• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچی اکیڈمی کی سالانہ گرانٹ میں 25فیصد کٹوتی۔۔۔۔۔شبیر رخشانی

بلوچی اکیڈمی کی سالانہ گرانٹ میں 25فیصد کٹوتی۔۔۔۔۔شبیر رخشانی

کوئٹہ کی مارکیٹ کی  زبان پشتو ہے۔ کاروباری حلقہ پختون ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی شورش سے پنجابی آبادکار اپنی زمینیں اور جائیدادیں بیچ کر یا چھوڑ کر نقل مکانی کر گئے۔ ہزارہ برادری ہزارہ نسل کشی کے بعد ایک ہی جگہ محدود ہو کر رہ گئی  ۔ کاروبار مکمل طور پر پختونوں کی  دسترس میں آگیا ۔ اب مارکیٹ کی زبان مکمل طور پر پشتو بن کر رہ گئی ہے۔ کہیں کہیں براہوئی بولی سنائی دیتی ہے۔ جبکہ بلوچ، ہزارگی یا دیگر اقوام کو رابطے کی زبان یعنی اردو ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

جس ایریا میں انسان اپنی بولی کو ترسے تو وہیں قائم ایک ادارہ جس کی پیشانی پہ لگا ٹیگ اور ادارے کے اندر کی بولی اس کی مادری زبان کا ہو تو وہ ادارہ ان افراد کے لیے کشش کا مقام ضرور رکھتا ہے۔ یہی حال جناح روڑکے بیک سائیڈ عدالت روڑ پر واقع بلوچی اکیڈمی کا   ہے۔ جہاں بلوچی زبان سے محبت کرنے والے افراد کی ایک کثیر تعداد مارکیٹ کی زبان سنتے ہوئے اور رابطے کی زبان بولتے ہوئے تھک جائے تو وہ بلوچی اکیڈمی ہی کا رخ کرتا ہے ۔
ادارے کو قائم کرنے کا سہرا عبدالقیوم کے سر جاتا ہے۔ لیکن اسے ایک حتمی ادارے کی شکل میں لانے کا سہرا اختر مینگل کے سر جاتا ہے۔ عدالت روڑ پہ واقع یہ بلڈنگ انہی کے دورِ حکومت میں قائم ہوئی۔ انہی کے دورِ حکومت میں ادارے کا سالانہ گرانٹ پانچ لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کر دیا  گیا ۔ ان کے اس اقدام کو بلوچ ادبی حلقوں کی جانب سے کافی سراہا گیا تھا۔

ڈاکٹر مالک کے دورِ حکومت میں بلوچی اکیڈمی  کی   گرانٹ ایک کروڑ کر دی  گئی ،گرانٹ میں اضافے سے نہ صرف بلوچی اکیڈمی میں کتابوں کی اشاعت کا کام تیز ہوا بلکہ بلوچستان بھر کی لائبریریوں کو اکیڈمی کی جانب سے کتابوں کی مفت فراہمی کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔

گزشتہ چند روز سے خبریں گرم ہیں کہ بلوچی اکیڈمی کی سالانہ گرانٹ میں 25فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ اکیڈمی نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ کٹوتی ’’بلوچی ادبی اکیڈمی‘‘ کے چیرمین کے کہنے پر کی گئی ہے اور کٹوتی کا یہ حصہ ادبی اکیڈمی کو نوازا جا رہا ہے۔ جبکہ بلوچی ادبی اکیڈمی نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ بلوچی اکیڈمی کے ایک عہدیدار کے مطابق سیکرٹری ایجوکیشن سے ملاقات اور مکمل خاکہ ان کے سامنے لانے کے بعد حکومت کی جانب سے اُس نوٹیفکیشن کو روک دیا گیا ہے جس میں اکیڈمی کی مالی امداد میں کٹوتی کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔ پیداشدہ صورت حال کے بعد بلوچی اکیڈمی کی جانب سے دیگر اکیڈمیوں کے اشتراک سے نہ صرف اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ بلکہ حکومت سے گزارش کی ہے کہ وہ اداروں کی چیک اینڈ بیلنس کرکے انہیں گرانٹ جاری کریں۔ بلوچی، پشتو، براہوئی اکیڈمی کے گرانٹس میں کمی بالکل قابلِ قبول نہیں۔

حکومتی سطح پر بلوچی اکیڈمی کی  گرانٹ میں کٹوتی کو لے کر سوشل میڈیا پہ خوب بحث چل نکلی ہے۔ ادبی حلقوں کی جانب سے بھی بلوچی اکیڈمی کی  گرانٹ میں کٹوتی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ بلوچی اکیڈمی کی جانب سے 2017-18کو کل 15کتابوں کی اشاعت ہوئی جن میں فقیر محمد عنبر کا چاگرد، اکبربارکزئی کی زبان زانتی، ڈاکٹر سلیم کرد کا یوسف عزیز مگسی اور بلوچستان ریفارمر، جان محمد دشتی کی وش اتنت عہدی دور بلوچانی اور دیگر اہم کتابیں شامل رہیں۔ اس کے علاوہ باہر سے بلوچستان آنے والے ادیب و دانشوروں نے بلوچی اکیڈمی کا دورہ کیا۔ جب کہ جنرل سیکرٹری کے مطابق بلوچی اکیڈمی کی جانب سے 600سے زائد لائبریریوں، اداروں یا افراد کو کتابوں کی مفت فراہمی عمل میں لائی گئی۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک اداروں کو کتابیں بھی بھیجی گئیں اور کتابیں پی ڈی ایف میں لاکر انہیں ویب سائیٹ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

1999کو جان محمد جمالی دورِ حکومت میں اکیڈمی کے ساتھ یہی رویہ رواں رکھا گیا اور اکیڈمی کی  گرانٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کی گئی۔ جس پر بلوچ ادیبوں کی جانب سے احتجاج ہوا تھا۔ اس عمل کو بلوچ ادیبوں کی جانب سے بلوچ دشمنی سے گردانا گیا تھا۔ وہی عمل موجودہ حکومت دہرا رہی ہے۔ گو کہ بلوچی اکیڈمی کو اپنا معیار بہتر بنانے کے لیے اب بھی بہت سے اقدامات  کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچی اکیڈمی کے اندر ریسرچ کی کمی ہے   ، زبان پہ کام کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سیکشن متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ رسم الخط جو بنیادی مسئلہ ہے اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
بلوچی اکیڈمی کی اب تک کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے حوصلہ افزا کہا جا سکتا ہے مایوس کن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے پہ نظرثانی کرے۔ بلوچی اکیڈمی کے حق میں مکمل گرانٹ کی منظوری دے تاکہ بلوچی زبان و ادب پہ کام رکے نہیں بلکہ بڑھتا رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply