشکر سازی میں امیر خان ڈاکو نے بہت مدد فراہم کی، جو کچھ عرصہ قبل  انگریزوں سے معاہدہ کر  کے  ہتھیار پھینکنے کے بدلے جائیداد حاصل کر چکا تھا۔ اس طرح اس شخص کو سہولت کار کے طور پر استعمال کر کے انگریز اس ساری تحریک کو اپنے انگلیوں پر نچا رہے تھے۔یہ لوگ  شمالی ہندوستان میں لشکر بنا کر جہاد کیلئے راجستھان، بلوچستان اور افغانستان کا تین ہزار میل لمبا سفر کر کے سکھوں کی کمر میں خنجر مارنے پختون علاقوں میں پہنچ گئے۔ اس وقت سندھ میں شیعہ تالپور خاندان  انگریزوں سے بر سر پیکار تھا مگر ان مجاہدین نے انکی کوئی مدد نہ کی۔ شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں:۔

“انگریزوں سے جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ۔ ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں”[11۔9]۔
آج کل سید احمد اور شاہ اسماعیل دہلوی کو انگریز دشمن کہنے والے حضرات ان باتوں کی تاویل کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ انکی “حکیمانہ چال” تھی، اور انہوں نے پنجاب فتح کرنے کے بعد انگریزوں کی شامت لانی تھی- اگر کوئی شیعہ ایسا کرتا تو اسکا تقیہ “حکیمانہ چال” کے بجاۓ منافقت کہلاتا-
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی

اس تحریک کا چوتھا رخ خود اہلسنت میں تفرقہ ایجاد کرنا ہے۔ ان لوگوں نے اپنی دانست میں  خدا کی شان بیان کرنے کیلئے رسول الله(ص) کی شان میں توہین آمیز باتیں کیں ۔ اس کام کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد سنی علماء نے ان کے افکار کے خلاف رسالے لکھے، جن میں علامہ فضل حق خیر آبادی،مولانا عبدالمجید بدایونی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا ابوالخیر سعید مجددی نمایاں تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نے ایک پوری کتاب ”تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ”لکھی۔ان لوگوں کے پیروکار بعد میں بریلوی کہلائے۔

1826ء میں یہ لوگ پختون علاقوں میں طالبانی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کوئی ایسی ریاست نہیں تھی جو انسانی سرمائے کو استحکام اور آزادی کی فضا مہیا کر کے عوام کی زندگی میں بہتری لاتی، غربت اور بیماریوں کا خاتمہ کرتی۔ اس زمانے میں مغرب میں صنعتی اور طبی انقلاب کا آغاز ہو چکا تھا جس نے آگے چل کر دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضہ جمایا، ادھر مسلمان معاشرے کو ایسی جونکوں نے آ لیا تھا۔ پشتون علاقوں میں انہوں نے اپنے ساتھ بنگال  و  بہار سے لائے گئے کالے  مجاہدین کی مقامی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں کی تھیں۔ اگرچہ اس حرکت کی وجہ سے مقامی آبادی ان کے خلاف ہو گئی تھی لیکن آگے چل کر ان شادیوں نے ان علاقوں میں انکی سوچ پھیلائی۔ آخر کار 1831ء میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کو بالاکوٹ میں پختونوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر قتل کر کے خلاصی پائی۔ ان کی وفات کے سو سال بعد مرزا حیرت دہلوی جیسوں نے اپنی کتابوں میں ان حضرات کے بارے میں عجیب و غریب کرامات درج کیں۔

چوتھا دور: پرنٹنگ پریس، مدارس ، ریل گاڑی، ٹیلی گرام اور غربت

1857ء میں ہندو اور مسلمان سپاہیوں کی غیرت نئے کارتوسوں پر لگی گائے اور سور کی چربی کو چکھ کر بیدار ہو گئی۔ انگریزوں کیلئے یہ تعجب کی بات تھی کیوں کہ آج تک یہی لوگ کرائے کا سپاہی بن کر ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے اور مقامی راجاؤں کے سر کاٹ کر گورے صاحب کے قدموں میں رکھتے رہے تھے۔لکھنؤ اور دہلی کے شیعہ سنی علماء نے  جہاد کا مشترکہ فتویٰ دیا۔ دار الحرب والے بناسپتی فتوے کے برعکس یہ فتویٰ ایک حقیقی خطرہ بن کر سامنے آیاکیوں کہ یہ واضح اور روشن سیاسی ہدف رکھتا تھا۔ ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سے پھسلا تو برطانیہ کی حکومت نے گود لے لیا۔ رنگون سے آنے والے انگریز فوج کے دستے نے لاکھوں لوگ قتل کر کے چنگیز خان کی سی دھاک بٹھا دی۔بہر حال اس غیر منظم جنگ نے پہلی بار ہندوستانیوںمیں اجتماعی زندگی کے بارے میں سوچ پیدا کی۔ اس سیاسی تبدیلی کے ساتھ اہم سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں:۔

  1.  اپنی ایجاد کے چار سو سال بعد چھاپہ خانہ (پرنٹنگ پریس) ہندوستان پہنچ چکا تھا۔چھاپہ خانہ کتنی بڑی اور گہری تبدیلی تھا، اس کا اندازہ دس سال قبل  فیس بک، گوگل اور یو ٹیوب کے عام ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانے میں فرق کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔     تحریریں لکھنا اور نشر کرنا سستا اور عام ہو گیا۔نیز جس طرح آج کل سوشل میڈیا کو بہت سے لوگوں نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہے، اسی طرح چھاپہ خانوں کی توجہ بھی ایسا مواد نشر کرنے پر زیادہ ہوئی جو بک سکتا تھا- جنتریاں، معجزات، کرامات، ٹوٹکے ہی نہیں بلکہ نفرت انگیز پمفلٹ اور کتابیں بھی چھپنے لگیں-
  2. راجے مہاراجاؤں کا زمانہ ختم ہونے سے مدارس و علماء کی معاش کا انحصار عوامی چندے پر ہونے لگا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ علمی گہرائی کے بجائے ظاہر بینی اور عوام کو متاثر کرنا علماء کی  معاشی مجبوری بن گیا۔ اب عوام میں تقسیم پیدا کر نا علماء کی معاشی مجبوری بن گیا۔ سنیوں  میں  علمائے  فرنگی محل کی جگہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور نیچری (دین کی مادی تفسیر کرنے والے) آ گئے-  شیعوں  میں انیس و غالب اور مجتہدین کی بجاۓ خود ساختہ قصے سنانے والے ذاکرین اور گرما گرم مناظرانہ بحثوں والے خطبا  منظر عام پر آ گئے۔بہت سے مدارس کھل گئے۔بدعتی بمقابلہ وہابی، غالی بمقابلہ مقصر   کی بنیاد پر گروہ بندیاں ہوئیں۔پہلے کئی شیعہ علماء ، سنی علمائے   فرنگی محل  کے شاگرد رہ چکے  تھے اور کئی سنی علماء، شیعہ مجتہدین کے شاگرد رہ چکے تھے، لیکن اب عوام کو یہ سمجھانا ممکن نہ تھا کہ ان کے چندے سے دوسرے مسلک کے طالب علم کو منطق یا حدیث کا علم کیوں پڑھایا جا رہا تھا؟
  3. ریل گاڑی اور ٹیلی گرام نے مختلف علاقوں میں رہنے والے ایک مکتب فکر کے افراد کو آپس میں رابطہ کرنے اور مل کر اقدام اٹھانے کے قابل بنا دیا اور بہت سی تنظیمیں بن گئیں ۔ ہندوؤں میں بھی اس زمانے میں شدھی تحریک جیسی جماعتیں قائم ہونے لگیں۔ مسلم مسیحی مناظرے بھی عام ہو گئے۔مولانا شبلی نعمانی نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کیلئے ندوۃالعلماء کی بنیاد رکھی جس میں تمام مسالک کو شامل کیا گیا۔
  4. انگریزوں نے امریکا اور افریقہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں ہندوستان کی دولت لوٹنے کیلئے طرح طرح کی پابندیاں لگائیں جنکی وجہ سے ہندوستان کا کام برطانیہ کی صنعت کو خام مال فراہم کرنا رہ گیا۔ ہندوستان میں تیزی سے غربت میں اضافہ ہوا۔ غربت میں پسنے والے کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہیں تھی کہ کتاب پڑھ کر غور و فکر کر سکے۔ غربت نے عام آدمی کو کتاب خوانی کے بجائے پروپگنڈے پر مشتمل اخباروں، افواہوں  اور اشتہارات  کا چارہ بنا دیا۔غربت کا ہی ایک نتیجہ یہ نکلا کہ عالم اسلام کی تمام ناکامیوں کو مسلم سماج  اقلیت ، یعنی اہل تشیع، کے ذمے لگایا جانے لگا۔  معاشی بحران  میں کمزور گروہ کو ساری ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینا عام ہوتا ہے، صاحبان اقتدار کے کاموں  کی ذمہ داری کسی  چالاک “ابن سبا ”  یا “یہودی جرمن”پر ڈال دی جاتی ہے۔
  5. اہلسنت میں جو نئے مسالک بنے، انہوں نے اپنے آپ کو پکا اور اصلی سنی ثابت کرنے کیلئے شیعوں کو تختۂ مشق بنایا۔ اسکو سمجھنے کیلئے یورپ میں مارٹن لوتھر کی یہود مخالف تبلیغ اور نفرت انگیزی کو دیکھنا ہو گا۔ جب کیتھولک چرچ نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اس کو گمراہ قرار دیا تو اس کے پاس عوام میں جگہ بنانے کیلئے یہی راستہ تھا کہ یوروپی معاشرے میں ہر جگہ پائی جانے والی اقلیت کو کیتھولک چرچ سے بڑھ کر نشانہ بنائے تاکہ اکثریت بمقابلہ اقلیت کی فضا میں اکثریت اسکو اپنا سورما سمجھے۔ وہاں بھی یہ کام پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے ممکن بنایا تھا۔ چنانچہ  مولانا رشید احمد گنگوہی نے تحفہ اثنا عشریہ کے خلاصہ بعنوان  ” ہدیہ الشیعہ” لکھا، اس میں شیعہ علماء کی طرف سے لکھی گئی وضاحتوں پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ سر سید احمد خان نے تحفہ اثنا عشریہ کے دو ابواب کا ترجمہ بعنوان “تحفہ حسن ” کیا۔البتہ سر سید احمد خان کو جلد ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ فرقہ واریت کا حصہ بن کر وہ کوئی خدمت نہیں کر رہے، انہوں نے جدید تعلیم کیلئے اینگلو اورینٹل کالج بنایا جس کو راجہ صاحب محمود آباد ، مولانا چراغ علی، سید امیر علی، وغیرہ جیسے با اثر شیعوں کی بھرپور  حمایت بھی حاصل رہی۔  دیوبندی اکابر کے سرتاج مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے شیعوں کے خلاف جو کتاب لکھی اسکا عنوان ہے،”مطرقۃالکرامہ” یعنی کرامت والا ہتھوڑا، جواب میں مولانا سجاد حسین نے کتاب کا نام رکھا،”اعجاز داؤدی”، جس میں حضرت داؤد ؑکے لوہا پگھلانے والے معجزے کی طرف اشارہ تھا۔  مولانا  احمد رضا خان بریلوی نے دیوبند مکتب فکر کے خلاف مکہ و مدینہ میں عثمانی سلطنت کے علماء سے جو فتویٰ منگوایا اس کو “حسام الحرمین” یعنی حرمین کی تلوار کے عنوان سے چھاپہ، اس کے جواب میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے “المہند علی المفند”لکھی جس کے عنوان کا مطلب ہے “کھسکے ہوئے بڈھے کے سر پر ہندوستان کی تلوار کا وار”۔ ان عنوانات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں عوامی توجہ حاصل کرنے کی دوڑ میں علماء کی ذہنی حالت کیا تھی؟
    شاید اسی لیے اقبال نے کہا:-
    عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
    قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش
    یہاں ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت کچھ ایسے شیعہ خطیب اور مناظرین سامنے آ ئے  جو سنی سے شیعہ ہوئے تھے۔ چونکہ یہ لوگ فقہ و حدیث میں مجتہدین کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے ، لہذا انہوں نے اختلافی مسائل کو اپنی تقریروں کا موضوع بن کر عوام میں جگہ بنائی۔ مولانا سجاد حسین ایک ایسے ہی شیعہ  عالم تھے۔ ایک اور خطیب جو سنی سے شیعہ ہوئے مولانا مقبول احمد دہلوی تھے۔ دوسری طرف ایک شیعہ عالم مولانا محسن الملک سنی ہو گئے۔ انہوں نے سنیوں میں شیعہ مخالف مہم چلانی شروع کر دی۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :”محرم میں ذکر شہادت حسینؑ کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو، یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے” [12]۔ اسی دوران مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی عزاداری پر شرک کا فتویٰ لگایا اور شیعوں کو اسلام کے آنگن میں پڑا پاخانہ قرار دیا [13،14]۔  ندوۃالعلماء کو یہی سوچ لے ڈوبی کیوں کہ اس کے اجلاسوں میں  امام احمد رضا خان بریلوی نے شیعوں کے خلاف ہنگامہ کیا جس کے نتیجے میں شیعہ مجتہدین نے اپنے آپ کو الگ کر لیا۔یہی نفسیات بعد میں پرویزی فرقے(منکرین حدیث) میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو  اپنے مخالفین کو عجمی  شیعہ سازش کے پیچھے بھگا کر  خود کو اصلی مسلمان ثابت کرتا ہے۔
  6.  اس دور میں عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے جعلی کرامات اور معجزات بھی پھیلاۓ گئے- مثال کے طور پر مولانا قاسم نانوتوی کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ انہیں خواب آیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھے ہیں [ سوانح قاسمی، جلد اول، صفحہ 132]۔ایک اور خواب کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جسم مبارک مولانا قاسم نانوتوی کے جسم میں سما گیا[سوانح قاسمی، جلد دوم، صفحہ 129]۔ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے خواب اور کرامات بھی انکی مقبولیت کی ایک وجہ بنے تھے- یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا- مولانا عطاء اللہ بخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تھے تو پرندے اور جانور رک جاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جب حج کیلئے گئے تو یہ جھوٹ مشہور کر دیا گیا کہ انہوں نے روضۂ رسولؐ پر جا کر سلام کیا تھا تو روضہ رسول ؐسے جواب آیا “وعلیکم السلام یا عبدی”، اسی بنیاد پر انھیں مدنی کہا جاتا ہے۔مولانا احمد علی لاہوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ ان کو حلال مال سے خریدا گیا ہے یا حرام مال سے، اسی طرح لوگوں کو دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ یہ جنتی ہے یا جہنمی؟ یہاں تک کہ لال مسجد کے مولانا عبد العزیز نے مسلح افراد کو اعتماد میں لینے کے لیے کہا تھا کہ مجھے رسول اللہ ؐنے خواب میں آ کر بشارت دی ہے کہ میرے شہید ہونے کے بعد پاکستان میں میرے خون کی برکت سے اسلامی انقلاب آ جائے گا۔ بہت سے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مولانا عبد العزیز لوگوں کو رسول ؐکی زیارت کرواتے ہیں۔

پانچواں دور: لکھنؤ میں پہلا  فساد اور تحریک خلافت

بیسویں صدی کا آغاز فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہوا البتہ اس دوران علامہ اقبال، مولانا آزاد ،قائد اعظم محمد علی جناح اور علی برادران جیسے رہنما سامنے آنے لگے ۔ علامہ اقبال اور مولانا آزاد اردو زبان کے بے مثل شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی حالات اور سماجی مسائل میں صاحب نظر سنی تھے۔ قائد اعظم اسماعیلی  شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خانگی معاملات اور وراثت کے مسائل میں فقہ جعفریہ سے متاثر ہو کر اثنا عشری شیعہ ہو گئے۔علی برادران کی والدہ شیعہ تھیں اور بعد میں ان کے والد بھی شیعہ ہو گئے لیکن وہ خود علمائے فرنگی محل کے پیرو سنی تھے۔اب برصغیر میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے کیلئے ایک متبادل قیادت سامنے آ گئی، لیکن فرقہ وارانہ  منافرت  کا جو بیج شاہ ولی الله نے  امراء کی جنگ کا فریق بن کر بویا تھا، وہ  غربت اور کم علمی کے دور میں تناور درخت بن چکا تھا۔ اس دوران لکھنومیں مولانا عبد الشکور لکھنوی سامنے آئے۔یہ بھی اس دور کے عوامی علماء کی طرح نیم خواندہ تھے۔ انہوں نے شیعہ مخالف مہم میں نیا جوش پیدا کیا۔ متعہ کو قدیم کتب اہلسنت میں نکاح کی ایک قسم قرار دیا جاتا تھا، انہوں نے اسکو زنا قرار دیا۔تقیہ کو نفاق کے برابر کہا اور شیعوں کو قرآن و نبوت کا منکر قرار دیا۔اسی دور میں ایک نیا رواج یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص اپنا مسلک تبدیل کرتا تو اس کو دوسرے مسلک کی فتح قرار دیا جاتا۔ اصلی مشکلات کو شکست نہ دے سکنے والے ایسی” فتوحات “پر غصہ ٹھنڈا کرنے لگے۔1900 کے  عشرے میں مولانا عبد الشکور  لکھنوی اور مولانا مقبول دہلوی کے مناظرے عام تھے۔ ابھی تک اہلسنت میں تعزیہ داری کا رواج موجود تھا، لہذا  مولانا  عبد الشکور لکھنوی نے اس بات پر  زور دیا کہ عاشورا چونکہ امام حسین کی فتح کا موقعہ ہے لہذا اس دن خوشی منانی چاہئیے۔ یہ شرارت  بہت کامیاب ہوئی۔اب روز عاشورا کو جب شیعہ جلوس تل کٹورا کے مقام پر ” درگاہ امام حسین و کربلا” نامی مشترکہ امامبارگاہ جاتا تو ماتم اور نوحے اور غم کا اظہار کر رہا ہوتا، جبکہ سنی جلوس میں عید میلاد النبی ؐ کی طرز پر خوشی کا اظہار ہوتا۔ عاشورا کے دن بچوں کے جھولنے کیلئے پینگیں اور خریداری کیلئے مختلف قسم کے سٹال لگاۓ جانے لگے، ایک میلے کا سماں پیدا ہونے لگا۔ غریب ہندو بھی اس موقعے پر اشیاۓ خورد و نوش بیچنے کیلئے ریڑھیاں لگانے لگے[15]۔ آج کل بھی یہ عمل جاری ہے، مثال کے طور پر  یوٹیوب  پر اورنگ آباد میں عاشورا کے حوالے سے ویڈیوز تلاش کریں تو   ہر دو قسم کی ویڈیوز مل جائیں گی، ایک طرف عزاداری اور ایک طرف جشن!، یہاں سے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر شیعہ سنی فساد ہوا اور انگریزحکومت نے مداخلت  کر کے  تل کٹورا میں عاشورمیلے پر پابندی لگا دی۔ مولانا عبد الشکور اور ان کے ساتھیوں  نے 1906 میں لکھنؤ کے شمال میں الگ سنی امام بارگاہ بنام “کربلا” قائم کی۔ انہوں نے اگلی بات یہ کہی کہ اہلسنت عاشورا کے دن  کالے کپڑے پہننا ترک کریں اورسفید، زرد یا سرخ لباس پہنا کریں۔شیعہ روایات کے مطابق سرخ لباس لشکر شام کا تھا، اس سے شہر میں شیعہ  سنی تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ مولانا نے تعزیے کے ساتھ چار یاری پرچم متعارف کرایا اور  کربلا کے بجاۓ ” مدح صحابہ “کےعنوان سے جلوس نکالنا شروع کیا ۔ یہاں سےاکثر اہلسنت ان سے الگ ہو گئےاور ایک اقلیت ان کے ساتھ رہ گئی۔1907 اور 1908 میں عاشورا کے موقعے پر لکھنؤ میں بڑے پیمانے پر  فسادات ہوۓ[16]۔ انگریز حکومت نے  پیگوٹ کمیٹی  کے نام سے انکوئری کمیشن بنایا جس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوۓ مدح صحابہ کے جلوس کو  بد نیتی پر مبنی شرارت  قرار دے کر پابندی لگا دی۔ ساتھ ہی انہوں نے عزاداری کے جلوسوں کو رجسٹر کر کے لائسنس جاری کئے تاکہ حکومت کی پیشگی اجازت  کے بغیر کوئی جلوس نہ نکلے۔ جلوس پر پابندی لگنے کے بعد  مولانا نے محرم میں بزم صدیقی، بزم فاروقی اور بزم عثمانی  کے عنوان سے محافل کا انعقاد شروع کر دیا ۔ ان محافل میں مسلہ خلافت جیسے اختلافی مسائل پر تقریریں ہوتیں اور خلافت راشدہ کے زوال کا ملبہ ابن سبا جیسے” گھاگ سازشیوں” پر ڈال کر شیعوں کو اسکا جدید روپ قرار دیا جاتا۔ یہ ماحول شیعوں میں مولوی مقبول دہلوی جیسے لوگوں کے پھلنے پھولنے کیلئے نہایت سازگار تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمر ؓ کے یوم وصال پر بزم فیروزی کا انعقاد شروع کر دیا۔علماۓ فرنگی محل نے خود کو مولانا عبد الشکور لکھنوی سے دور رکھا البتہ بعض دیوبندی علماء نے انکی بھرپور حمایت کی ۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے “کتاب شہادت” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرات  علی ؑو حسنین ؑکی توہین اور ملوکیت بنی امیہ کی وکالت کی گئی تھی[17]۔بات شیعہ دشمنی سے نکل کے اہلبیتؑ کو نشانہ بنانے تک پہنچ گئی۔

جب تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو جہاں پیر مہر علی شاہ گولڑوی جیسے بعض سنی رہنماؤں نے عثمانی خلافت کو ملوکیت قرار دے کر اسکی مخالفت کی وہیں لکھنؤ کے شیعہ مجتہدین نے بھی مذہبی بنیادوں پر اسکو مسترد کیا۔ البتہ علی گڑھ میں پڑھنے والے شیعوں نے اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور اپنے علاقوں میں اسکے عہدیدار بھی بنے۔ جمعیت علمائے ہند   اور گاندھی جی نے  اس تحریک کو اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کیلئے کامیابی سے استعمال کیا۔ شیعہ عوام میں بھی  حجاز، عراق اور ایران کے مقدس مقامات پر انگریزوں کے حملوں کی وجہ سے اس تحریک کی حمایت پیدا ہوئی۔قائد اعظم ؒالبتہ اس کو ایک بے سمت اور بے مقصد تحریک قرار دے کر اس سے الگ رہے۔اس تحریک نے جہاں مسلمانوں میں گاندھی جی کا حامی طبقہ پیدا کیا وہیں شیعہ و سنی کے تناؤ کو کم کیا۔ 1920 کی دہائی میں شیعہ سنی فساد کا تنور کافی حد تک ٹھنڈا ہو گیا۔ البتہ اس دہائی میں لکھنؤ میں نئے کارخانے لگے جسکی وجہ سے دیہات سے بہت لوگ لکھنؤ میں آ کر رہنے لگے اور شہر کی آبادی دوگنی ہو گئی۔ اپنے ماحول ، دوستوں اور برادری  سے دور شہر آنے والے دیہاتیوں کیلئے مذہبی تنظیمیں سماجی رابطے بنانے اور جدت و تہذیب کے خوف سے نبٹنے کا وسیلہ ہوتی ہیں۔دیہاتی نوجوان شہر آ کر مذہبی تنظیموں میں شہری تہذیب کے خلاف اپنا غصہ نکالتے ہیں۔

چھٹا دور: فسادات کا عروج  اور مولانا  حسین احمد مدنی

1929ء میں   لاہور میں مولانا عطا الله شاہ بخاری، مولانا مظہر علی اظہر  اور مولانا ظفر الملک  نے “مجلس احرار” نامی تنظیم بنائی۔مولانا مظہر علی اظہر سابقہ شیعہ تھے جنہوں نے بعد میں دیوبندی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ یہ سپاہ صحابہ  عنصر کا ابتدائی ظہور تھا۔ مجلس احرار نے مدح صحابہ کے جلوس پر پابندی کے خلاف تقاریر شروع کیں۔1931ء میں  مولانا عبد الشکور لکھنؤی  کے فرزند مولانا عبد الشکور فاروقی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ”دار المبلغین” قائم کیا اور دوبارہ محرم کے دنوں میں   بزم  صدیقی اور بزم فاروقی  کا آغاز کر دیا ۔ اپنے والد کے برعکس مولانا فاروقی نے اہلسنت کے تعزیے کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔مولانا فاروقی  ان محفلوں کو  شیعہ مدرسہ الواعظین اور عزاداری کے اہم روٹ  کے سامنے “ڈیوڑھی آغا میر” میں منعقد کیا کرتے[18]۔اس مرتبہ اہلسنت سے  ایک نیا گروہ  الگ ہو کر سامنے آیا جنہوں نے کھلم کھلا اہلبیت کے قاتلوں کی مدح شروع کر دی۔ یہ لوگ خود کو فخر سے” خارجی” کہتے تھے[19]۔ 1936ء میں مجلس احرار نے محرم کے موقعہ پر مدح صحابہ کا جلوس بحال کروانے کیلئے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔اس وقت ہندوستان میں انتخابات ہوۓ تو شیعہ نمائندوں کو ووٹ دینا حرام قرار دیا گیا۔قائد اعظم کے چودہ نکات اور گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آ رہی تھی لیکن قائد اعظم، ابوالحسن اصفہانی اور راجہ صاحب محمود آباد کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مجلس احرار اور جمیعت علماۓ  ہند نے مسلم لیگ کے خلاف گھٹیا مہم چلائی۔ قائد اعظم کی مرحومہ زوجہ، جنہوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور جن کی وفات کے بعد ان کو شیعہ طریقے سے بمبئی کے خوجہ اثنا عشری قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، کو جمیعت علماۓ  ہند نے کافرہ کہنا شروع کیا[20]۔

جمیعت علماۓ  ہندکیلئے یہ ہضم کرنا مشکل تھا کہ تحریک خلافت کے برعکس اس مرتبہ مسلمان مسلم لیگ کی طرف کھنچے جا رہے تھے۔1937ء میں لکھنؤ کے شیعوں نے اشتعال انگیزی کے رد عمل میں تبرے کے جلوس نکالنا شروع کر دئیے۔اس دوران کانگریس کی حکومت بن چکی تھی۔ 1938ء میں جمیعت علماۓ ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی نے مدح صحابہ تحریک کی قیادت سنبھال لی۔1938ء میں عاشورا کے موقعے پر شیعہ سنی جنگ ہوئی اور متعدد افراد قتل ہوۓ۔شہر کے شیعہ اور سنی شہریوں نے آپس میں بول چال، خریداری، آنا جانا بند کر دیا۔ قائد اعظم ؒ، جوکہ مسلمانوں کے حقوق کیلئے متحرک ہو چکے تھے، اس فساد کو کانگریس کی سازش سمجھتے تھے کیوں کہ اس کو ہوا دینے والے جمعیت علمائے ہند کے مولانا حسین احمد مدنی کانگریس کے اتحادی تھے۔ قائد اعظم ؒکے خیال میں شیعہ سنی جھگڑے کروانے کا مقصد مسلم لیگ کی طرف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے شروع کی جانے والی تحریک کو پردے کے پیچھے دھکیلنا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگریسی وزیروں کی مسلم دشمنی سامنے آنے کے باوجود مولانا حسین احمد مدنی  ہندو مسلم  اتحاد  کی تو وکالت کرتے  تھے مگر مسلمانوں کا داخلی اتحاد توڑنے میں لگے رہتے تھے۔ اس تضاد کو حل کرنے کیلئے ہمیں مولانا مدنی کے معاشی مسائل کو سمجھنا ہو گا، مولانا کو دیوبند مدرسہ و جمیعت  کا خرچہ پورا کرنا تھا ۔عوام سے چندہ لینے میں فرقہ وارانہ نفرت اور خوف بہت کارآمد ہے ۔ دوسری طرف مسلم لیگ کے پروگرام کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے جمیعت علماۓ اسلام کی سیاسی زندگی ختم ہونے کو تھی، لہذا اسے  ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگا کر کانگریس  کے پروں میں پناہ لینا پڑی ۔گویا رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ قائد اعظم ؒکے ساتھی مرزا ابو الحسن اصفہانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:۔

”مجھے یاد ہے کہ پہلے روز مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے جناح کی حمایت کرتے ہوئے مسلم لیگ کو عملی سیاست کے اکھاڑے میں زیادہ فعال حصہ لینے کی تجویز کا خیرمقدم کیا مگر آخری روز ان دو علمائے دین میں سے ایک نے تجویز پیش کی کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کی خاطر انتھک اور مؤثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر دیوبند کی مشینری مسلم لیگ کے لیے وقف کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لیگ اس پروپیگنڈے مہم کے اخراجات برداشت کرے۔ ابتدائی اخراجات کے لیے پچاس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ جناح نے صاف بتا دیا کہ نہ تو اس وقت لیگ اتنے پیسے دے سکتی ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے۔ اس پر ہر دو علمائے دین مایوس ہو کر کانگرس کی طرف راغب ہو گئے۔ کانگرس چونکہ مالی اعانت کا مطالبہ پورا کر سکتی تھی اس لیے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا “۔ [21]

اور نوبت یہاں آ پہنچی کہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے بقول: ۔

”جن کے علم و تقویٰ پر (بزعم خود) مدینے کی مہر ثبت تھی، اُن کی بابت جواہر لال نہرو کا ایک خط شائع ہو گیا کہ حسین احمد کو اتنے روپے دے چکا ہوں، اب وہ اور مانگتے ہیں۔ نہرو نے ان کے نام کے ساتھ نہ مولانا لکھا نہ جناب نہ صاحب “۔[22]

اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد ؒکلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ علماء نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے[16]۔ 21 فروری 1940ء کو دہلی میں عزاداری کے جلوس پر بم سے حملہ کیا گیا [23]۔ اس حملےکو عزاداری پر ہونے والا پہلا بم دھماکا کہا جا سکتا ہے۔مولانا عبد الشکور فاروقی  1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو گئے البتہ ان کے شاگرد فتنہ پھیلاتے رہے۔قیام  پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پنجاب آنے  والے  معروف  عالم دین،  مولانا منظور احمد چنیوٹی ،انہی کے شاگرد تھے۔1940ء کی دہائی میں عوام فسادی  علماء سے دور ہو گئے اور لڑائی سے پرہیز کیا لیکن جمیعت علماۓ ہند اور مجلس احرار نے فرقہ وارانہ آگ لگانے کی کوششوں کو کبھی ترک نہ کیا۔1944ء میں  مہاتما  گاندھی  قائد اعظم ؒ سے  مذاکرات کرنے بمبئی   آ ئے تو قائد اعظم نے 7 ستمبر کو   حضرت علی ؑ کے یوم شہادت کی وجہ سے ملاقات سے معذرت کی اور  مذاکرات 9 ستمبر کو شروع ہوۓ ۔  اس بات پر لکھنؤ سے مجلس الاحرار کے رہنما مولانا ظفر الملک بھڑک اٹھے اور  قائد اعظم ؒ کو  کھلا  خط  لکھ  کر کہا:۔

“مسلمانوں کا 21 رمضان سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ خالص شیعہ دن ہے۔ اسلام کسی قسم کے سوگ کی اجازت نہیں دیتا۔ در حقیقت اسلام کی روح اس قسم کے یہودی تصورات کے بالکل خلاف ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خوجہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک شیعہ گروہ ہے، لیکن آپ کو مسلمانوں پر ایک شیعہ عقیدہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں”۔[24]

قائد اعظم ؒ نے اس خط کے جواب میں لکھا:۔

“یہ شیعہ عقیدے کی بات نہیں، حضرت علی ؑچوتھے خلیفہ بھی تھے۔ اور میں جانتا ہوں کہ حقیقت میں اکیس رمضان کا دن اکثر مسلمان، شیعہ سنی اختلاف سے بالاتر ہو کر   مناتے ہیں۔ مجھے آپ کے رویے پر تعجب ہوا ہے”[24]

اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ  یہ لوگ   قائد اعظم ؒ  کی مذہبی آزادی کا بھی احترام نہیں کرتے تھے، ان کے غم و خوشی کے  ذاتی جذبات کو بھی اپنی سوچ کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ فرنگی محل لکھنؤ سے اہلسنت  نے آپ کو خط لکھ کر مولانا ظفر الملک کی اس حرکت کی مذمت کی اور آپ کو  مکمل حمایت کا یقین دلایا [25]۔
1930 کی دہائی  میں ہونے والے فسادات میں نئی باتیں یہ تھیں:-
1. محرم کے علاوہ باقی مہینوں میں بھی فسادات ہونے لگے-

2. فسادات لکھنؤ کے گرد و نواح تک محدود نہ رہے بلکہ پورے ہندوستان میں پھیل گئے-پنجاب میں انگریز دور میں کئی مقامات پر شیعہ تقریبات پر پتھراؤ اور حملے ہوۓ-

آزادی کے بعد 1950ء کی دہائی میں لکھنؤ کی ضلع انتظامیہ مدح صحابہ کی تقریبات اور فسادی عناصر کے جلوس کو منع کرتی رہی۔ 26 مئی 1969ء کو اس وقت فسادات دوبارہ شروع ہوئے جب محمود نگر کے قریب ایک شیعہ تقریب پر سنگ باری کی گئی۔1977ء میں اترپردیش کی کانگریسی حکومت نے عزاداری پر پابندی لگادی۔ اس پابندی کے خلاف احتجاج ، عدالتی گرفتاری، مظاہرے اور احتجاجات کے بعد جنوری 1998ء میں اہل تشیع کو بھارتی حکومت نے سخت حفاظت میں عزاداری ادا کرنے کا حق پلٹا دیا۔16 جنوری 2013ء کو وزیر گنج میں شیعہ مجلس سے باہر آ رہے تھے کہ ایک دیوبندی دہشتگرد نے گولیاں برسانی شروع کردی جس میں دو لوگ قتل اور کئی زخمی ہوئے۔

ساتواں دور: تنظیم اہل سنت

1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں” تنظیم اہل سنت” کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آگے چل کر اس جماعت نے کئی مرتبہ اپنی شناخت اور نام کو بدلا۔ 1946ء میں پنڈت نہرو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے   کابینہ  مشن کی ناکامی اور  قائد اعظم ؒکے  ” راست اقدام ” کے بعد قیام پاکستان کو یقینی پا کر 26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت “جمعیت علمائے اسلام “قائم کی۔ یوں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی کیونکہ دیوبندی علماء قائد اعظم ؒکے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علماء نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے۔ لہٰذا قائد اعظم ؒکی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی[24] مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئی تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتویٰ نہ دے سکیں۔ اسکے باوجود “فتاویٰ مفتی محمود” میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مولانا شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے [26]۔ دوسری طرف تنظیم اہل سنت کے مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔1949ء میں چوٹی زیریں اور 1950ء میں نارووال میں عزاداری پر حملے ہوئے۔ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں شیعہ امیدواروں کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مہم چلائی گئی اور انھیں کافر قرار دیا گیا[27]۔ ستم ظریفی یہ کہ 24جنوری 1951ء میں کراچی میں دیوبندی علماء نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے 22 نکات ترتیب دیے اور اس جلسے میں عوام کو دھوکہ دینے کیلئے شیعہ علماء کو بھی شامل کیا گیا ، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف چلنے والی مہم میں بھی شیعہ علماء شامل کئے گئے۔ دو سالوں کے لیے دیوبندی علماء کی توجہ ختم نبوت کے معاملے پر مرکوز رہنے کی وجہ سے شیعوں پر کوئی حملہ نہ ہوا۔ شیعہ مخالف حملوں کا دوبارہ آغاز 1955ء میں ہوا جب پنجاب میں پچیس مقامات پر عزاداری کے جلوسوں اور امام بارگاہوں پر حملے کیے گئے جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اسی سال کراچی میں ایک مولانا صاحب نے افواہ اڑائی کہ شیعہ ہر سال ایک سنی بچہ ذبح کر کے نیاز پکاتے ہیں، اس افواہ کے زیر اثر کراچی میں ایک بلتی امامبارگاہ پر حملہ ہوا اور بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے[27]۔ اسی دوران نصاب تعلیم میں شیخ احمد سرہندی ، شاہ ولی الله اور سید احمد بریلوی کی سوچ شامل کی گئی۔ پاکستان میں دہشتگردی مکتب دیوبند کی اس ہمہ جہت ثقافتی یلغار کا ایک حصہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔1957ء میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں محرم کے جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اور اس واردات میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔ اسی سال احمد پور شرقی میں عزاداری کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق اور تین شدید زخمی ہوئے۔ جون 1958ء میں بھکر میں ایک شیعہ خطیب آغا محسن ؒکو قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے اعترافی بیان میں کہا کہ مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر نے اس کو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے والے کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گئی تھی اور جنت کی بشارت دی گئی تھی[27]۔  مولانا نور الحسن بخاری کو حکومت یا عوام کی طرف سے کوئی سزا نہ ملی، جس سے تک فسادی  علماء کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963ء کا سال سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا۔ 3 جون 1963ء کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے [27،28]۔ نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے۔ اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئی جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عاشورا کے دن120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا [29]۔ اس وقت تک شیعہ دشمنی میں اتنی شدت آ چکی تھی کہ 11 جولائی 1967ءکو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے جنازے پر ایک شدت پسند  گروہ  نے پتھراؤ شروع کر دیا جس کے خلاف پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ جنرل ایوب خان نے اپنی یاداشتوں میں اس ہنگامے کا ذکر کیا ہے[30]۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جھنگ، کراچی، لاہور، چکوال، ڈیرہ غازی خان، ملتان، شیخوپورہ، پاراچنار اور گلگت میں عزاداروں پر حملے ہوئے[27]۔

آٹھواں دور: بھٹو اور افغان انقلاب

افغانستان نے 1973ء میں پشتونستان کے نام پر پاکستان کے پختونون کو استعمال کر کے ملک توڑنے کی سازش بنائی جس کے جواب میں پاکستان نے افغان حکومت کے مخالف اخوان کو مدد دینا شروع کی تھی۔ اس طرح نام نہاد “افغان مجاہدین” کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات 1974ء میں ہی استوار ہو گئے۔ جمعہ خان  صوفی نے اپنی کتاب “فریب ناتمام” میں ان سب واقعات اور افغانستان کی پسماندگی کی تفصیل لکھی ہے۔پشتونستان تحریک اصل میں بنگلہ دیش کی آزادی سے متاثر ہو کر چلائی گئی تھی، لیکن اس کو چلانے والے ولی خان جیسے   پختون قوم پرست قائدین بنگلہ دیش اور وادئ سندھ میں فرق کو سمجھ نہیں سکے تھے۔ وادئ سندھ کے تمام علاقے آپس میں اس قدر مضبوط معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی تعلق رکھتے ہیں کہ پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنا دیوانے کا خواب ہے۔ پشتونستان تحریک کے پیچھے ایک اہم عامل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے پشتون قوم پرستوں کا بے جا قتل بھی تھا۔ ستر کی دہائی کے آغاز سے ہی روس نے افغانستان میں مداخلت تیز کر دی تھی، اور کمیونزم سے قربت بھی پشتون قوم پرستوں کو علیحدگی پسند بنانے میں معاون ثابت ہوئی۔ ایسے عوامل کا لازمی نتیجہ افغان جہاد نامی خانہ جنگی تھا۔

جب جولائی 1977ء میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم، فروری 1978ء میں لاہور میں 8 جبکہ کراچی میں 14 شیعہ قتل ہوئے[32]۔ پاکستان میں شیعہ مخالف تشدد  میں شدت اس وقت آئی جب27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں “انقلاب ثور” آیااور اس سے اگلے سال افغانستان کی کمیونسٹ حکومت نے روس کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہو گیا۔ جب کوئی ریاست ٹوٹتی ہے تو وہ ڈاکووں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ انگریزوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے دشمن سے لڑنے کیلئے سید احمد راۓ بریلی اور شاہ اسماعیل دہلوی جیسے کٹھ پتلی جہادیوں کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ افغانستان میں کمیونزم کا راستہ روکنے کیلئے امریکا کی دولت اور سرپرستی میں پاکستان نے افغان مجاہدین کو ٹریننگ، اسلحہ اور پناہ فراہم کرنا شروع کی۔ پختون قبائل میں پہلے ہی امیر عبد الرحمن خان کے زمانے سے شیعہ مخالف  جذبات پائے جاتے تھے۔

اگلے سال فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا جس نے شیعہ مسلک کو  عالمی سیاسی بساط پر  متعارف کرایا۔ بات صرف ایرانی انقلاب کی قیادت کے شیعہ ہونے کی نہیں تھی، ایران کی مذہبی قیادت نےانقلاب کی کامیابی کے بعد ایران سے باہر سب سے پہلے جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ مولانا مودودی ؒتھے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے ابتدائی سالوں سے ہی دیوبندی علماء بالعموم اور مولانا منظور احمد چنیوٹی  بالخصوص، مولانا مودودی ؒسے پیشہ وارانہ مخاصمت رکھتے تھے اور ان کے خلاف کئی مضامین اور کتابیں لکھ چکے تھے۔ انہوں نے “ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت” کے عنوان سے کتاب لکھ کر شیعہ سنی منافرت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں جہاں جماعت اسلامی کی مقبولیت میں کمی آئی وہاں پاکستان میں شیعہ کشی میں مزید تیزی آئی۔ دیوبندی علماء کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر جماعت اسلامی ایران کے انقلاب کے اثرات درآمد کر کے کوئی تحریک چلانے میں کامیاب ہو جاتی تو جماعت اسلامی ان سرکاری منصبوں تک پہنچ سکتی تھی جن کے خواب دیوبندی علماء اپنے لیے دیکھ رہے تھے۔

1984ء میں مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد کچھ عرصہ “تنظیم اہلسنت”  کو “سواد اعظم” پکارا گیا اور اسکی سرپرستی مولانا سمیع الحق نے کی۔ 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں “انجمن سپاہ صحابہ” کے نئے نام سے سامنے آئی۔کچھ سالوں بعد جب اس نام کے انگریزی مخفف (ASS) کا مذاق اڑایا جانے لگا تو اسکا نام بدل کر “سپاہ صحابہ پاکستان” رکھ دیا گیا۔

ضیاء کے زمانے میں کوئٹہ، کراچی، پاراچنار اور گلگت میں شیعوں پر بڑے حملے ہوئے۔1981ء میں کرم ایجنسی کے سارے دیوبندی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر پاراچنار کے راستے پر موجود قصبہ “صده “میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی طرز پر شیعوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا۔ کیونکہ اس وقت تک انگریز وں کے زمانے میں تشکیل دی گئی کرم ملیشیا وادئ کرم میں موجودتھی لہذا جنگ صده تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیلنے نہ دی گئی۔1983ء میں کراچی میں شیعہ آبادیوں پر حملے ہوئے جن میں ساٹھ افراد شہید کر دئیے گئے۔5 جولائی 1985ء کو کوئٹہ میں تکفیری دہشتگردوں نے اپنے دو پولیس والے سہولت کاروں کے ہمراہ پولیس کی وردیاں پہن کر شیعوں کے احتجاجی جلوس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 شیعہ قتل ہو ئے۔ البتہ چونکہ یہ دو بدو مقابلے کی کوشش تھی، لہذا 11 دہشتگرد جوابی کاروائی میں ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان میں سے دو کی شناخت پولیس اہلکاروں کے طور پر ہوئی ، باقی 9 جعلی وردیاں پہن کر آ ئے تھے۔ 24 جولائی 1987ء کوپاراچنار میں شیعہ آبادیوں پر افغان مجاہدین کا حملہ شیعوں کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ 30 ستمبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں یوم عاشورہ کے روز مارشل لاء انتظامیہ نے جلوس روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 10 نہتے شیعہ شہید جبکہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسی کی دہائی میں پاکستان بھر میں سات سو کے لگ بھگ شیعہ قتل ہوئے، جن میں سے 400کے قریب لوگ 1988ءمیں گلگت کی غیر مسلح شیعہ آبادیوں پر حملے کے نتیجے میں قتل ہوئے [27]۔ اسی دور میں سرکاری ملازمتیں متعصب افراد کے سپرد کی گئیں۔سکولوں میں اسلامیات کے تکفیری اساتذہ بچوں کا ذہن خراب کرنے لگے، اس ذہن سازی نےآگے چل کر طالبان کو مدارس کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں سے بھی افراد قوت فراہم کی۔ عدالتوں میں متعصب جج بھرتی کئے گئے۔ضیاء دور میں ہی قائد اعظم ؒکو سنی کہلوانے کی کوششوں کا آغاز ہوا جس کے بعدسے اب تک کئی جعلی مقالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جس ماحول میں بانی پاکستان کا شیعہ ہونا بھی ہضم نہ کیا جا رہا ہو وہاں عام شیعہ افراد کا ثانوی شہری بن جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔

یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ مارشل لاء لگنے کے بعد جنرل ضیاء اور ذوالفقار علی بھٹوایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے تھے، لیکن سیاسی طور پر ضیاء الحق بھٹو صاحب کے پیرو تھے۔ مخالف سیاسی کارکنان کا قتل ہو یا افغانستان میں کردار، یہ بھٹو صاحب کی  ہی حکمت عملی تھی۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب کے طرز حکومت کو ہی جاری رکھا ہے۔جنرل ضیاء نے افغان جہاد کی ریل پیل کے باوجود شیعہ کشی کے عمل کو قابو میں رکھا اور اسکو عروج جمہوری دور کی نا اہلی میں حاصل ہوا۔پاکستان میں حکومتوں کی نا اہلی کا شیعوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن کوئی بھی حکومت شیعہ دشمن نہیں تھی۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے شیعہ عوام کے تحفظ کے سلسلے میں ہمیشہ غیر ذمہ داری اور سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

نواں دور:سٹریٹیجک ڈیپتھ، یعنی تزویراتی گہرائی

جس وقت روس افغانستان سے نکلا اسی وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے تنگ عوام نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر دیا۔ پاکستان کی انتظامیہ نے افغان جہاد کے بچے ہوئے جہادیوں کو کشمیر میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان جہادیوں نے کشمیر جا کر مقامی آبادی کوبدعتی سمجھا، مزارات پر حملے کیے اور بریلوی اور شیعہ کشمیریوں کے گھروں میں لوٹ مار کی۔ جہاد کشمیر کے نام پر مولانا مسعود اظہر لڑکوں کو بھرتی کر کے ٹریننگ دیتے اور مولانا اعظم طارق اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی ان کو  شیعہ کشی کا راستہ دکھاتے۔  بعد ازاں کشمیر جہاد وہاں کی مقامی آبادی کے جہادیوں سے خوفزدہ ہو جانے کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ آزادی کی کوئی بھی تحریک باہر سے سمگل شدہ جنگجوؤں کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہوتی۔ چی گویرا جیسے عالمی شہرت یافتہ انقلابی کے آخری ایام اس بات پر گواہ ہیں۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کی انتظامیہ نے ہندوستان کے ممکنہ حملے کا سامنا کرنے کیلئے” تزویراتی گہرائی “کے تصور کو محور بنا کر سوچنا شروع کیا۔ اس مفروضے کے خالق جنرل مرزا اسلم بیگ  اور جنرل حمید گل تھے۔ اس کے مطابق اگر ہندوستان راجستھان سے حملہ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں کاٹنا چاہے تو فوج کی پشت پناہی کیلئے کٹر قسم کی مذہبی جماعتوں کے کارکنان کا جنوبی پنجاب اور طالبان کا قندھار میں ہونا ضروری تھا[31]۔ ان منصوبہ سازوں نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا تھا کہ کسی بھی فوج کی آخری دفاعی لکیر عوام ہوتے ہیں نہ کہ مسلح گروہ، دنیا بھر میں قابض افواج کے خلاف عام عوام نے ہی مزاحمت کی ہے، نیز اس وقت پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا اور اس قسم کے کسی منصوبے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں تشکیل دئیے گئے “البدر “اور” الشمس” جیسے مذہبی لشکر وں کے ناکام تجربے سے سبق سیکھا گیا ہوتا تو یہ غلطی نہ دہرائی جاتی۔ شیعوں کیلئے یہ سوچ بھٹو اور   ضیاء کے فیصلوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی اور اس کے نتیجے میں شیعہ کشی کا عمل پاکستان کے ہر ضلعے میں تیز ہو گیا۔ سپاہ صحابہ جیسے مسلح گروہوں نے اس مبہم منصوبے کا بھرپور فائدہ اٹھا کر بہاولپور اور رحیم یار خان سے لے کر ملتان اور ڈیرہ غازی خان تک اپنے اثر و نفوذ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ بعد کے سالوں میں پاکستان کو اس جاہلانہ تصور کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ غنڈہ گرد عناصر کی سرپرستی کے نتیجے میں عوام کی یکجہتی کو ٹھیس پہنچی اور منشیات، غربت اور جرائم میں اضافہ ہوا۔ افغان طالبان نے پاکستان میں دیوبندی انقلاب لانے کی غرض سے دیوبندی تنظیموں کے کارکنان کو فراخدلی سے پناہ اور ٹریننگ فراہم کی۔ پاکستان میں شیعہ قتل کر کے یہ لوگ افغانستان بھاگ جاتے۔ ملک کے کئی نامور ڈاکٹر، انجنیئر اور قانون دان محض شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیے گئے۔ انکی عورتیں بیوہ، والدین بے سہارا اور بچے یتیم ہو گئے۔

1993ء میں لاہور میں سپاہ محمد کے نام سے ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم کا قیام ہوا جس نے سپاہ صحابہ کے حملوں کے جواب میں دیوبندی حضرات پر حملے کرنا شروع کیے۔ چنانچہ اگر کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں کسی دیوبندی مسجد میں بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے۔ حکومت نے صورت حال خطرناک ہوتے دیکھ کر دونوں تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہا تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کے عسکری حصے کو لشکر جھنگوی کا نام دے کر لا تعلقی کا اعلان کر دیا، اگرچہ لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی گرفتا ری کی صورت میں سپاہ صحابہ ہی قانونی اور مالی امداد مہیا کرتی۔ لشکر جھنگوی کے بانی مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جنوری 1997ء میں سپاہ محمد کی طرف سے کئے گئےایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے ۔چونکہ یہ تنظیم سٹریٹجک اثاثوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی لہذا  لاہور پولیس نے آپریشن کر کے سپاہ محمد کا خاتمہ کر دیا، اسی عرصے میں سپاہ صحابہ کے متعدد دہشتگرد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہو ئے مگر سپاہ صحابہ کے خلاف کبھی کوئی فیصلہ کن آپریشن نہیں ہو سکا۔

نوے کی دہائی میں ہی کراچی میں سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی کی طرف سے بریلوی مساجد پر قبضے کے خلاف سنی تحریک کے نام سے ایک اور مزاحمتی گروہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ چنانچہ تکفیری علماء نے اب بریلویوں پر قاتلانہ حملے کرنے کا آغاز کر دیا۔ بریلویوں پر پہلا نمایاں حملہ 2001ء میں ہوا جب سنی تحریک کے بانی جناب سلیم قادریؒ کو کراچی میں قتل کر دیا گیا ۔اسی دوران سپاہ صحابہ کی طرف سے دیگر مذاھب کے ماننے والوں پر بھی حملے شروع ہو ئے۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2001ء میں سپاہ صحابہ کے چھ کارکنان نے بہاولپور میں سینٹ ڈومینک چرچ میں فائرنگ کر کے اٹھارہ نہتے اور بے گناہ مسیحیوں کو قتل کر دیا۔

دسواں دور: مفتی نظام الدین شامزئی

7 اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغان طالبان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کی حکومت نے پرائی جنگ اپنے سر لینے کے بجائے امریکا کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی نے ملک گیر بغاوت پر اکساتے ہوئے فتویٰ جاری کیا ۔ مفتی شامزئی سوات سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے فتوے کو قبائلی علاقہ جات میں بہت پذیرائی ملی۔ آج بھی یہی فتویٰ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پاکستان مخالف جنگ کے شرعی جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں دیوبندی مدارس کے پاس اتنا اسلحہ نہیں تھا کہ وہ پولیس اور فوج سے لڑ سکتے، لہٰذا ان علاقوں پر اس فتوے کا فوری اثر نہ ہو سکا۔ افغان طالبان چند دنوں میں امریکا کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور بہت سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو برقعے پہن کر پاکستانی علاقوں میں آ گئے۔امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ یا تو القاعدہ کے ان فراری ارکان کو خود گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کرے یا امریکی مداخلت کا انتظار کرے۔ 2004ء میں پاکستانی فوج نے قبائلی علاقہ جات میں ان فراری طالبان کی گرفتاری کے لیے آپریشن شروع کیا تو پاکستان بھر کے دیوبندی علماء کی طرف سے فتاویٰ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ادھر سن 2002ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی شہری حکومت متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان حکومتوں نے سرکاری نوکریاں متعصب افراد کو دیں جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں طالبان کے سہولت کار بنے۔ ہمیشہ کی طرح متحدہ مجلس عمل میں شیعہ علماء بھی شریک کئے گئے تھے۔ دیوبندی اسلام کے نفاذ کی ہر لہر کی طرح یہ لہر بھی شیعہ عوام کے لیے ظلم کی سیاہ رات ثابت ہوئی۔

مفتی شامزئی کے فتوے کی وجہ سے پاکستان بھر سے دہشت گرد اب قبائلی علاقوں میں جمع ہو کر تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک ظالمانہ تکفیری ریاست قائم کر چکے تھے۔ ان طالبان نے پاکستانی فوج اور عوام پر پے در پے حملے شروع کر دیے۔ اس دوران پاکستان میں شیعوں اور بریلویوں پر حملوں کی خونریزی میں نیا اضافہ خودکش حملوں کی شکل میں دیکھنے میں آیا۔ 11اپریل 2006ء کو نشتر پارک میں دھماکا کر کے سنی تحریک کے قائدین سمیت 47 لوگ شہید کر دیے گئے۔ 12جون 2009ء کو لاہور میں مفتی سرفراز نعیمی ؒکو خودکش بمبار کی مدد سے شہید کر دیا گیا۔ 2 جولائی 2010ء کو لاہور میں داتا دربار پر حملہ کر کے پچاس افراد کو شہیداور دو سو کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ 2007ء میں پاراچنار پر طالبان کا حملہ مقامی آبادی کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہوا جس کے بعد پانچ سال کیلئے پاراچنار تک اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی ترسیل کے راستے بند رہے اور اس وقت بحال ہوئے جب وزیرستان اور سوات میں آپریشن کے نتیجے میں طالبان کو شکست ہو گئی۔اعداد و شمار کے مطابق سن 2000ء سے 2018ء تک تقریباً تین ہزار شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے شیعہ ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ خیبر پختون خواہ کا حصہ ہے لیکن نہ کبھی سرحدی گاندھی کی جماعت کو وہاں بہتا انسانی خون نظر آیا نہ تبدیلی کی سرکار کی مثالی پولیس نے کسی قاتل کو سزا دی ہے۔

جب جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2002ء میں سپاہ صحابہ پاکستان والے نام اور ڈھانچے  پر پابندی عائد کی تو “تنظیم اہلسنت” کا نام “ملت اسلامیہ پاکستان” رکھ دیا گیا۔کچھ سالوں بعددوبارہ نام بدل کر “اھلسنت والجماعت” رکھا گیا۔2018ء کے انتخابات میں یہ جماعت” راہ حق پارٹی “کے نام سے سامنے آ ئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

تدارک:

اس مسئلے کا تدارک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ:۔

  1. اپنے دوستوں کے ساتھ اس  مضمون میں بیان کئے گئے نکات پر تبادلۂ خیال  کریں۔ جلد بازی میں کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے کچھ دن اس پر غور و فکر کریں۔ یہ کوئی حتمی تجزیہ نہیں ہے لیکن اس میں جمع کئے گئے حقائق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
  2. پاکستان میں انقلاب کی مخالفت کریں۔ پاکستان فرانس، روس، چین ، ویتنام، کیوبا یا ایران کی طرح یک ثقافتی ملک نہیں ہے۔ پاکستان میں شام کی طرح بہت سی نسلیں، بہت سے فرقے، بہت سے مذاھب  اور کئی زبانیں پائی جاتی ہیں۔انقلاب موجودہ ریاست کو اکھاڑ تو لے گا مگر اسکی جگہ نئی ریاست قائم نہیں کر سکے گا۔ایسی صورت میں ہندوستان اور افغانستان دریائے سندھ پر  ملنے کی کوشش کریں گے۔قوم پرست افغان احمد شاہ ابدالی کے دور  کو واپس لانا چاہتے  ہیں۔
  3. مطالعات کو وسعت دے کر اکبر اعظم، سراج الدولہ اور   قائد اعظم محمد علی جناح  کے بارے  میں مشہور کی گئی غلط فہمیوں کو دور کریں۔تاریخ کی صحیح تفہیم کے بغیر مستقبل کی راہیں روشن نہیں کی جا سکتیں۔
  4.  شیعہ مخالف تشدد کو شیعہ مخالف تشدد کہیں- حال ہی میں سامنے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں فرقہ وارانہ تشدد کی 95 فیصد وارداتوں میں شیعہ نشانہ بنتے ہیں[33]- اس کو مبہم عنوانات دینایا سادہ دلی ہے یا  تنگ نظری ہے- پاکستان میں شیعہ مخالف تشدد کئی حوالوں سے ماضی کے یورپ کے یہود مخالف تشدد سے ملتا جلتا ہے- اگر یورپ یہود مخالف تشدد کو تسلیم نہ کرتا اور فرقہ واریت یا دو طرفہ مذہبی معاملہ  کہتا تو کبھی اس ناسور سے جان نہیں چھڑا سکتا تھا-

حوالہ جات

  1. ملفوظات شاہ عبد العزیز، صفحہ 54، میرٹھ، 1314 ہجری، 1896۔1896.
  2. خیر الدین محمد الہ آبادی،عبرت نامہ، 30۔88
  3. دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص4
  4. نزھہ اثنا عشریہ، https://archive.org/details/nuzha-isna-asharia-jild-1
  5. علامہ عبد الحئی بن فخر الدین،”نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر“، جلد 7، شمارہ 713، “الشیخ قمر الدین دہلوی”- دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1999.
  6. عبقات الانوارalabaqat.com/download/
  7. ڈاکٹر مبارک علی، “المیہ تاریخ“، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک، تاریخ پبلیکیشنز لاہور
  8. Barbara Metcalf, “Islamic revival in British India: Deoband, 1860-1900“, pp. 46-86, Princeton university Press.
  9. مرزا حیرت دہلوی ،”حیات طیبہ“‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260
  10. مولانا جعفر تھانیسری، “حیات سید احمد شہید” ص 293
  11. سر سید احمد خان،”مقالات سرسید”، حصہ نہم 145-146
  12. رشید احمد گنگوہی ،فتاوٰی رشیدیہ ،ص 435
  13. مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن ،جلد 18، صفحہ 233 اور 423 تا 428
  14. مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن ،جلد 19، صفحہ 193
  15. Government Gazetteer of the United Provinces, Extraordinary (Lucknow, 1938), GAD No. 113/1939, UPSA, page 2-4.
  16. Mushirul Hasan,”Traditional Rites and Contested Meanings: Sectarian Strife in Colonial Lucknow“, Economic and Political Weekly, Vol. 31, No. 9 (Mar. 2, 1996), pp. 543-550.
  17. مرزا حیرت دہلوی، “کتاب شہادت”، کرزن پریس دہلی، (1920)-
  18. Jasbir Singh to G. M. Harper, 22 Feb 1939, Political Department No. 65/1939, UPSA.
  19. Jasbir Singh to G. M. Harper, 15 and 18 April 1939, Political Department No. 65/1939, UPSA.
  20. R. Haider, “Ruttie Jinnah: The Story, Told and Untold”, Ch.7
  21. Abul Hassan Isphani, “Quaid e Azam Jinnah, as I Knew Him“, Forward Publications Trust Karachi (1967).
  22. ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، “اقبال اور مُلا”، صفحات17،18 –
  23. N. Hollister, ” The Shia of India“, p-178, Luzac and Company Ltd, London (1953).
  24. Liaqat H. Merchant, “Jinnah: A Judicial Verdict”, East and West Publishing Company, Karachi (1990).
  25. Jinnah Papers, second series, volume XI (1 August 1944-31 July 1945); page 174.
  26. فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67
  27. Andreas Rieck, “The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority“, Oxford University Press, (2015)
  28. http://sharaabtoon.blogspot.dk/2013/06/the-most-unfortunate-incident-html
  29. http://www.shaheedfoundation.org/tragic.asp?Id=13
  30. Mohammad Ayub Khan, “Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan“,9 July 1967 and 11 July 1967, Oxford University Press, 2008.
  31. Khalid Ahmed, “Sectarian War: Pakistan’s Sunni Shia Violence and its links to the Middle East”, Oxford University Press, 2011.
  32. http://www.thefridaytimes.com/tft/shiaphobia/
  33. https://tribune.com.pk/story/1802911/1-95-global-sectarian-violence-focused-shia-muslims-reveals-report/

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخ، وجوہات اور ان کا تدارک۔۔۔حمزہ ابراہیم/مقابلہ مضمون نویسی

  1. مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کا پاکستانی تاریخ کا رخ موڑنے والا فتویٰ حسب ذیل ہے:۔
    أ‌. تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اورامریکہ کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔
    ب‌. جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کےمسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔
    ت‌. الله تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہے ،تو ماتحت لوگوں کے لیے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی ۔ ث‌. اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین ،وسائل اور معلومات ان کو فراہم کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہےاسکے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے ۔
    ج‌. افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کےشانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں الله تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔ اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں
    فقط و سلام
    مفتی نظام الدین شامزئی

  2. قارئین کی سہولت کیلئے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے جن ارشادات کا مضمون میں حوالہ دیا گیا ہے ان کو یہاں نقل کئے دیتا ہوں:-
    13(a). مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن ،جلد 18، صفحہ 233:-
    “اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے، کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے”-
    13(b). مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن ،جلد 18، صفحہ 423 تا 428
    ان پانچ صفحات میں مرزا صاحب نے پہلے تو اس بات پر غصے کا اظہار کیا ہے کہ شیعہ کیوں ان کو امام حسین سے افضل نہیں سمجھتے؟ پھر سپاہ صحابہ کے کسی رہنما کی طرح شعلہ بیانی فرمائی ہے کہ کس طرح سنی عقیدہ شیعہ عقیدے سے بہتر ہے- جذبات میں مرزا صاحب سے حسب عادت “کنجری” وغیرہ جیسے الفاظ بھی استعمال ہو گئے ہیں-یہاں یہ سب لکھنے کا وقت نہیں نہ ہی مناظرے کی کتابوں میں موجود شیعہ موقف کے بیان کی فرصت ہے- اس زوال کے زمانے میں اس قسم کی گفتگو عام ہو چکی تھی- آخر میں پھر مرزا صاحب شیعوں کو ڈانٹتے ہوۓ لکھتے ہیں:”قرآن اور حدیث اور تمام انبیاء کی شہادت سے مسیح موعود حسین سے افضل ہے اور جامع کمالات متفرقہ ہے- پھر اگر در حقیقت میں وہی مسیح ہوں تو خود سوچ لو کہ حسین کے مقابل مجھے کیا درجہ دینا چاہئیے”-
    اس زمانے میں چندے پر انحصار کی مجبوری نے اکثر مذہبی رہنماؤں کو مریدوں کے عشق کا طالب بنا دیا تھا- جو مذہبی رہنما جتنے ذہنی غلام بنا لیتا اتنا زیادہ چندہ اکٹھا کر سکتا تھا- مرزا صاحب کی نظریں شاید عزاداری پر خرچ کئے جانے والے سرمایے پر تھیں، البتہ شیعوں پر اس ڈانٹ ڈپٹ کا کوئی اثر نہ ہو سکا-
    14. مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن ،جلد 19، صفحہ 193-194
    صفحہ 192 سے مرزا صاحب شیعہ مسلک کو نشانے پر لیتے ہیں- آپ کہتے ہیں:-
    “اسی طرح اسلام میں شیعہ مذہب پھیل گیا ہے- چوروں کی طرح بہتوں کو ہلاک کر چکے ہیں- ہم ان کے شرک کو نصاریٰ کی طرح خوفناک دیکھتے ہیں- ہم جاہلوں کو دیکھتے ہیں کہ شیعہ ہوتے جاتے ہیں اور نصرانی بھی-پس اے علی حائری (اس زمانے کے بڑے شیعہ رہنما)، تو خدا سے ڈر اور توبہ کر- اور اگر تو نے میرے مقابلے کا قصد کر لیا ہے تو میں حاضر ہوں- تم نے مشرکوں کی طرح حسین کی قبر کا اعتکاف کیا- پس وہ تمہیں چھڑا نہ سکا اور نہ مدد کر سکا”-
    بات آگے چلتی ہے، اگلے صفحے پر فرماتے ہیں:
    “تم گمان کرتے ہو کہ حسین تمام مخلوق کا سردار ہے- اور ہر ایک نبی اسی کی شفاعت سے نجات پاۓ گا اور بخشا جاۓ گا- پس اگر یہ شرک دین میں جائز ہوتا تو تمام پیغمبر محض لغو طور پر مبعوث کئے جاتے”- آگے چل کر مرزا صاحب فرماتے ہیں:”تم نے اس کشتہ سے نجات چاہی جو خود نومیدی میں مر گیا، پس تم کو خدا نے جو غیور ہے، ہر اک مراد سے نومید کیا”-اگلے صفحے پر فرماتے ہیں:”تمھارے علماء سجدہ کرنے والوں کی طرح اس کے آگے گر گئے(بات صرف آیت الله علی الحائری کی نہیں)- پس اب مشرکوں یا نصرانیوں کا کیا گناہ ہے- تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا- اور تمہارا ورد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے؟ پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے- کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے”-
    برصغیر میں شیعہ عقائد کو تحریف کے ساتھ بیان کرنے اور شرک کا فتویٰ لگانے کی رسم شاہ عبد العزیز اور سید احمد راۓ بریلوی کی شروع کردہ ہے اور شیعہ اس کے جواب میں اپنا نظریۂ توحید بیان کرتے رہتے ہیں- بہت سے لوگوں کو مرزا صاحب کی داعشی منطق پر تعجب ہو گا لیکن اس زمانے میں بننے والے نئے فرقوں کی طرح مرزا صاحب نے بھی شیعہ مسلک کے خلاف خوب زہر اگلا-

Leave a Reply