کوئی لمبی چوڑی تحریر لکھنا مقصود نہیں ہے۔ شیخ ضیاء کے مضمون میں جہاں اہل علم کے لیے کچھ جوابات ہیں تو وہیں کچھ سوالات بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔ وہ سوالات جب میرے ذہن میں وارد ہوئے تو ان کے جوابات کی کھوج شروع کی اور جو کچھ ملا وہ آپ کے سامنے پیش ہے۔ کچھ اعتراضات ذاتی نوعیت کے لگتے ہیں، ظاہر ہے ان کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ جن میں حقائق کی کمی محسوس ہوئی ان کو کھولنے کی سعی کررہا ہوں۔
شیخ ضیاء الحق کا ایک اعتراض تقابل ادیان کے موضوع پر تھا کہ ’’ تقابل ادیان کا جو یہ تصور ہے کیا یہ درست ہے؟ کیا ہمارے اسلاف کے یہاں غیروں میں تبلیغ کے لئے تقابل ادیان کا یہ تصور موجود تھا؟ کیا اسلام جیسے سچے اور برحق مذہب کا تقابل ادیان باطلہ سے کیا جا سکتا ہے؟‘‘
سب سے پہلے تو عرض ہے کہ تقابل ادیان کا مقصود قطعاً ایسا نہیں ہے کہ دوسرے ادیان کو اسلام پر کسی بھی ناحیے سے غالب قرار دیا جائے بلکہ تقابل سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے مشہور مذاہب وادیان کا غیر جانبدارانہ مقابلہ، ان کے اصول وعقائد اور عبادات ورسوم کا غیر متعصبانہ مطالعہ ، تاکہ ہر ایک کی قدر وقیمت اور اس کے مسائل کا حسن وقبح معلوم کیا جاسکے اور اس کی روشنی میں اسلام کی عقلی ونقلی فضیلت دلائل سے ثابت کی جائے۔ تاکہ نئی نسلیں اور پڑھے لکھے ذہن اس پر شعوری ایمان لائیں۔ اور اس سے ان کی زندگیوں میں مطلوبہ تبدیلی واقع ہو۔
سلف کی کتابوں میں یہ تقابل کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے گو کہ ایک مستقل علم کی حیثیت سے اس کا ظہور دور جدید کی پیداوار ہے۔ نیز اس وقت تعلیمی میدان میں عموماً اور سعودی جامعات میں خصوصاً بہت سارے مقالات ایسے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں جن میں یہ تقابل موجود ہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے تحت چلنے والے ’’الجمعية العلمية السعودية لعلوم العقيدة والأديان والفرق والمذاهب” کی ویب سائٹ پر سے چند عناوین پیش خدمت ہیں:
• المسيح عيسى بن مريم عليه السلام بين القرآن والعهدين القديم والجديد: دراسة مقارنة (عیسیٰ بن مریم علیہما السلام قرآن اور عہد نامہ جدید وقدیم میں، ایک تقابلی جائزہ) جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ
• الملائكة والجن :دراسة مقارنة في الديانات السماوية الثلاث اليهودية والنصرانية والإسلام (تینوں آسمانی مذاہب میں فرشتوں اور جن کا تصور، تقابلی مطالعہ) جامعہ ام القری
• نزعة التجسيم عند اليهود من خلال القرآن الكريم والمصادر اليهودية – دراسة مقارنة (تجسیم باری تعالیٰ کا تصور یہود کے نزدیک، قرآن کریم اور یہودی مراجع کی روشنی میں : ایک تقابلی جائزہ) جامعۃ الملک خالد
یہ تین عناوین بطور نمونہ ذکر کیے گئے ہیں۔ مولانا ضیاء الحق صاحب کے قائم کردہ اعتراض کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے ذکر کے لیے قرآن کافی ہونا چاہیے، ’’کیا اس طرز عمل سے شرک وکفر کی غلاظتوں پر مشتمل ان کتابوں کی ثقاہت اور قداست لازم نہیں آتی ہے؟‘‘ عہد نامہ قدیم وجدید اور قرآن کے مابین کیا تقابل ہوسکتا ہے عیسی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں، یا پھر دیگر دونوں عناوین جن میں تینوں آسمانی مذاہب کے مراجع کی روشنی میں تقابل ہورہا ہے۔ مملکت کو تو اس قسم کے عناوین پاس کرنے پر پابندی عائد کردینی چاہیے چہ جائیکہ ’’تقابل‘‘ کے جرم میں شریک ہوکر یہ یونیورسٹیاں ان کتابوں کو مقدس اور ثقہ (بالفاظ ضیاء الحق) ثابت کررہی ہیں۔ فالی اللہ المشتکی۔
جناب موصوف یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو محرف آسمانی کتابوں کے نسخے جلا دینے کا حکم صادر فرمایا تھا، ذرا غور کریں کہ وہ اگر ان کتابوں سے توحید باری تعالیٰ بیان کرتے ہوئے دیکھتے تو ان کا طرز عمل کیا ہوتا؟
اسی روشنی میں اگر حضرت عمر ان محرف کتابوں سے عیسی مسیح، اور ملائکہ وجن اور مسئلہ تجسیم کا بیان دیکھتے تو آپ کا کیا طرز عمل ہوتا؟
شرعی حقیقت یہ ہے کہ اہل علم کے لیے تورات وانجیل وغیرہ کا مطالعہ جائز ہے خصوصاً اس صورت میں جب مخالف پر رد کی ضرورت ہو یا پھر انہیں کی کتابوں سے انہیں دین حنیف کی طرف مائل کرنے کی ضرورت ہو۔ ضیاء الحق صاحب نے لجنہ دائمہ کا فتوی نقل کرکے صرف ’’رد‘‘ کے لیے مطالعہ جائز کیا ہے، کاش وہ علامہ ابن حجر کی یہ عبارت بھی ایک بار پڑھ لیتے کہ ’’راسخ اہل علم کے لیے تورات وانجیل کو دیکھنا جائز ہے، خصوصا ًجب مخالف پر رَد کی ضرورت آن پڑے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ قدیم وجدید ائمہ کرام نے تورات سے نقل کیا ہے، اور یہود کو ان کی کتابوں سے محمد ﷺ کی تصدیق کے لیے قائل کیا ہے، اگر یہ اعتقاد جائز نہ ہوتا تو اس کثرت سے وہ یہ کام نہ کرتے۔‘‘ (فتح الباری: ۱۳/525-526)
عربی عبارت بھی پیش خدمت ہے:
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى :
” بخلاف الراسخ ؛ فيجوز له النظر في التوراة والإنجيل ، ولا سيما عند الاحتياج إلى الرد على المخالف ، ويدل على ذلك نقل الأئمة قديما وحديثا من التوراة ، وإلزامهم اليهود بالتصديق بمحمد صلى الله عليه وسلم بما يستخرجونه من كتابهم ، ولولا اعتقادهم جواز النظر فيه ، لما فعلوه وتواردوا عليه ” انتهى من ” فتح الباري ” ( 13 /525 – 526) .
مولانا وشیخ ضیاء الحق صاحب علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ذیل کا کلام بھی بغور پڑھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیں کہ اگر اہل کتاب یا دیگر ادیان کی کتابوں میں حضور سے متعلق کچھ وارد ہوا ہے تو اس سے استشہاد کرنا کیسا ہے، خصوصاً بین القوسین کی عبارت:
قال ابن تيمية رحمه الله تعالى :
” وإذا حصل من مسلمة أهل الكتاب ، الّذين علموا ما عندهم بلغتهم ، وترجموا لنا بالعربيّة : انتفع بذلك في مناظرتهم ومخاطبتهم ، كما كان عبد اللّه بن سلام ، وسلمان الفارسيّ ، وكعب الأحبار ، وغيرهم ، يحدّثون بما عندهم من العلم ، (وحينئذ يستشهد بما عندهم على موافقة ما جاء به الرّسول ، ويكون حجّة عليهم من وجه ، وعلى غيرهم من وجه آخر)، كما بيّنّاه في موضعه ” انتهى من ” مجموع الفتاوى ” (4/109 – 110) .
اور اس کی واضح مثال بھی حدیث صحیح میں مروی ہے جب یہود نے رجم کا انکار کیا تھا تو انہی کی کتاب سے ان کے خلاف حجت قائم کی گئی تھی۔ اس نص صریح اور پھر کلام ائمہ کے بعد لجنہ دائمہ کا فتویٰ جس میں صرف بیان تحریف کے لیے پڑھنے کی اجازت ہے، بے معنی ٹھہرتا ہے، اور واضح ہوتا ہے کہ ان محرف کتابوں کے ذریعہ بھی ائمہ کرام نے اہل باطل کے سامنے نبی مکرم ﷺ کی حقانیت کو بیان کیا ہے۔ نہ معلوم ڈاکٹر ذاکر نائک کے اس عمل سے اور غیر مسلموں کو نبی اکرم ﷺ سے واقف کرانے سے آنجناب کو کیا تکلیف پہنچی ہے اور کون سی چیز منہج سلف کے خلاف چلی گئی ہے۔ اللہ اعلم۔
اس موضوع پر اور بھی کافی وشافی دلائل ہیں۔ سلف میں سے ایک اور مثال علامہ ابن القیم کی ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری ہے، جس کی شروعات میں خود امام صاحب لکھتے ہیں کہ اس کتاب کا دوسرا جزو نبی اکرم ﷺ کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے ہے جس کے لیے ہر قسم کے دلائل دیے گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک دلیل ’’ وَبِشَارَاتِ الْأَنْبِيَاءِ بِخَاتَمِهِمْ، وَاسْتِخْرَاجِ اسْمِهِ الصَّرِيحِ مِنْ كُتُبِهُمْ، وَذِكْرِ نَعْتِهِ وَصِفَتِهِ وَسِيرَتِهِ مِنْ كُتُبِهِمْ، وَالتَّمَيُّزِ بَيْنَ صَحِيحِ الْأَدْيَانِ وَفَاسِدِهَا، وَكَيْفِيَّةِ فَسَادِهَا بَعْدَ اسْتِقَامَتِهَا، وَجُمْلَةً مِنْ فَضَائِحِ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ‘‘ کیا اس کے بعد مزید کچھ کہنے کے لیے رہ جاتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کا ان محرف کتابوں کے ذریعہ اسلام کی حقانیت بیان کرنا انکی قداست اور ثقاہت کو لازم نہیں کرتا۔ ہدایۃ الحیاری میں کچھ ان کتابوں کے نصوص بھی ذکر کرکے اسلام سے ان کی حقانیت درشائی گئی ہے، مثلا ایک فصل میں امام ابن القیم لکھتے ہیں:
’’ وَطَابِقْ بَيْنَ قَوْلِ الْمَسِيحِ: أَنَّ أَرَكُونَ الْعَالَمِ سَيَأْتِيكُمْ، وَقَوْلَ أَخِيهِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، آدَمُ تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا خَطِيبُ الْأَنْبِيَاءِ إِذَا وَفَدُوا، وَإِمَامُهُمْ إِذَا اجْتَمَعُوا، وَمُبَشِّرُهُمْ إِذَا يَئِسُوا، لِوَاءُ الْحَمْدِ بِيَدِي، وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي.‘‘ (۱/340)
واضح رہے کہ تقابل ادیان پر علمائے اہل حدیث کی مستقل تصانیف ہیں جن سے انہوں نے اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور باطل کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ ذیل میں چند کتابیں نمونہ کے طور پر پیش خدمت ہیں:
1- تقابل ثلاثہ از مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا نے اس کتاب میں ’’قرآنا عربیا غیر ذی عوج‘‘ کا تقابل تورات وانجیل کے ساتھ ساتھ آیت بہ آیت (جدول میں) کیا ہے اور تینوں کتابوں کے الہامی مضامین اصل الفاظ میں دکھا کر قرآن کی برتری ثابت کی ہے۔
2- قرآن اور دیگر کتب، از مولانا امرتسری، سولہ صفحے کے اس کتابچے میں آپ نے قرآن کا تقابل دوسری کتابوں سے کرکے قرآن کی برتری ثابت کی ہے۔
3- جہاد وید، از مولانا امرتسری، اس کتاب میں جہاد کا ثبوت وید منتروں سے پیش کرکے اسلامی جہاد پر آریوں کی لب کشائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردی گئی۔
4- محمد رشی، اس رسالہ میں پیغمبر اسلام کی نبوت کا ثبوت وید، تورات اور انجیل سے دیا گیا ہے۔
5- بشارات محمدیہ، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، محمد رشی اسی کتاب کی تلخیص ہے۔
6- نکاح آریہ، یہ کتاب نکاح کے موضوع پر آریہ سماجی اور اسلامی تعلیمات کا تقابل ہے۔
مولانا قاضی سلیمان منصور پوری علیہ الرحمہ کا تخصص بھی تقابل ادیان تھا، آپ کی سوانح پر مولانا إسحاق بھٹی نے لکھا ہے جس کا ایک باب مطالعہ ادیان (ص۲۸۳ سے شروع) قابل مطالعہ ہے۔
پھر ڈاکٹر ذاکر نائک نے جس فن میں دعوت شروع کی ہے اس میں وہ صاحب علم ہیں، علمائے کرام اور عوام بھی دوسرے ادیان کی بابت ان کی لکھی گئی کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔
یہ درست بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب شرعی علوم کے ماہر نہیں ہیں، اس وجہ سے وہ بہت سارے مقامات پر ٹھوکر کھاتے رہتے ہیں یا پھر کبھی فریق مخالف کو اپنی بات سمجھانے کے لیے ایسے دلائل کا سہارا لیتے ہیں جو فی الواقع از روئے شرع درست نہیں ہوتے، مگر مناظرہ کا ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے۔ اب ان کی ہر بات کو لے کر بال کی کھال نکالنا اور پھرا نہیں نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔ اس کے پس پشت خراب نیت کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ خود صاحب مضمون ضیاء الحق صاحب کو ایک مدنی عالم دین نے بتلایا کہ جب ذاکر نائک نے نبی ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لانے والے کے لیے جنت کے امکان کی بات کی تھی تو بعد میں ان کی اصلاح کی گئی اور انہوں نے اسے قبول بھی کیا، اور پھر دبئی کے ایک پروگرام میں انہوں نے اس بات سے رجوع بھی کیا۔ یہ بات واضح ہونے کے بعد بھی مضمون نگار نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر صاحب کی غلطیاں پکڑنے کے لیے ذکر کیا۔ اس سے کیا معلوم ہوتا ہے؟
رہی بات دعوت وتبلیغ میں زیادہ خرچ کا معاملہ تو ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہ کیمرے وغیرہ کوالٹی بہتر بنانے کے لیے ہیں۔ اگر باطل میں ان چیزوں کا استعمال ہورہا ہے تو اہل حق کا اسے حق کے لیے استعمال کرنا اسراف کے ضمن میں کیسے آگیا؟ کیا مضمون نگار نے اپنے ہندوستان میں تھوک کے بھاؤ ہر دوسرے روز ہوتی کانفرنسوں اورجلسوں اور ان کے اخراجات پر نظر دوڑائی ہے؟ پیشہ ور مقررین کے نذرانوں کو کبھی ’’اسراف‘‘ کے ضمن میں رکھنے کا ’’کلمہ حق‘‘ کہا ہے؟ دعوت کو ماڈرن انداز میں پیش کرنے کا کام اس وقت کافی چینل کررہے ہیں جو ’’منہج‘‘ کے لحاظ سے درست ہیں، ان پر کوئی نکیر ہوئی ہے؟ مسئلہ یہی ہے کہ جب ایک شخصیت کسی غلطی کی مرتکب ہوتی ہے تو اصلاح أحوال کے بجائے ہم سب اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں، تمنا کرتے ہیں کہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہو اور ہمارا سیال قلم ٹھاٹھیں مارنے لگے، اور اس کی روانی میں ہم خود اپنے اسلاف کی تعلیمات کو فراموش کردیتے ہیں۔ کتاب وسنت اور ائمہ سلف کی آدھی ادھوری عبارتیں اٹھا کر انہیں مطعون کرتے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں ہوا ذاکر نائک کے پاکستان کے پروگرام میں ایک شخص نے خود کو عیسائی ظاہر کرکے سوال پوچھا پھر بتایا کہ وہ در حقیقت مسلمان ہے، ذاکر نائک نے اسے کلمہ پڑھنے کے لیے کہا، فوراً ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نرائن پوری نے اسی ’’خارجی‘‘ منہج سے تعبیر کرتے ہوئے لمبی چوڑی پوسٹ لکھی۔ جب کہا گیا کہ حدیث میں خود غیر اللہ کی قسم کھانے والے کو بھی کلمہ پڑھنے کو کہا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے یہ وضاحت بھی کی کہ آدمی اس عمل سے کافر نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کفارے کی ایک شکل ہے، لیکن ڈاکٹر ذاکر نائک پر تھوپنے کی کوشش کی کہ وہ اس شخص کو اسلام سے خارج سمجھ کر کلمہ پڑھوا رہے ہیں، حالانکہ اس طرح کی بات کہیں نہیں تھی۔ بلکہ ذاکر نائک کا عمل خود امام نووی کی اس حدیث کی شرح کے مطابق تھا، امام نووی لکھتے ہیں: ’’إذا حلف باللات والعزى وغيرهما من الأصنام ، أو قال : إن فعلت كذا فأنا يهودي أو نصراني أو بريء من الإسلام ، أو بريء من النبي صلى الله عليه وسلم أو نحو ذلك ، لم تنعقد يمينه ; بل عليه أن يستغفر الله تعالى ويقول : لا إله إلا الله ولا كفارة عليه ، سواء فعله أم لا۔‘‘ (شرح مسلم للنووی) پس خود کو عیسائی کہنے کے بعد اگر اس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا یا اس سے ذاکر نائک نے پڑھوا لیا تو کیا یہ خوارج کا فہم ہوگیا؟
اللہم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ، آمین۔
تحریر بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں