سٹریس۔۔۔۔عاطف نذیر

عصرِحاضر میں شاید ہی کوئی انسان ہوگا جو سٹریس سے بچا ہو  ۔ ہماری زندگی عموماً  حاصل ومحصول کی تگ ودو میں گزر جاتی ہے۔جوانسان کے پاس ہوتاہے، اُسکی بےقدری کرتاہےاورجو پاس نہیں ہوتا اُسکی جستجو میں لگا رہتاہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دنیا میں جتنے انسان ہیں اُتنی ہی درد کی حالتیں ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حالت آسان نہیں ہوتی۔ سوئی چبھنےسے لے کر چا کِ جگر ہونے تک ہر درداُس انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جو اُس میں مبتلاہے لیکن اگر ہم تھوڑی سی حقیقت پسندی سے تجزیہ کریں تو شاید ایسانہ ہو۔ شاید وہ اذیت اُتنی بڑی اذیت نہ ہو جتنا بڑا ہم نے اسکو بنا لیاہو کیونکہ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے آس پاس آج بھی بہت سے لوگ ہونگےجو اس حالت پہ پہنچنے کی جستجو میں ہونگے جہاں ہم پہلے سے موجود ہیں تو درد اس وقت تک درد نہیں بنتا جب تک آپ اُ سکو درد کے معنی نہ دیں ۔اس بات کی وضاحت کےلیےصرف اتنا مشاہدہ ہی کافی ہوگا کہ بہت سے لوگ ہم سے   زیادہ المناک صورتِ حا ل میں ہونے کے باوجود ہم سے  زیادہ مطمئن اور مسرور ہوتے ہیں۔

سٹریس کی وجہ

انسان کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو اگر اختیار کی بنیاد پر تقسیم کریں تو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جن پر ہمارا اختیار ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں ۔ سٹریس ہمیشہ تب ہوتی ہے جب ہم اپنی توانائیاں ان معاملات پہ لگاتے ہیں جو ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں۔ہماری زندگی کے  85٪ معاملات ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں جیسےہم کہاں پیداہونگے، کیسی شکل پایئنگے۔ہمارے ماں باپ کون ہونگے جبکہ ہماری زندگی کا 15٪ حصہ ہماری چوائسس طے کرتی ہیں۔ آپ جب سٹریس کا شکار ہوں، آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ اُس مخصوص لمحے میں آپ اپنا ردِعمل کنٹرول کرنے کی بجائے، ہونے والے عمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر  رہے ہیں۔آپ اپنی قوتیں اُس 85٪ پر لگا رہے ہیں جو آپ کے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ کہیں نہ کہیں آپ کچھ ایسا چاہ رہے ہیں جو کہ قدرت کے طے کردہ مراحل سے مختلف ہے۔زیرِنظر مضمو ن میں آپکے لیے کچھ قابلِ عمل تجاویز ہیں،جن پر عمل کر کے اپنی اور دوسرو ں کی زندگی میں سکون لا سکتے ہیں۔

1- اللہ کی تقسیم اور اپنے نصیب پر راضی ہوجائیں

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی تقسیم پر راضی ہوجائیں ۔ اپنے نصیب پر راضی ہو جائیں ۔اپنی محنت اور اپنے حاصل سے مطمئن ہو جائیں ۔ اللہ نے جو آپکو دے دیا اور جو نہیں دیا اس پر راضی ہو جائیں ۔ یہ سمجھ لیں کہ جو آپکو نہیں ملا، جوآپکے ساتھ نہیں ہے، وہ آپکےلیے نہیں تھا۔سب اپنی اپنی ٹائم لائین پر چل رہے ہیں، کوئی کسی سے آگے ہے اور نہ پیچھے۔زندگی کو موجودہ لمحہ میں جینا سیکھیں۔ اگر آپ کا آنے والا کل آپ کے آج سے بہترہے، اگر آپ اصلاح کی راہ پر ہیں تو منزل پر ہی ہیں کیونکہ بقول واصف علی واصف،

“سفر میں ہی منزل اور منزل میں ہی سفر ہوتا ہے”

2-  آپ خوش قسمت ہیں

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بد قسمت ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ خیال ٹھیک نہیں ہے  کیونکہ آپ المناکی کی جس بھی حالت میں ہو، یقین مانیں،آ پ پھر بھی بہت سے لوگو ں سے بہتر ہیں۔اگر آپ اندھے ہیں اور اپنے آپ کو بد قسمت سمجھتے تو میں آپ کو ایسے لوگ دِکھا سکتا ہوں جو نہ صر ف اندھے ہیں بلکہ اپاہج بھی ہیں لیکن اسکے باوجود اُنھوں نے اپنےشعبوں میں کمال کیا جیسے محسن نواز۔ اوراگرآپ کہیں کہ آپ کےہاتھ نہیں ہیں تو میں آپ کو ایسے لوگ دِکھا سکتا ہو جو نہ صرف ہاتھ بلکہ ٹانگوں سے بھی معذور ہیں اور وہ آج موٹی ویشنل سپیکر ہیں جیسے نِک ویوجیسک ۔ اور ایسی ایک نہیں، آپ کو ہزاروں مثالیں ملیں گی ضرورت صرف اس با ت کی ہے کہ آپ تھوڑی سی حقیقت پسندی سے اپنے ارد گر د کا مشاہدہ کریں ۔ اس مشاہدے کے لیے سب سے موزوں جگہ ہاسپٹل ہے۔ آپ  جتنی بڑی بیماری لے کر ڈاکٹر کے پاس جائیں، آپ کو یقیناَ اس سے بھی مشکل بیماری میں مبتلا لوگ مل جائینگے۔

3- حقیقت پسندانہ تجزیہ

 ماہرِنفسیات آصف رضا شیخ، اپنی کتا ب “ہمارے روزمرہ نفسیاتی مسائل اور ان کا حل” میں  لکھتے ہیں۔

فرض کریں آپ ایک بس میں سفر کر رہے ہیں ۔ بس میں بہت رش ہے اور آپ بس کھڑے ہیں۔ اچانک پیچھے سے آپ کو کوئی دھکا دیتا ہے اور آپ نیچے گرجاتے ہیں۔  آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ آپ یقیناًغصے میں آئیں گے اور ہوسکتاہے آپ دھکا دینے والے شخص سے لڑپڑیں۔لیکن گرنے کے بعد آپ نے مڑکر دیکھا تو آپ کے پیچھے ایک اندھا آدمی تھا جو اپنے ہاتھوں سے راستہ ٹٹول رہا تھا۔اُسی اندھے آدمی کا ہاتھ آپ کو لگا اور آپ نیچے گر پڑے۔کیا اب بھی آپ کو  غصہ آئے گا؟

 غصہ تو دور، شاید آپ کو اُس آدمی پر ترس آئے۔ دھکا اور غصہ آنے کے بیچ میں ہمارے خیالات اور تصورات ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ ہمیں غصہ آئےگا یا رحم۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ کے اندر کے خیالات کی تصدیق ، باہر سے ہوتی ہے۔ جیسا آپ سوچتے ہیں، ویسے ہی خیالات کی تصدیق ہوتی ہے۔

4-  اپنی زمہ داری قبول کریں

اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اپنی  ذمہ داری کو قبول کریں۔ یہ تسلیم کریں کہ اگر آج آپ کسی پستی میں ہیں تو اس میں کچھ ہاتھ آپ کا بھی ہے۔ زندگی میں کبھی اپنے احتساب سے نہ گھبرائیں کیونکہ جب تک سانس ہے، آپ کےپا س توبہ کی لائف لائن موجود ہے۔ زندگی میں جو غلطیاں آپ کر چکے ہیں اور اُن کے جو پھل آپ کو ملے، تسلیم کرلیں کہ یہ آپ ہی کے غلط فیصلوں یا اعمال کے نتیجے ہیں۔زندگی  بہت مختصر ہے اس لیے جو وقت، طاقت اور وسائل آپ کے پاس بچے ہیں اُن کا بہترین استعمال شروع کر دیں اور یہ کا م کل نہیں، آج کریں کیونکہ زندگی آپ کے ہاتھ سے پھسل رہی ہے، ایک بہت ہی غیر محسوس انداز میں۔ اگر یقین نہیں آتا تو بیٹھیں کسی دن اپنے ساتھ اور دہرائیں اپنی زندگی کو۔ کیا یہ کل کی بات نہیں لگتی کہ آپ کسی احسا س میں تھے اور آج اس سے باہر ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ کل جو چیزیں  آپ کے لیے اہم تھیں، آج غیر اہم ہیں۔ کتنے حسین اور پیارے لوگ آپ کی زندگی میں تھے اور آج نہیں ہیں۔ اس لیے اُٹھیں اور اپنی زندگی کو بدلنے کے جتن کرنے میں لگ جائیے، حاصل اور محصو ل سے آزاد ہو کر کیونکہ چلنا شرط ہے، پہنچنا نہیں اور اگر کبھی شک آپ کا دامن پکڑے تو یاد رکھیں کہ جب آپ تک انتخاب نہیں کر لیتے، سب کچھ ممکن ہے۔ شاید آپ یہ جانتے ہوں کہ کرنل سینڈرز نے جب کےایف سی کی بنیاد رکھی اس وقت وہ 65 سال کے تھے۔ایک سٹڈی کے مطابق  کامیاب  کاروبار کی بنیاد رکھنے کی اوسط عمر 45 ہے۔ 40 وہ عمر سمجھی جاتی ہے جس میں انسان کے روحانی سفر کا آغاز ہوتاہے کیونکہ اس عمر تک ہم عموماً   زندگی کے بیشتر تجربات سے گزر چکے ہوتے ہیں سو اپنی نظر اس پر نہ رکھیں کہ آپ کیا نہیں کر سکے بلکہ یہ سوچیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔یا د رکھیں کہ مخت کبھی ضائع نہیں ہوتی تو اگر آپ نے کچھ ناکامی سمیٹی ہے تو یہی تجربات آگے جا کر آپ کے کام آنے والے ہیں۔

5 –  فلاح

 انسانیت کی معراج ہے انسانیت کے کام آنا۔روحانیت کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو وہ ہوگا “خدمت”۔مزےکی بات ہے کہ و ہ تمام کام جن کا ہم سے اللہ تقاضا کرتاہےوہ سب بندے کے ساتھ کرنےکے ہیں۔ایک روایت ہے کہ اللہ کو دو کام بہت پسند ہیں اور وہ ہیں، اچھا کلام اور اچھا طعام ۔ اور یہ دونوں کام آپ نے بندوں کے سا تھ کرنے ہوتے ہیں۔ ہماری انتھک تگ و دو اور جستجو کے پیچھے ہمارا  کنٹری بیوشن کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کبھی آزما کر دیکھیں، جس دن آپ خوش ہونگے اس دن آپ نے یقینا ً کسی کی زندگی میں آسانی پیدا کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی بیوی اور بچو ں کی خوشنودی کے لیے ہم آخری حد تک جانے سےبھی  گریز نہیں کرتے۔دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کی زندگیوں میں فلاح کا کچھ عنصر ہوتا ہے، ان کی زندگیاں پُر سکون ہوتی ہیں۔میرے اپنے حلقہ احباب میں ایک صاحب  70 سال کے ہیں اور آج بھی اگر انھیں شہر سے باہر جانا ہو تو وہ  اپنی کار خود چلا کر جاتےہیں۔ ساری زندگی انھو ں نے چھپ کر اور کبھی کُھل کر لوگوں کی مدد کی ہے۔آپ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے لوگوں کی زندگیوں میں سکون دیکھیں گے۔آپ زندگی کے جس معاملہ میں چاہتے ہیں کہ اللہ آپ سے نر می رکھے، آپ اس کی مخلوق کے اُس معاملہ میں نرم ہو جائیں۔ زندگی آسان ہو جائےگی آپ کی بھی اور دوسروں کی بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی کا یہ سفر تلاش کا سفر ہے اور ہر جستجو کرنےوالے کے لیے قدرت نے علم کے کچھ نگینے رکھے ہوتےہیں۔زندگی اور جستجو کے اس سفر میں آپ نے بھی یقیناَ کچھ نتائج اخذ کیے ہونگے سو اپنی آراء سے ضرور آگاہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply