میڈیا کرائسز ۔۔۔محسن علی

پاکستان میں کئی پیچیدہ مسائل ہیں جن میں سے ایک سر اُٹھاتا مسئلہ میڈیا انڈسٹری کا ہے یوں تو مشرف صاحب کے دور میں میڈیا کو آزادی دی گئی اور خوب دی گئی جبکہ اُس دوران صحافیوں کی کوئی میڈیا آزادی سے متعلق جدوجہد نہیں چل رہی تھی ۔ شروع کے پانچ سال میڈیا میں بہترین کام ہوا اور چینلز آئے اُن کا آج بھی سکہ  بولتا ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ چینلز کی بھرمار ہر بلیک میلر و کرپٹ مالکان کا پیسہ جائز کرنے کو جس طرح چینلز بغیر کسی پالیسی کے تحت وجود میں آتے چلے گئے ۔ اب لگنے لگا ہے جیسے پرچیون کی دوکان ہو ۔

مُشرف صاحب کے دور سے سابق صدر زرداری اور پھر نوازشریف دور میں بھی میڈیا کے لئےکوئی پالیسی نہ بن سکی، افسوس کے ساتھ جبکہ ایک ڈکٹیٹر کے مقابلے میں سیاسی قوتیں بھی میڈیا کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہیں ۔ آپ جب چینلز دیکھتے  ہیں تو ہر چینل پر ایک جماعت کی واضح چھاپ دکھائی دے گی، کہیں چُھپی کہیں کُھلی ۔ یہ صرف نیوز چینلز تھے جنہوں نے پہلے نیوز چینل اور اسکے منافع سے اپنے انٹرٹینمنٹ چینل کھولے مگر اب آپ ماضی قریب پر نظر دوڑائیں تو جب بول چینل نے سوشل میڈیا کے ذریعے پُرکشش  تعیشات  کا  نظارہ دکھایا تو سارے میڈیا مالکان کو خطرات لاحق ہوئے کہ اتنا بڑا میڈیا گروپ کہیں یہ ہمارا بوریہ بستر گول نہ کردے اسُکے بعد بول چینل کا کیس ہوا اور سب چینلز نے اُس میں اپناحصہ ڈالا جبکہ اکثر چینلز میڈیا انڈسٹری میں بلیک منی وائٹ کرکے لانچ ہوئے ۔کبھی کسی چینل پر پی پی نے دھاوا بولا تو کبھی پی ٹی آئی نے تو کبھی متحدہ نے ۔

میڈیا انڈسٹری میں تمام چینلز ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں الگ لگےرہے جس کے باعث عوام میں میڈیا سے متعلق جو سحر انگیزی تھی وہ ٹوٹی اورمیڈیا پر بیٹھے چہروں کی وڈیو لیک نے میڈیا کا تاثر زائل کیا ۔مگر ریاست نے بے دریغ ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کرکے نوکری کے مواقع تو کھولے ،ایک طرح سے جائز ناجائز کی بحث میں پڑے بغیر تو دوسری جانب میڈیا پر کیمرے کے سامنے بیٹھے چہروں کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ اور نیوز کے، اینکرز بیورو چیف کی تنخواہیں لاکھوں میں چلی گئیں جبکہ نیچے کیمرے کے پیچھے دیگر مُلازمین کی تنخواہیں علاقائی چینلز میں تو بے حد کم اور کئی سال میں تنخواہ بڑھنے کا رواج  ہوا۔جبکہ اردو چینلز میں بھی کافی کم تنخواہیں و مراعات دی جاتیں  ہیں ، کسی بھی چینل کے ورکرز کو ای او بی آئی کارڈ اور اپنے حقوق کے بارے میں معلومات نہیں، ساتھ ہی بہت سے چینلز نے کئی مُلازمین کو نوکری جوائن کرنے کا لیٹر تک نہیں دیا ہوا ۔ جب سے موجودہ حکومت نے سرکاری اشتہارات کی پابندی کا اعلان کیا ہے اور موجودہ بجٹ آیا ہے ، اُس کے بعد سے مُختلف چینلز سے ورکرز کو نکالا گیا جن کی تعداد دو سو بتائی جارہی ہے ۔ ساتھ ہی سننے  میں  آرہا ہےتمام میڈیا چینلز مارچ تک ورکرز کو نکالیں گے جبکہ چند  برسوں میں تنخواہ نہ ملنے پر  چھوٹے چینلز کے ملازمین خود کشی کرچکے  ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت باقاعدہ ایک ٹیم بنا کر میڈیا کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دے کیونکہ میڈیا ہی حکومت کا مثبت و منفی چہرہ دکھاتا  ہے ۔ جہاں کچھ چینلز نے چند اینکزز کی تنخواہ میں کٹوتی کی ہے وہاں دیگر چینلز کو ایک مناسب تنخواہ سے زیادہ نہ رکھنے دیا جائے اور چینل و دیگر عملے کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے میڈیا انڈسٹری کے چینلز کو کم کرکے انکو مشترکہ شراکت داری کی ضمانت حکومت رکھے، تاکہ وہ اپنے ورکرز کو تنخواہ دے سکیں ریاست ثالثی کا کرداد ادا کرے ۔ اگر بروقت ایسا نہ کیا گیا تو ایک بڑی تعداد بے روزگاری کی طرف جائیگی جس کا سب سے زیادہ نقصان عام مڈل کلاس طبقے کو ہوگا ۔ میری گُزارش ہے ہمارے دانشور اہل علم و قلمی طبقے سے وہ اس میڈیا انڈسٹری کے لوگوں کے لئے آواز بُلند کریں اور اپنا کردار ادا کریں اس سے پہلے  کہ شہری لوگ بھی ایک دم آنے والی  بیروزگاری سےتھر کے لوگوں کی طرح خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میڈیا کرائسز ۔۔۔محسن علی

Leave a Reply