اپنے مالک خود بنیے۔۔۔۔۔ احمد نصیر

ہم اپنے ذہن کے غلام ہیں جو وہ کہتا ہے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر غصے کو ہی لیجئے۔ کیونکہ غصہ ہمیں سب سے زیادہ ہائی جیک کئے رکھتا ہے۔ ہماری زندگی کا انمول وقت زیادہ تر غصے، اس کے آفٹرشاکس یا اس سے آئی مصیبتوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ جب ہمیں غصہ آتا ہے تو جو ذہن سوچتا جاتا ہے وہ کرتے جاتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس وقت ہم اپنے قد سے کافی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے نقصان کی پرواہ قطعاً نہیں کرتے۔ “جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ میں آج دکھاتا ہوں اسے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ آج کے بعد یہ ایسا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں”۔

ہم ہمیشہ غصے کا جواب غصے سے دیتے ہیں۔ جواباً دوسری طرف سے مزید غصہ بھگتنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ہم نقصان اٹھاتے جاتے ہیں۔ جبکہ غصہ خدا نے ہمارے بھلے کے لئے ہماری بقا کے لئے بنایا ہے۔ تاکہ کوئی ہمارا ایسا نقصان نہ کر سکے جو ہماری بقا (Survival) کو خطرے میں ڈالے۔ غصے کے وقت ہماری توانائیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ہم پوری طرح الرٹ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دماغ ایسے کیمیکلز کی تخلیق شروع کر دیتا ہے جو ایمرجنسی میں ہمیں زیادہ پاور دیتے ہیں۔ اور ہم ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جاتے ہیں جسے انگریزی میں Fight or Flight کا نام دیا جاتا ہے۔ کہ اگر دشمن سے لڑ کر چھٹکارا پا سکتے ہیں تو لڑیں ورنہ تشکیل پائی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہاں سے اُڑن چُھو ہو جائیں۔

اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ غصہ اگر ہتھیار کے طور پر ہمیں دیا گیا ہے تو ہم اسے استعمال کیوں نہ کریں؟ دیکھیں ایک سپاہی ہے جس کے ہاتھ میں بندوق دی گئی ہے۔ اب وہ ہر کسی پر گولی داغنے لگ جائے تو کیا آپ اسے مناسب اقدام کہیں گے؟ یقیناً نہیں۔ ہاں اگر وہ حالت جنگ میں ہے یا دشمن کے علاقہ میں ہے تو وہ بے دریغ بندوق کا استعمال کرے جو سامنے آئے بھون کر رکھ دے۔ ہم بھی پوری زندگی حالت جنگ میں گزارتے ہیں۔ ہر دوسرا انسان ہمارا دشمن ہے۔ بھائی، بہن، بچے، بیوی، خاوند، والدین، دوست، کولیگ، دکاندار، کنڈیکٹر، راہگیر کسی کو سپیئر نہیں کرتے۔ ذرا سی غلطی اور ہم تَڑ تَڑ فائر کھول دیتے ہیں۔ “دِکھتا نہیں؟ اندھے ہو؟ عقل نہیں؟ بے وقوف۔۔۔۔۔” غصے کو کنٹرول کرنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ پوری پوری نصیحت لگانا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی نہیں جانتے کہ قدرت کے قانون میں فرض معافی ہے انتقام یا نصیحت   نہیں۔ لیکن ہم معافی کو بزدلی کہتے ہیں۔ اور نصیحت  کرنا  تو اُس کا کام ہے جس کے بندے ہیں۔ ہم یہ ٹھیکہ لے کر اپنا وقت اور تعلق کیوں خراب کریں۔

غصہ آنا فطری ہے۔ کسی سائنس کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے غصہ نہ آئے لیکن ہم اگر غصے کی اصل کو سمجھ جائیں تو ہم اس پر کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ اور زندگی میں بہت سارے نقصانات سے بچ سکتے ہیں اپنے بھی دوسروں کے بھی۔

ویسے آپس کی بات ہے ہم مخصوص حالات میں غصہ کافی آسانی سے کنٹرول کر پاتے ہیں۔ وہ مخصوص حالات کیا ہیں؟ جب ہمارا واسطہ اپنے سے زیادہ  طاقتور سے پڑتا ہے۔ غصہ تو کمزور کے لئے ہوتا ہے ناں جی۔ طاقتور کو معاف کرنا، سپیئر کر دینا آسان ہوتا ہے۔ اس چیز کو آپ چاہیں تو غصے کے خلاف ہتھيار کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی ریسپیکٹ اپنے دل میں پیدا کر لیں ہر کوئی طاقتور ہو جائے گا۔ کیا خیال ہے؟

غصہ رحمت ہے۔ لیکن ہم اپنی کم عقلی اور کم ظرفی کی وجہ سے اس رحمت کو مینیج نہیں کر پاتے۔ ہم خدا کے قوانین کو اکثر اپنے نقصان کے لئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح درد خدا نے نہ بنایا ہوتا تو متاثرہ حصے کو فوری ٹھیک کرنے کی ترکیب نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں اس حصے سے مکمل ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ اسی طرح غصہ بھی یہی کہتا ہے کہ خراب ہوئے معاملے کو فوری ٹھیک کرو۔ لیکن ہم خرابی یہ کرتے ہیں کہ اسے اسی غصے سے ٹھیک کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں لوہا، لوہے کو کاٹتا ہے۔ لیکن یہ کلیہ ہر جگہ فٹ نہیں آتا برائی، برائی سے ختم نہیں ہوتی۔ آگ سے آگ بجھتی ہے؟  اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک پولیس افسر خود کرپٹ ہے اور آپ اسے کرپشن ختم کرنے کی ذمہ داری سونپ کر امید کریں کہ کرپشن ختم ہو جائے گی۔ نہیں اس طرح کرپشن بڑھ جائے گی۔ بالکل اسی طرح غصہ ذہن کی کیفیت ہے۔ اس وقت اس نے ذہن کو جکڑ رکھا ہے اور آپ اس کو اسی ذہن سے کنٹرول نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہمیں قدرت نے ایک چیز دی ہے۔ جسے شعور کہتے ہیں۔ جو یہ معاملہ بخوبی حل کرتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنی بڑھی ہوئی توانائی کی وجہ سے نظر آتا ہے کہ ہم اسے اپنی قوت سے کچل کر رکھ دیں یہ زیادہ آسان ہے۔ اب سامنے والا انسان بھی من و عن اسی پروگرامنگ کے مطابق عمل کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ جنگ کا ماحول بن جاتا ہے۔ دوسرا ہم شعور کو ذہن سے الگ نہیں سمجھتے۔۔۔۔ یہ بات یہاں کافی لوگوں کے لئے نئی ہوگی کہ ذہن اور شعور الگ ہیں۔ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

شعور دراصل ہم خود ہیں۔ ہم ذہن، جسم اور روح کا مجموعہ ہیں۔ حقیقی کنٹرول روح کا ہے۔ جسے شعور، خودی، ذات، انا، ضمیر، Consiousness, intellect, self اور اس سے ملتے جلتے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اصل میں ہم ہی (یعنی شعور) ذہن کے ذریعے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم شعور( یعنی خود کو) اور ذہن کو مکس کئے ہوئے ہیں۔ اور جو ذہن کہتا جاتا ہے کرتے جاتے ہیں کہ یہ جو فیصلہ اندر سے آرہا ہے یہی ہمارا فیصلہ ہے۔ غور کریں یہ واقعی “آپ” کا فیصلہ ہے یا واقعہ کے منفی اثر کی وجہ سے ذہن کا بنایا آٹومیٹک فیصلہ ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے آپریٹر کی سیٹ پر بیٹھ جائیں تو جو آپریٹس(ذہن) کہے گا ہم وہ نہیں بلکہ وہ کریں گے جو مناسب ہوگا۔ اس سے پہلے یہ “مناسب” وہ ہوتا تھا جو ذہن آٹومیٹک کرتا جاتا تھا۔

آئیے آپریٹر اور آپریٹس کا فرق دیکھتے ہیں۔

ہم ذہن کے اندر ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو سوچ چل رہی ہے وہ ذہن ہے اور جو دیکھ رہا ہے کہ کیا سوچ چل رہی ہے وہ ہم ہیں۔ ابھی اس وقت اپنی سوچ سے الگ ہو کر بیٹھ جائیں۔ اور دیکھنا شروع کریں کہ کیا سوچ چل رہی ہے۔۔ اب اس سوچ کو چھوڑ دیں۔ یہ نوٹ کریں کہ آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں، کان کیا سن رہے ہیں، جسم کی محسوسات نوٹ کریں۔۔۔۔ اب دوبارہ کوئی سوچ اپنی مرضی سے سوچیں۔ امید ہے آپ اپنی کھوپڑی کے اندر سوچوں کو چلتے پھرتے محسوس کر پا رہے ہونگے۔ یہ ذہن ہے اور جو اوبزَرو کر رہا ہے وہ آپ ہیں۔ اب ایزی ہو جائیں جو چل رہا ہے چلنے دیں اور فیصلہ کریں کہ میں ہر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی سوچ نوٹ کروں گا۔ کچھ دن تک آپ کو اپنی آٹومیٹک سوچ بار بار نوٹ کرنی پڑے گی۔ اس کے بعد آپکی عادت بن جائے گی اور آپکی اکثر سوچیں آپکی مرضی سے آیا کریں گی۔ منفی سوچ کو رد کریں گے اور مثبت کو آگے چلائیں گے۔ لیکن ہمیں پتہ کیسے چلے گا کہ کون سی سوچ مثبت ہے کون سی منفی؟ ہم میں سے ہر کوئی ماہر نفسیات تو نہیں۔ قدرت کے شاندار قوانین میں اس کا حل بھی موجود ہے۔ وہ ہے ہماری فیلِنگ۔ جیسی ہماری سوچ ہوگی ویسی ہی ہمیں فیلنگ آئے گی۔ اگر کوئی سوچ برا احساس پیدا کرے تو وہ منفی ہے اور اگر اچھی فیلنگ دے تو وہ مثبت سوچ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خوشی، سکون، امید، سکھ، محبت وغیرہ اچھے احساسات ہیں۔ جبکہ غصہ، ناراضگی، بے چینی، دکھ، مایوسی، نفرت برے احساسات ہیں۔ جو خیال ایسی فیلنگ پیدا کرے اسے روک کر اچھے خیال پر منتقل ہو جائیں۔

یہاں یاد رکھنے والی بات ہے کہ برے خیال کو آپ روک نہیں سکتے۔ روکنے کی کوشش میں وہ بار بار آئے گا۔ آپ کو اس کے متبادل اچھے خیال پر منتقل ہونا پڑے گا۔ اچھے خیال پر منتقل ہونے کے لئے ایک اصول کو سمجھیں کہ برا خیال یا برا احساس کسی کے برے رویے کی وجہ سے آتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ کوئی رویہ بھی برا نہیں ہوتا ہر رویے کے پیچھے کوئی نہ کوئی پازیٹِو اِنٹینشن یعنی نیت ہوتی ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے دور نہیں جائیں گے کیونکہ مضمون طویل ہو رہا ہے اور ابھی کافی کچھ کہنا ہے۔ آپ ہی سے پوچھوں گا کہ آپ نے اگر کسی جگہ مجبوراً تھوڑا سخت رویہ اپنایا (یہ آپکا تھوڑا سخت رویہ سامنے والے کی لُغت میں برا رویہ ہے) تو اس کے پیچھے آپ کی بری نیت تھی؟ بالکل بھی نہیں۔ بلکہ سامنے والے نے غلط رنگ دے کر بات بگاڑی۔ تو حضرت! سامنے والے کا رویہ بھی بری نیت والا نہیں ہوتا آپ اسے اپنی مرضی کا رنگ دیتے ہیں۔

سخت رویہ منفی خیالات اور واقعے سے آئی بری فیلنگ سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ آٹومیٹک سے مینوَل پر شفٹ ہو گئے ہیں تو آپ اس چیز پر قادر ہو جائیں گے کہ کسی وقت بھی اپنی مرضی سے مثبت خیال یا اچھی فیلنگ کری ایٹ کر سکیں۔ آپ اب بری فیلنگ اچھے خیال سے اور برے خیالات اچھی فیلنگ سے تبدیل کر سکتے ہیں۔

یہ سب تو سائنس کی باتیں ہیں کسی کی سمجھ میں آتی ہیں، کسی کے نظریے سے میل نہیں کھاتی۔ کوئی مانتا ہے کوئی نہیں مانتا۔ یہ بتائیں کائنات بنانے والے کی کتابیں اور پیغام بر بُرے رویے سے کس طرح ڈیل کرنا سکھاتے ہیں؟ ٹھیک کہا آپ نے درگزر اور معافی۔

دانشور کیا کہتے ہیں؟ اِگنور کر دو۔ معاف کر دو۔

آپ خود کیا کہتے ہیں؟ یقیناً معافی اور درگزر۔

لیکن جب واقعہ پیش آئے گا معاف نہیں کر پائیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ اس وقت یہ سب کچھ دھرے  کا دھراے رہ جائے گا۔ اس وقت ضروری ہوگا جواب دینا ورنہ اگلا بزدل خیال کرے گا۔۔ ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر نقصان کرے گا۔۔۔۔ اگلی بار کے لئے اسے موقع مل جائے گا۔ یہ سب باتیں مائنڈ ضرور سوچے گا۔ سوچنے دیں یہ اس کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ اس کا کام بنیادی طور پر آپ کی حفاظت ہے۔ اس لئے وہ یہ باتیں سوچتا ہے۔ اور آپ اسی کی مان کر فوراً اسی کے مطابق ری ایکٹ کر کے اکثر غلطی کر جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تنازعہ جنم لیتا ہے تناؤ سے، کھنچاؤ سے۔ ایک طرف سے آپ کھینچ رہے ہوتے ہیں دوسری طرف سے دوسرا۔ اگر آپ اپنے والا سرا چھوڑ دیں تو تنازعہ اسی لمحے فوت نہیں ہو جائے گا؟؟؟

معاف کر کے دیکھیں۔ قدرت کے قوانین پر عمل کریں گے تو قدرت آپ کا ساتھ دے گی۔ ایک بار معاف کریں دوسری بار وہ آدمی بات بڑھا نہیں پائے گا۔ اگر دوسری بار بھی کر گیا تو بھی ثابت قدم رہیں۔ جیت آپکی ہی ہوگی یہ گارنٹی ہے۔ مگر معاف طریقے سے کریں گے تب رزلٹ ملے گا۔ محض موقع پر خاموشی اختیار کر کے بعد میں اپنے اندر اس کے لئے برابر بُری فیلنگ رکھیں گے تو یہ معافی نہیں ہے۔ محض وقتی فرار ہے۔ دل سے معاف کریں۔ اور اپنے اندر اچھی فیلنگ رکھیں۔ اس بندے کے لئے نہ رکھ پائیں تو کوئی بات نہیں اپنے معافی کے اچھے عمل کے لئے اچھی فیلنگ لائیں اپنے اندر۔ اچھی فیلنگ کے لئے ایک بہترین ٹرِک مسکراہٹ بھی ہے۔ مسکرا کر نوٹ کریں۔۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ مسکراتے ہوئے کوئی نیگٹو خیال سوچ سکیں۔ دھیان رہے میں طنزیہ مسکراہٹ کی بات نہیں کر رہا۔

یاد رکھیں آپ اللہ کے بندوں سے نرمی برتیں گے وہ آپ سے نرمی برتے گا۔ آپ اس کے بندوں کو معاف کرتے جائیں وہ آپ کو معاف کرتا جائے گا۔ ہم عبادات جتنی بھی کر لیں۔ سجدوں میں پیشانیاں گھِسا دیں وہ اپنا خصوصی کرم نہیں کرے گا تو ہماری فلاح کا کوئی چانس نہیں ہے۔ اگر ہماری طرح اس نے بھی سختی کی تو یقین مانیں ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔

قدرت کے قوانین کو سمجھیں۔ ذہن کی ڈیوٹی کو سمجھیں۔ ہم ذہن کے غلام نہیں ذہن ہمارا غلام ہے۔ جیسا ہم چاہتے ہیں اسے ویسا کرنا چاہئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تجربہ کر کے دیکھیں جب کسی پر غصہ آئے اور ذہن بار بار انتقام کی سوچوں کو دہرانے لگ جائے تو آپ یہ سوچیں کہ یہ میری سوچ نہیں یہ میرے ذہن کی سوچ ہے۔ جو آٹو میٹک چل رہی ہے چلنے دو۔ میں معاف کر چکا ہوں۔میں تو اس واقعے کو بھلانا اور اگنور کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھنا آپ اسی وقت مسکرا اٹھیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply