مملکت پاکستان کو بنے آج 71 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی جائے تو کئی سارے ملک ہیں جو ہمارے بعد معرض وجود میں آئے لیکن ترقی کے گراف پر ہم سے کہیں آگے نظر آتے ہیں۔ ان کا ترقی کا سکیل اوپر کی طرف سفر کر رہا ہے۔ جبکہ ہمارا کہیں ہانپ رہا ہے اور کہیں تو نیچے لٹک جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے؟ نہیں۔ ہم جی جان سے ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ پھر وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھیں کھلی ہوئی نہیں ہیں۔ بہتر طریقے سے یوں کہا جائے کہ ہماری اکثریت اندھی ہے۔ یہیں پر ہم ہی میں ایسے بھی چند ہیں جو کم از کم کانے ہیں یا مکمل آنکھوں والے ہیں وہ تو زندگی کی خوبصورتی کو انجوائے کر رہے ہیں اور ترقی کے سکیل پر مسکراتے، جگمگاتے اوپر جا رہے ہیں۔
ترقی سب کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی توجہ ساری ترقی کے بجائے کہیں اور ہے۔ اب ظاہر ہے وہ کہیں اور ہی جائیں گے۔۔۔ اگر بحیثیت معاشرہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ ہم سروائیول موڈ میں جی رہے ہیں۔ ارد گرد کے تمام انسان ہمارے لئے خطرہ ہیں اور ہم اُن کے لئے۔ ہماری تمام توجہ، تمام صلاحیتیں اس violence کی نذر ہو رہی ہیں۔ یہی وائلنس ہے جو ہمیں ترقی کی طرف جانے نہیں دے رہی۔ کیونکہ اس نے ہماری ساری توجہ کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ میں اس وائلنس کو، اس سروائیول موڈ کو اپنا اندھا پن کہتا ہوں۔ جبکہ لوگ اس کو معاشرے کی شدت پسندی و عدم برداشت کہتے ہیں۔
اس مضمون میں مَیں اس اندھے پن کو سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ پھر آنکھیں کھولنے کے لئے قائل کروں گا۔ پھر بھی آنکھیں کھل نہ پائیں تو ایسے آزمودہ نسخے بتاؤں گا جو میں نے خود کامیابی سے استعمال کئے۔ کیونکہ کچھ ہی عرصہ قبل میں بھی تقریباً اندھا تھا۔
میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کو روائتی مایوسی سے دور رکھوں جو اس موضوع پر مضمون پڑھتے ہوئے قاری پر طاری ہو جاتی ہے۔ مسائل ہی ایسے ہیں کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ اب تو یہ خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں، یہ تو ختم ہونے کے نہیں، اس ملک کا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔ شدت پسندی اور عدم برداشت کی وجوہات کی گہرائی سجھنے کے بعد تدارک واقعی کافی مشکل نظر آتا ہے۔ میں انداز ہلکا پھلکا رکھوں گا تا کہ قاری صاحب اور مایوسی صاحبہ کا ملن نہ ہونے پائے۔
1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آ کر آنکھیں کھولتا ہے تو اپنے سامنے مسائل کے انبار کو دیکھ کر ہی چکرا جاتا ہے۔ نوزائیدہ مملکت کو چلانے والوں کے اندر جذبہ تو تھا لیکن ساتھ ساتھ جینز میں صدیوں کی غلامی بھی تھی۔ سیاسی تربیت اور سوجھ بوجھ کے مالک لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ صدیوں کی غلام قوم کی ایک بہت بڑی اکثریت علم و شعور سے مبرا، غربت کی لکیر سے کافی نیچے گزر بسر کرتی آ رہی تھی۔ ایک جذبہ تھا، ایک نظریہ تھا۔ باقی کچھ بھی نہیں تھا اس قوم کے پاس۔ چنانچہ ان ابتدائی سالوں سے ہی بحیثیت قوم ایک مجسم شکل بننے میں کافی حد تک ناکامی ہوئی۔ ملک چلانے والے تو کچھ گنے چنے لوگ تھے، قوم بنانے والا ایک بھی نہیں تھا۔ نظر اٹھا کر دیکھیں علامہ اقبال کے بعد آج کے دن تک کوئی ایک بھی ریفارمر پیدا نہیں ہوا جو قوم کی اس لیول پر رہنمائی کرتا کہ اجتماعی شعور کی کوئی شکل بن پاتی۔
اس ابتدائی عرصہ میں مسائل کے انبار میں دو مسائل ایسے تھے جن پر توجہ کی خاص ضرورت تھی۔ لیکن اس وقت ہمارے رہنماؤں کو اپنی پوری توجہ سیاسی معاملات اور بنیادی استحکام کی طرف دینا پڑی اور پھر وہ انہی میں پھنس کر رہ گئے۔ وہ مسائل تھے غربت اور جہالت۔ یہی دو مسائل تھے جن کے بطن سے باقی مسائل اور جرائم جنم لیتے گئے۔
غربت کے گھر کرپشن، ناانصافی، دہشتگردی، چوری، ڈکیتی، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ نے جنم لیا جبکہ دوسری طرف جہالت کے تخم سے صوبائی، علاقائی، قومیتی، مسلکی، نسلی، مذہبی عصبیت اور تنگ نظری، غصہ، بغض، انتقام جیسے ناموں کے بچے پیدا ہوئے۔ ان تمام معاشرتی برائیوں کی وجہ سے عوام کے شعور کو عدم استحکام اور اپنے لئے چاروں طرف خطرات نظر آئے اور اسے سروائیول کے لئے شدت پسندی اور عدم برداشت کے ہتھیار تخلیق کرنے پڑے۔ ہمارے اس غیر تربیت یافتہ شعور نے شرافت، معافی اور پر امن رویوں کو نقصان دہ خیال کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ برائیوں سے بُرا بن کر آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ اور ہمیں عدم برداشت کی ڈھال اور شدت پسندی کی تلوار پکڑا دی کہ جاؤ بیٹا سروائیول کی جنگ میں جُت جاؤ۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ مزید مسائل کا بلاوہ ہوتا ہے۔ چنانچہ آج ان تمام معاشرتی برائیوں کے بچے اور پھر ان کے بچے ہمارے پورے معاشرے پر حکومت کر رہے ہیں۔
عام طور پر موجودہ حکومت سے جان جھڑانے کے لئے پانچ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یا پھر دھرنے دینے پڑتے ہیں۔ لیکن دھرنوں میں قباحت ہے کہ ٹینشن دیتے ہیں۔ پھر ممکن ہے حکومت مضبوط نکلے یا حد سے زیادہ بے شرم۔۔۔۔ اور ہمیں اگلے انتخاب کا وقت آنے تک اپنے دھرنوں کی خجالت کے ساتھ گزارا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن جو میں بات کر رہا ہوں اس سے برائیوں کی اس غاصب حکومت سے جان چھڑانے میں ایک لمحہ لگے گا۔ جی ہاں، ایک فیصلہ۔۔۔۔ پھر اس لمحے کے فیصلے پر قائم رہنے کی چند دن کی شعوری کوشش۔ اس کے بعد ذہن کا آٹو میٹک نظام کنٹرول سنبھال لے گا اور آپ اپنی توجہ واپس زندگی کے باقی معاملات پر لگا سکتے ہیں۔
شدت پسندی اور عدم برداشت کا وجود ہمیں ہر جگہ، ہر طرف نظر آتا ہے۔ یہ ہر گھر میں موجود ہے۔ گلی محلہ، مارکیٹ، سفر، تعلیمی اداروں، work places الغرض جہاں انسان موجود ہیں وہاں violence کا یہ وائرس موجود ہے۔ اگر ہم شدت پسندی محض دہشت گردی، قتل و غارت، سڑکیں بند کرنے، املاک جلانے، سر پھوڑنے، گریبان پھاڑنے کو ہی سمجھتے ہیں تو غلطی پر ہیں۔ مخالف نقطہ نظر کے لئے بغض رکھنا، بحثیں کرنا، طنز کرنا، مخالفت میں سوچتے رہنا اور فیس بُک پر کسی مخصوص ذہنیت کے خلاف مسلسل پوسٹیں کرنا بھی شدت پسندی ہے۔ فرق محض لیول کا ہے۔ وہ انتہائی لیول ہے، یہ ابتدائی۔ چنگاری اگر موجود ہے تو وہ شعلہ کسی وقت بھی بن سکتی ہے۔ پھر اس فضول سوچ کی وجہ سے ہمارے قیمتی وقت، توانائی اور تخلیقی صلاحیتوں کا جو نقصان ہو رہا ہے وہ تو دونوں صورتوں میں ہو ہی رہا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ ایک گھٹیا اور غلط نقطہ نظر کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھا کر آپ ملک و قوم کا بھلا کر رہے ہیں۔ میرے بھائی آپ نقصان کر رہے ہیں، اپنے اندر کی ٹینشن باہر پھیلا رہے ہیں۔ آپ کے زہر بُجھے تیروں سے مخالفین کا کچھ نہیں بگڑ رہا۔ آپ خود اور آپ کے اپنے چھلنی ہو رہے ہیں۔
عدم برداشت اور شدت پسندی کی تربیت، استعمال اور فروغ سیاست اور مذہب میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر کوئی صرف اپنے آپ کو ہی حق پر قرار دیتا ہے۔ صرف اس کا نظریہ، فرقہ، جماعت یا پارٹی ہی سچی ہے۔ باقی سب جھوٹ ہے، فراڈ ہے، دھوکہ ہے، گمراہی ہے، ظلم ہے۔ اس فساد نے کئی جانوں کو نگل لیا اور کئی خاندانوں کو تباہ کر دیا۔ ہمارے نوجوانوں کی تمام تخلیقی صلاحیتیں اپنے نظریے کو سچ ثابت کرنے میں کھپ رہی ہیں۔ اپنا نقطہ نظر درست یا تبدیل کرنےکا رواج ہی نہیں۔ ہماری بحث سچ جھوٹ کے بجائے انا کے لئے ہوتی ہے، اپنا نقطہ نظر ہر صورت میں منوانے کے لئے ہوتی ہے۔ خود مدعی ہیں، خود گواہ ہیں، خود وکیل ہیں اور خود ہی منصف۔
پھر شدت پسندی اور عدم برداشت کی تربیت کا ایک بڑا ذریعہ سکرین بھی ہے۔ موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی سکرین۔ کل ہمارا جو ڈیپارٹمنٹ کتابوں کے پاس تھا آج وہ اس سکرین کے پاس ہے۔ کتابوں میں اختیار ہمارے پاس تھا کہ کس قسم کی کتابیں خریدیں یا گھر میں لائیں۔ آج یہ چوائس ختم ہے۔ تمام اقسام کا مواد ہر وقت پہنچ میں ہے۔ ہماری پکی تربیت ہو چکی ہے کہ ہم توجہ منفی چیز کو دیتے ہیں۔ مثبت چیز کو کسی ویلے ٹائم کے لئے چھوڑتے ہیں۔ بلکہ مثبت چیزیں ہمارا ریڈار سسٹم کیچ ہی نہیں کر پاتا۔ جس وجہ سے سوشل میڈیا ہو، انٹرنیٹ ہو یا ٹیلی ویژن انڈسٹری زیادہ تر منفی چیزیں ہی چل رہی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مذہبی یا سیاسی منافرت کی جنگ۔ انٹر نیٹ پر بھی اپنے مخصوص ذہنی میلان اور اپنی دلیلوں کو سپورٹ کرتی سرچ۔ ٹی وی پر دیکھیں تو خبریں نوے فی صد منفی ہوتی ہیں۔ ٹاک شوز جنگ کے میدان ہوتے ہیں۔ ڈرامہ سیرئیلز دیکھو تو سونے پے سہاگہ۔ عرصہ سے ایک ہی موضوع پر ڈرامے بن رہے ہیں۔ ایک شریف اور مظلوم عورت ہوتی ہے جس پر تمام لوگ مل کر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ 50 اقساط کی سیرئیل میں 48 قسطوں میں شرافت زلیل و خوار ہوتی ہے، آخری دو قسطوں میں سچائی کی جیت ہوتی ہے۔ دیکھنے والے کے لاشعور میں کیا بیٹھتا ہے؟ یہی ناں کہ شرافت نقصان دہ چیز ہے، شدت پسندی زندہ باد۔۔۔۔ ہماری خواتین جنہوں نے معاشرے کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ ان سیرئیلز کی شیدائی ہوتی ہیں۔ انجام کار پھر ہمارے سامنے ہے۔
پھر ناقص اور تربیت سے خالی نظام تعلیم اور نصاب بھی ان معاشرتی بیماریوں کے لئے اعلیٰ خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ نصابی تاریخ خاص طور پر اس طرح لکھی جاتی ہے کہ طلبا کے اندر چند مخصوص ممالک اور قومیتوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جا سکیں۔
شدت پسندی مختلف محرکات کی وجہ سے پیدا تو ہو گئی۔ اب ہم اپنا خون پسینہ لگا کر اس کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ اگلی نسل کو یہ تحفہ مزید توانا کر کے پیش کیا جائے
معاشرہ انسانوں سے مل کر بنتا ہے۔ اور انسان کی مشِنری چند اصولوں اور قوانین کے مطابق عمل کر رہی ہوتی ہے۔ انسان کو خالق نے جو شعور عطا کیا ہے وہ فیصلے کرتا ہے کہ کس چیز پر کیا رد عمل دینا ہے۔ یہ شعور دنیا میں آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی کام شروع کر دیتا ہے۔ کام کیا ہوتا ہے؟ سیکھنا۔۔۔۔ ہر چیز سے۔ ہر واقعے سے شعور کچھ سیکھتا ہے اور آگے آنے والے واقعات پر وہ سیکھا ہوا ایپلائی کرتا ہے۔ یعنی ہر لمحے اپنی پروگرامنگ خود کرتا رہتا ہے۔ ہر انسان اسی پیٹرن کے مطابق چلتا ہے۔ چنانچہ ایک معاشرے کے اندر رہنے والوں میں یکساں ماحول، ایک سی فضاء اور مشترکہ واقعات کی وجہ سے تقریباً ایک جیسی پروگرامنگ انسٹال ہوتی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی مجموعی پروگرامنگ منفی اور نقصان دہ ہی ہو رہی ہے۔ لیکن آپ گھبرائیں نہیں کیونکہ خوش قسمتی سے اس انسٹالیشن کو اَن اِنسٹال بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام کرتا ہے ہمارا شعور۔ اور یہ کافی آسان ہے۔
خدا نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق کرنے کے ساتھ ہی وہ قوانین بھی تخلیق فرما دیے تھے جو اسے انتہائی احسن طریقے سے فلاح کی آخری بلندیوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا ہر بندہ بیسٹ پرفارمنس دے، اس کا ہر بندہ کامیابی اور کامرانی کی آخری بلندیوں کو چھوئے۔ اس نے ان قوانین کو سکھانے کے لئے اپنے منتخب بندوں اور کتابوں کا بھی کیا ہی اعلیٰ انتظام کیا۔ اب ان اصولوں پر جس نے عمل کیا وہ ترقی کے گراف پر جمگائے گا۔ لیکن کوئی بندہ اپنی free will اور شعور کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے اصول اور ہتھیار خود بنانے لگ جائے گا تو فلاح کے اس گراف پر ہانپتے، گرتے، روتے، بلبلاتے ہی چلے گا۔
آج ہماری یہی حالت ہے۔ آپ مانیں نہ مانیں ہم میں سے ہر کسی کے اندر شدت پسندی اور عدم برداشت کا وائرس موجود ہے اور پھیلتا جا رہا ہے۔ آپ کہو گے یہ معاشرے کا وائرس ہے۔۔۔۔ درست۔ لیکن اس کو اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ وائرس ہمارے اندر ہے۔ ہم میں سے جتنے لوگوں کے اندر سے یہ ختم ہو گیا۔ معاشرے سے اتنی مقدار اس کی کم ہو جائے گی۔ لوگوں کی فکر چھوڑیں۔ میں بات کر رہا ہوں انفرادی تبدیلی کی۔ اجتماعی تبدیلی میرا مسئلہ نہیں۔ وہ اس کا مسئلہ ہے جس کے لوگ ہیں، جس کا معاشرہ ہے۔ بقول اقبال:
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
میں چاہتا ہوں کہ آپ اور آپ کی وجہ سے آپ کے قریبی لوگ وائلنس کے اس وائرس سے محفوظ ہو جائیں۔ آپ۔۔۔۔ مطلب یہ مضمون پڑھنے والے چند لوگ۔ میں شہر کی صفائی کے لئے اپنے دروازے کے آگے جھاڑو دینے کا قائل ہوں۔ آپ اگر پھر بھی پورے معاشرے کے لئے بڑے پیمانے پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اٹھائیں جھنڈا، بنائیں کارواں، باقاعدہ تحریک چلائیں میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اجتماعی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ مشن کافی کٹھن اور صبر آزما ہو سکتا ہے۔ ہمیں زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ تعلیم، سیاست، میڈیا اور باقی تمام شعبے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے، کے موجودہ سٹرکچر کو مسمار کرنا ہو گا۔ جو گذشتہ کئی دہائیوں سے کہیں ہماری خرد برد اور کہیں بے توجہی کی وجہ شکستہ اور ناکارہ ہو چکا ہے۔ خدا اور ریاست کے بنائے قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ شدت پسندی کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ قانون کی بالادستی اور انصاف کے شفاف نظام کے ذریعے عوام کے اندر سے عدم تحفظ کا احساس ختم کیا جا سکتا ہے۔ رواداری، تحمل مزاجی اور درگز جیسے رویوں کو رواج دینے کے لئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے لئے معاشرے کا ایگری ہونا اور پوری طرح ساتھ دینا لازمی شرط ہے۔ جبکہ پورے معاشرے کے بجائے اکیلے اپنے آپ کو ایگری کرنا کہیں زیادہ آسان ہے۔ میں اسی وجہ سے ہر طرف سے گھیر کر بار بار آپ کو انفرادی تبدیلی کی طرف ہی لاتا ہوں۔
دوسری مشکل میری نظر میں یہ بھی ہے کہ اگر خالی خولی تدارک کے طریقے لکھ کر دیوار پر ٹانگ دئے جائیں کہ حکومت کو، معاشرے کو، لوگوں کو یہ یہ کرنا چاہیئے۔ کچھ وقت گزرے گا تو دیکھیں گے کہ کہیں ایک ذرے برابر بھی فرق نہیں پڑا۔ تو نتیجہ نکلے گا۔۔۔۔ “اس ملک کا کچھ نہیں ہونے والا”۔ پھر اس نااہل معاشرے کے خلاف ہمارا ذہن سخت شدت والے جذبات اور خیالات تخلیق کرے گا۔ اور ہمارے اندر برداشت کے مادے کا لیول مزید گر جائے گا۔ ایسے تدارک کا کیا فائدہ جو مزید شدت پسندی اور عدم برداشت کا باعث بنے۔
انفرادی تبدیلی دراصل اجتماعی تبدیلی کی ہی ابتداء ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر کی وائلنس کو محسوس کریں اور تسلیم کریں۔ اگر آپ اپنے آپ کو کوئی چیمپیئن ٹائپ چیز سمجھتے ہوئے پورا قصور وار معاشرے کو ہی قرار دیتے ہیں تو آپ چھوڑ ہی دیں اس معاملے کو۔ جیسا چل رہا ہے چلنے دیں اور اپنی زندگی انجوائے کریں۔ چِل ماریں۔ سب اچھا ہے۔ نو پرابلم ایٹ آل۔
اب میرے ذاتی خیال کے مطابق یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شدت پسندی اور عدم برداشت معاشرے کا نہیں بلکہ “ہمارا” مسئلہ ہے۔ میرا مسئلہ ہے، آپ کا مسئلہ ہے۔ ابھی ایک ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اپنی توجہ تحریر سے ہٹا کر اپنے اندر لے جائیں۔ اگر اس نااہل پاکستانی قوم کے لئے آپ کے اندر امید اور رحم کے جذبات ہیں تو آپ اس وائرس سے محفوظ ہیں۔ اور اگر سوچ کہہ رہی ہے کہ سب بے کار ہے، کوئی فائدہ نہیں، یہ عوام اتنی آسانی سے سدھرنے والی نہیں۔ تو میرے خیال میں آپ وائلنس کے وائرس کا شکار ہیں۔
اگر باتیں دل کو لگی ہیں تو شعوری طور پر ایگری کریں۔ پر امید ہو جائیں۔ اپنی تربیت کی ڈور معاشرے کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں تھامیں اور انفرادی تبدیلی کا فیصلہ کریں۔ اگلا کام آپ کے دماغ کا ہے۔ وہ اسی لمحے سے پروسس شروع کر دے گا۔ یقین مانیں یہ قدرت کا ایک ایسا عظیم شاہکار ہے کہ آپ اسے ایک سمت دے کر چھوڑ دیں تو یہ خود بخود آپ کے سامنے راستے کھولتا جاتا ہے، طریقے بناتا جاتا ہے، روشنی کرتا جاتا ہے۔ اگر آپ کو وائلنس کے نقصانات کا ادراک ہو گیا اور آپ نے خود کو اس کے خلاف قائل کر لیا تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ ذہن کا مدافعتی نظام فعال ہو کر کنٹرول سمبھال لے گا اور شدت پسندی کے جراثیم مرنا شروع ہو جائیں گے۔
میرے اندر سے بھی وائلنس ایسے ہی ختم ہوئی۔ اب مجھے معاشرے کی ایسی حرکتوں پر غصے کے بجائے ترس آتا ہے۔ میں غصے کی تکلیف سے بچ جاتا ہوں اور میرے ارد گرد کے لوگ میری وائلنس کے شر سے۔
جو ہو چکا وہ گزر گیا، ختم ہو گیا۔ خود کی اور آئندہ نسلوں کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ آپ تک ہے کہ اس وائرس کو آگے ٹرانسفر کرتے ہیں یا اپنے آپ پر اس کا سلسلہ روک دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کی تربیت کریں ورنہ ان کا شعور ان کو بھی ہتھیاروں سے لیس کر کے “گلیڈی ایٹر” بناتا جا رہا ہے۔ یاد رہے بچے کانوں سے زیادہ آنکھوں سے سیکھتے ہیں۔ آپ تقریریں کرتے رہیں گے تو شائد اثر نہ ہو اپنے عمل سے تربیت کریں۔ جس دن آپ اپنے آپ کو شدت پسندی اور عدم برداشت کے شکنجے سے آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے اسی دن سے آپ کے لئے یہ سمجھو ملک سے ختم ہے۔ جیسے میرے لئے شدت پسندی اور عدم برداشت کا وجود غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ اِسے کوئی خوش فہمی کہتا ہے تو کہہ سکتا ہے۔ میں اسے خوش بختی کہتا ہوں۔ شدت پسندی کی ٹریفک الگ چل رہی ہے۔ میرا رستہ اس سے ہٹ کر ہے۔ میں اس کے ساتھ پنگا نہیں لیتا، وہ مجھے پریشان نہیں کرتی۔
شدت پسندی سے نفرت کریں، شدت پسندوں سے نہیں۔ ورنہ آپ کے اندر بھی ہتھیار اٹھیں گے اور شدت پسندوں کا مقابلہ شدت پسندی سے کریں گے۔ بجائے اس کے شدت پسندوں سے محبت کریں۔ انہیں وائرس زدہ بیمار خیال کریں۔ بحث کا موقع آئے تو ایک محبت بھری رحم والی نظر ڈالیں اور سلام کہہ کر گزر جائیں۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق بہترین لوگوں کا وطیرہ یہی ہے۔ اگر بِھڑ جائیں گے تو آپ بھی وائرس زدہ ہو جائیں گے اور شدت پسندی کو بڑھاوا دینے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں