پاکستان اور مسلمانانِ عالم کی امامت

بیسویں صدی کے اوئل میں جب ایک طرف بوڑھی ترک عثمانی خلافت میں اللہ رب العزت کے دین اور مسلمانانِ عالم کے حقوق کا بار اٹھانے کی سکت ختم ہوتی جا رہی تھی تو دوسری طرف مسلمانانِ ہند غیر کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوتِ بازو آزما کر بے بس ہو چکے تھے اور انھیں ہر جانب بند دروازہ ،بند گلی ہی نظر آتی تھی ۔ایسے میں چند دور اندیشوں کی نگاہِ انتخاب اُن خرقہ پوشوں کی طرف اٹھتی ہے جن کے دلوں میں عرفانِ خداوندی اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ پوری آب و تاب سے جل رہے تھے، جن کے بارے میں اقبال رح فرماتے ہیں کہ "یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں آستینوں میں "اور فرماتے ہیں کہ" نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں"۔ جب عوام کی دعائیں شرفِ قبولیت سے محروم ہو رہی تھیں جب جوانانِ ہند کے حوصلے ٹوٹ رہے تھے طاقت اور قوت دم توڑ چکی تھی تب اُمت میں سے مولانا جوہر رح جیسے مدبروں نے حضور پیر مہر علی شاہ رح جیسے خاصانِ خدا کا رُخ کیا اور ان سے درخواست کی کہ اُمت کی خلاصی کے لیے دعا فرمائیں۔

آخر کار اُن محرمِ راز ہستیوں کی دُعائیں رنگ لائیں اور رحیم و کریم رب کی رحمت نے جوش مارا تو مسلمانوں کی امامت اور راہنمائی کے لیے مسلمانانِ ہند کا انتخاب کیا گیا۔ ایک بار جب یہ انتخاب آسمانوں میں ہو گیا تو زمین پر خودبخود حالات مسلمانانِ ہند کے حق میں ہونا شروع ہو گئے ،غیبی مدد آن پہنچی اور یورپی اقوام دوسری جنگِ عظیم کی صورت میں ایک دوسرے سے ہی الجھ پڑیں، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی امامت کا سورج مغرب (ترک عثمانی خلافت) میں غروب ہو کر مشرق( پاکستان ) سے طلوع ہوا اور 14 اگست 1947ء کو اللہ کے ولیوں کی دعاؤں کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک نوزائیدہ ریاست کے طور پر ابھرا۔ اللہ کی ہمیشہ سے سنت رہی ہے کہ اس کی رحمت کے ساتھ اس کی آزمائشیں بھی اترتی ہیں اور اس کی آزمائشوں سے اس کے فضل کے بغیر کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ پاکستان جب سے دنیا کے نقشے پر ابھرا ہے تب سے آزمائشوں کے ایک طویل سفرسے گزر رہا ہے ۔ ہم نے بھی بنی اسرائیل کی طرح اللہ سے کیا ہوا وعدہ بھلا دیا اور جس کلمے اور مذہب کے نام پر ملک حاصل کیا تھا اس کے نظام سے انحراف کیا، لازم تھا کہ ہم پر بھی بنی اسرائیل کی طرح عذاب مسلط کیا جاتا مگر سلام ہے ماؤں کے ان بیٹوں پر جنھوں نے اپنی جانوں اوراپنے خون کا نذرانہ دے کر قوم کے اور حکمرانوں کے گناہوں اور جرائم کا کفارہ ادا کیا اور ابھی بھی کر رہے ہیں ۔

مسلمانوں کی امامت جب عربوں سے ترکوں کو منتقل ہوئی تو ترکوں نے ایک ہی دن میں عروج حاصل نہیں کر لیا تھا بلکہ ان کے عروج کا یہ سفر کئی صدیوں کا سفر تھا۔ اب یہی امامت مسلمانانِ ہند کو منتقل ہوئی ہے تو ہم بحیثیت قوم جلد باز کیوں ہو رہے ہیں؟ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ ہم ترقی پذیر ہیں ،زوال پذیر نہیں ،ہمارا سفر عروج کی جانب ہے، ہم عروج یافتہ نہیں، کیونکہ عروج کے بعد تو زوال ہے۔ اب بھی کہیں کسی جنگل میں کسی بیابان میں کسی پہاڑ کے غار میں کسی کھنڈر اور ٹوٹے ہوئے مکان میں بارگاہِ خداوندی میں ایسے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ رہے ہیں جن کی دعائیں رد نہیں جاتیں۔ اگر غور کریں تو باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کتنی ہی بار مملکتِ پاکستان پر منڈلاتے خطرات کے بادل برسے بغیر ٹلتے آ رہے ہیں۔ یہ اللہ ہی کی مہربانی و فضل اور اولیاء کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ ہم یومِ آزادی پر ناچ کر گا کر ڈھول باجے بجا کر آتش بازی کر کے موٹر سائیکلوں کو سڑکوں پر بھگا کر منا تے ہیں۔ خدارا! رب کے جلال کو آواز مت دو ،ہم سے سیانے تو یہود تھے جو صدیوں تک فرعون سے آزادی کا دن روزہ رکھ کر مناتے آ رہے تھے۔ یقیناً یومِ آزادی وہ دن ہے جس دن اللہ کی رحمت مسلمانان ہند پر موسلادھار بارش کی طرح برسی تھی، اب ہمیں اس دن کو یاد کر کے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تو کیا اللہ کا شکر ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے جو کچھ ہمارا میڈیا کر رہا ہے ،دکھا رہا ہے ،یا بحیثیت مجموعی ہم سب کر رہے ہیں؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اس دن اللہ کا فضل تلاش کرنا چاہیے، نوافل کے ذریعے صدقات و خیرات کے ذریعے، کیونکہ آگے چل کر اس ملک سے بقول علامہ اقبال رح نہ صرف مسلمانانِ عالم کا بلکہ دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا ۔ اب یہ وقت کھیل تماشوں کا نہیں ہے بلکہ اپنی تمام تر توانائیوں کو علم و عمل اور ملکی و ملی تعمیر میں خرچ کرنے کا وقت ہے، دشمن جان چکا ہے کہ مستقبل میں اسلام کا قلعہ پاکستان ہو گا اور اس نے ابھی سے اپنی تخریبی کارروائیوں کو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے پر مرکوز کر رکھا ہے ۔ آنکھیں کھولو میرے ہم وطنو! تیاری کا وقت کم ہے اور معرکہ قریب ہے۔ اللہ ملکِ پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور اللہ ہمیشہ اسے ایسے نفوسِ قدسی عطا کرتا رہے کہ جن کی دعاؤں کے طفیل مسلمانانِ پاکستان اللہ کے فضل سے کبھی محروم نہ ہوں ۔ آمین
پاکستان زندہ باد!

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply