بچپن کے تجربات کے اثرات۔۔ ایازمورس

ہماری  بچپن کی زندگی میں بے شمار حادثات اور منفی تجربات و واقعات رونما ہوئے ہوتے ہیں جن کے اثرات کا ہمیں اُس وقت بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا۔بچپن کے حادثات اور منفی تجربات آگے چل کر بہت گہرے انداز میں ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ابتدائی زندگی میں تشدد، نظر انداز کئے جانے کے واقعات اور بُرے تجربات ہماری پروفیشنل اور ازدواجی زندگی پر بہت گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑتے ہیں۔ان تجربات کا اظہار ہمیں جوانی میں کرتے ہوئے پریشانی، دُکھ،کرب اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتاہے،لیکن اس سے بڑھ کرمناسب حالات،سازگار ماحول اور بہتررہنمائی اور معالج کی سہولت کا میسر نہ ہو نا بھی اہم امر ہے۔

جبکہ بچپن کی زندگی کے منفی اثرات کا مناسب اور بہتر حل تلاش نہ کیا جائے توجوانی اور پروفیشنل زندگی میں اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔
یہ مسائل ہمارے رویوں اور مزاج کو بُری طرح متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے کئی نوجوان، اپنے بچپن سے فرار حاصل کرنے اور مسائل سے چھپنے اورسکون کے حصول کیلئے وقتی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔
ایسے حالات کئی نوجوانوں کو نشے کی لت میں دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔ شراب نوشی، بے جا غصہ، لڑائی جھگڑے،جذبات اور احساسات کے اظہار سے محرومی،احساس کمتری،نفسیاتی مسائل اور ذہبی دباؤ کا شکار ہونا  قابلِ ذکر ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ ایسے معاملات کو سمجھنے کیلئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں اور نہ ہی ایسی سوچ کو قبول کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں تاہم ترقی یافتہ معاشرے میں ذہنی صحت اور نفسیاتی صحت کو بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ہمارے ہاں اگرکسی نوجوان میں ایسے نشانات اور علامات ظاہر ہوں تو اُس کا علاج فرسودہ طریقوں اور سب سے آسان طریقہ شادی کر کے کر دیا جاتا ہے۔

کئی لوگ ان علامات کے باوجود بھی نارمل نظر آتے ہیں لیکن وہ اپنے اندر ایک عجیب جنگ لڑرہے ہوتے ہیں۔اس کی حالیہ مثال انگلینڈ کے مایہ ناز کٹرٹر بین اسٹوکس کی ہے جنہوں نے حال  ہی میں پاکستان کے خلاف انگلینڈ کی بلکہ نئی ٹیم کی قیادت کی اور تاریخی کامیابی حاصل کی۔وہ سب کو بالکل فٹ نظر آرہے تھے لیکن چند روز قبل بین اسٹوکس نے ذہنی صحت کے حوالے سے مسائل کی بنیاد پر کرکٹ سے غیر معینہ مدت کیلئے دُوری اختیار کرنے کا اعلان کرکے دُنیا کو حیران کر دیا۔کئی لوگ ان علامات اور مسائل کے ساتھ جینے کی کوشش کرتے ہیں اور ذہنی سکون کیلئے وقتی حربے استعمال کرتے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر حادثے کے دیرپا اثر ات رہتے ہیں جسے ماہر نفسیات
Post-traumatic stress disorder (PTSD) کہتے ہیں۔

معروف ویب سائٹ ”سائیکالوجی ٹوڈے“کے ایک مضمون میں ڈاکٹر رابرٹ ویسے کا کہنا ہے کہ گزشتہ 40سالوں میں ماہرِ نفسیات یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ابتدائی زندگی کے حادثات کے اثرات زندگی بھر رہتے ہیں۔آج یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ بچپن میں تشدد،منفی رویے اور نظر انداز کئے جانے کے تجربات ہماری شخصیت،قدرتی صلاحیتوں اور اعتماد کو بُری طرح ٹھیس پہنچاتے ہیں۔یہ واقعات ہمارے بھروسے،تعلقات اور قریبی رشتوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جو ہمیں بہت عزیز ہوتے ہیں۔

کیا ان مسائل سے چھٹکارا ممکن ہے؟
جی ہاں! دُنیا بھر میں ایسے مسائل کے حل کیلئے بے شمار کام ہو چکا ہے۔ ایسی ریسرچز، تجربات، مشاہدات اور طریقہ کاراور ہدایات موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کرکے بچپن کے مسائل سے نجات حاصل کرکے پر سکون زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ایسے لوگوں کیلئے ایک ماہر نفسیات اور تجربہ کار انسان کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر رابرٹ ویسے کا کہنا ہے ایسا شخص جو بچپن میں ان مسائل کا شکار رہا ہے اُس کیلئے یہ عمل انتہائی تکلیف دہ اور مشکل ہو گا لیکن ناممکن نہیں،ایسے انسان کو اپنے ساتھ انتہائی ذمہ داری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔اُسے اپنے اُن تمام مسائل کی بخوبی جانچ پڑتال کرنی ہے جس کی وجہ سے اُس کا بچپن متاثر ہوا تاکہ وہ اُن مسائل اورعوامل کی جس کی وجہ سے اُسے جذباتی، نفسیاتی، نظراندازکئے جانے،تشدد اور بُرے رویوں کا سامنا، خاندان میں نشے کا ماحول،خیالات کی گھٹن اور کئی ایسے تجربا ت جو ذہنی اذیت کا باعث بنے، سمجھنے اور حل کرنے میں آسانی ہو سکے۔اسکے علاوہ اُسے اُن مسائل کے پس پردہ حقائق کو جاننے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اُن گھمبیر مسائل کی جڑ تک پہنچ سکے جس نے اُس کے بچپن اور جوانی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک ان حادثات کا جامع مطالعہ،تجزیہ اور مشاہدہ نہیں کیا جائے گا،ایسے انسان کو رشتوں،تعلقات اور زندگی کے دیگر شعبہء جات میں مسائل کا سامنا رہے گا۔ایسا انسان مسلسل شرمندگی اور افسردگی کا سامنا کرتے ہوئے ایسے رویے اپنائے گا جس سے دوسرے انسان اُس سے دُور رہنے کو ترجیح دیں گے۔بچپن کے مسائل،رویوں اور والدین کے ساتھ تعلقات پر مبنی ”ڈیئر زندگی“ اور”زندگی نہ ملے گی دوبارہ“ ان مسئلوں کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔یہ ایک بہت وسیع،منفرد اور توجہ طلب موضوع ہے جس پر مزید اور مفصل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ان مسائل کے اسباب کو جاننے، اُن کے سدباب کرنے اور ایسے لوگوں کو مددو رہنمائی فراہم کرنے کیلئے کئی اہم اقدامات کو سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔میرے خیال میں اس میں سب سے زیادہ ضرورت لوگوں میں آگہی،شعور اور معلومات کی فراہمی ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بے شمار ایسے ذرائع ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔جب قدرت نے یہ خوبصورت زندگی کا تحفہ دیا ہے تو اپنی زندگی کے چندمنفی تجربات کو اپنی زندگی نہ بننے دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply