آسیہ”مولانا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی اختر

آج آفس میں کچھ بے چینی کا سا ماحول تھا۔ لوگ سہراب گوٹھ کے پچھلے دھرنے کو یاد کر رہے تھے جب نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کو بنیاد بنا کر کیئے جانے والے دھرنے میں ہماری آفس وین کے تمام مسافروں کو موبائل، لیپ ٹاپ، نقدی وغیرہ سے محروم کر دیا گیا تھا۔

آج بھی خبر تھی کہ  آسیہ بی بی نام کی ایک عورت جسے توہین رسالت کے قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی تھی کو سپریم کورٹ نے بری کر دیا تھا۔ اور نتیجہ دھرنوں کی صورت میں ہمیں بھگتنا تھا ۔ جیسے وہ فیصلہ  ہم  ہی نے دیا ہو۔

اس سارے ماحول میں ہمارے آفس کا پیون بخت علی جو نوری آباد کا مقامی سادہ سا آدمی ہے آیا اور نہایت سادگی سے پوچھا ۔ ” سر یہ آسیہ ” مولانا” کون ہیں ” ۔ میں نے اپنی ہنسی بمشکل دباتے ہوئے جواب دیا۔ ” یار نام سے تو کوئی  بڑے مولوی صاحب لگ رہے ہیں۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو”
“سر ! پتا تو مجھے زیادہ نہیں ٫ بس انکی وجہ سے ہمیں ابھی نوری آباد میں دھرنا دینا ہے ۔ ہمیں ہمارے پیر صاحب نے کہا ہے ۔ ” وہ اسی معصومیت سے بولا ۔ “اچھا بیٹا دھرنے میں جاؤ اور وہیں پوچھ لینا کے آسیہ مولانا کون ہیں اور کل مجھے بھی بتانا” یہ کہہ  کر میں مزید ہنسی نہ روک پایا اور ہنسنے لگا ۔ جبکہ بخت علی حیران تھا کہ  ہوا کیا۔

مذکورہ بالا واقعہ چار بجے کے قریب کا تھا اور اس وقت شام کے سات بجے ہیں اور میں امید کے عین مطابق سہراب گوٹھ سے تھوڑا پہلے دھرنے کی وجہ سے ہونے والے ٹریفک جام میں میں پھنسا یہ سوچ رہا تھا  کہ  میرا نام آسیہ بی بی نہیں ، نہ ہی سلمان تاثیر ہے، نہ ممتاز قادری اور نہ ہی میں چیف جسٹس ، اس ملک میں قانون کی دیوی کا ریپ بالجبر ورضا اتنی بار دیکھ چکا ہوں کہ  کسی قانون کے بننے، ختم ہونے یا اسکے تحت کسی کو سزا یا معافی ملنے سے کوئی  دلچسپی نہیں  رکھتا ہوں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ  مجھے اور میرے جیسے ہزاروں لوگ جنہیں  اس وقت ٹریفک جام کی اذیت دے کر، لوگوں کا کاروبار بند کرا کر اسلام کی کون سی خدمت کی جا رہی ہے۔

اور ساتھ ہی افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ  ان دھرنوں ،احتجاجوں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والے لوگوں کی اکثریت بھی بلا سوچے سمجھے بس ایک شعلہ بیان مقرر کی تقریر پر لوگوں کو اذیت دینے پہنچ جاتے ہیں۔ کم سے کم پہلے معاملہ کی تحقیقات تو کریں کہ  ان سب میں اگر آپ کے جذبات مجروح ہوئے بھی ہیں تو اسکا تدارک کس طرح سے ممکن ہے یا یہ کہ  بس منہ اٹھا کر راہ چلتے لوگوں کو تکلیف دیں ۔ وہ بھی اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نام مبارک پر جو اپنے دشمنوں کے گھر بھی عیادت کے لیے  جاتے ، جو فرماتے کہ  جب کوئی  سورہا ہو تو قرآن مجید کی تلاوت بھی آہستہ کرو مبادا اسکی نیند میں خلل واقع نہ ہو جائے۔ جو انسان تو انسان جانوروں کی تکلیف پر بھی بے چین ہو جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب المیہ یہ ہو چکا ہے یورپ میں کوئی  گستاخی ہو تو ہم اپنی املاک جلا کر احتجاج کرتے ہیں، لندن میں قتل ہو تو کراچی میں گاڑیاں جلتی ہیں۔ کیا ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ  دیوار پر اسرائیل مردہ باد لکھنے سے سوائے دیوار خراب کرنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ارے بھائی  انسان ہونے کے ناطے اتنا تو فرض بنتا ہے کہ  دھرنا دینے، جلوس نکالنے، گاڑیاں جلانے سے پہلے کم سے کم “مولانا” اور “ملعونہ” کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply