ہم نے صحافت کا درس لیتے ہوئے یہی سیکھا کہ ایک قلم کار کو طاقت والوں کی نہیں، کمزوروں کی آواز بن کر لکھنا ہے۔ ظالم کی نہیں، مظلوم کی داد رسی کرنی ہے۔ حکومت کی نہیں، رعایاکی خبر گیری کرنی ہے۔اسے حکمراں کے فیصلہ کی تعریف نہیں کرنی بلکہ اسے یہ بتانا ہے کہ اس فیصلہ سے رعایاکو کیانقصان ہوا ہے۔لیکن مجھے یہ دیکھ کردکھ ہوا کہ جنہوں نے ایک عرصہ تک اپنی خون آلود شہ سرخیوں سے ہندوستانی مسلمانوں کو ظلم اور ظالموں کے خلاف بولنا اور لکھنا سکھایا آج انہی کے بولنے اور لکھنے کا انداز بدل گیا ہے۔آج وہ کمزوروں کی نہیں بلکہ طاقت والوں کی زبان بول رہے ہیں۔وہ ٹی وی مباحثوں میں کہہ رہے کہ “میں مودی کے 56انچ کے سینہ والی بات پر یقین نہیں کرتا تھا لیکن نوٹوں کے فیصلہ کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ مودی واقعی 56انچ کا سینہ رکھتے ہیں۔”
مجھے نہیں معلوم کہ کسی سیاسی پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے چند گھنٹوں کے اندر اندر 500اور ہزارکے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلہ کی حمایت نہ کی ہو۔لیکن یہ بھی درست ہے کہ حکمراں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کراپوزیشن کی ہر پارٹی نے ‘یہاں تک کہ حکومت کی اتحادی شوسینا نے بھی حکومت کے طریقہ کار کوغلط قراردیا۔ اس فیصلہ کے نفاذ کے طریقہ کارنے اس ملک کے 90فیصد سے زیادہ شہریوں کو خون کے آنسو بہانے پر مجبور کردیاہے۔ہندوپاک کے درمیان ہونے والی جنگوں نے بھی اس پیمانے پر لوگوں کو پریشان نہیں کیا تھا۔کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد نے شاید اسی لئے ایوان میں یہ کہہ دیا کہ نوٹ بدلوانے کی کوششوں میں ناکامی کی وجہ سے جتنے لوگ مرچکے ہیں اتنے لوگ توپاکستان کے دہشت گردوں کے ذریعہ اڑی میں حملہ کے نتیجہ میں بھی نہیں مرے۔مجھے اس بیان کی معقولیت پر کوئی بات نہیں کرنی ہے۔لیکن کیا اس بیان سے ہندوستان کے کروڑوں شہریوں کو ہونے والی پریشانی کی شدت کا اندازہ نہیں ہوتا؟
آزادی کے بعدملک میں برپا ہونے والی کسی بھی بڑی سے بڑی ہڑتال نے بھی شہریوں کو اتنا دکھی نہیں کیا۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے گوشہ گوشہ میں فسادات اور بے چینی برپا ہوئی تھی۔لیکن اس موقع پر بھی لوگ اتنی ہمہ جہت اور مہلک دشواری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے۔نوٹ بدلنے اور پرانے نوٹ جمع کرنے کے چکر میں کیا امیر کیا غریب‘کیا مرداور کیا عورت‘مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک‘ہر کوئی پریشان حال ہے۔8نومبر کے بعد سے اب تک ملک بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں متاثر ہوچکی ہیں۔درجنوں مریضوں کی موت کی خبریں آچکی ہیں۔درجنوں حاملہ عورتیں ہسپتال لے جاتے ہوئے راستہ میں ہی دم توڑچکی ہیں۔درجنوں کو تو ایمبولینس ہی نصیب نہیں ہوسکی ۔اسی طرح کتنے ہی نوزائیدہ بچوں کے مرنے کی خبریں آئی ہیں۔بنکوں اور اے ٹی ایم مشینوں کے باہر قطار میں لگے ہوئے کتنے ہی بزرگ شہری اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ دہلی میں ہی ایک خاتون کے ذریعہ خود کشی کی بھی خبر ہے۔اس نے اپنے رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ تین دن سے پیسے بدلوانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اب اور ہمت نہیں ہے۔بہت سے رشتوں کے ٹوٹنے کی بھی خبریں ہیں۔لوگ دعا کر رہے ہیں کہ ان کے گھر مہمان نہ آئیں۔ہزاروں بچے بغیر دودھ پئے ہی اسکول جارہے ہیں۔امریکہ کے ایک انتہائی معتبرنیوز پورٹل ’ہفنگٹن پوسٹ‘نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کی روسے ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اب تک کئی درجن اموات ہوچکی ہیں۔ہفنگٹن پوسٹ امریکہ میں بس جانے والے ہندوستانی نوجوانوں کی نیوز پورٹل ہے۔ اس سائٹ نے بہت مقبولیت اور معتبریت حاصل کرلی ہے اور اس کی وجہ سے وہاں کے روایتی روزناموں کی اشاعت پر بڑا فرق پڑا ہے۔اس سائٹ نے مزید لکھا ہے کہ مودی حکومت کے اس فیصلہ سے پورا ملک افراتفری کا شکار ہوگیا ہے۔بین الاقوامی اخبارات ہندوستان کی اس صورتحال پر اداریے تحریر کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ میرے اس کڑک فیصلہ سے غریب لوگ سکون کی نیند سورہے ہیں اور کالے دھن والے نیند کی گولیاں لینے پر مجبور ہیں۔حیرت ہے کہ کیمرہ نے دکھادیا ہے کہ دہلی میں ایک اے ٹی ایم کے باہر 60سال سے اوپر کی ایک عورت دہاڑے مار مار کر رورہی ہے۔اس کا شوہرپانچ سو کے چندنوٹوں کو پھاڑکراب اپنے کپڑے پھاڑ رہا ہے۔مگر دہلی میں بیٹھے ہوئے وزیر اعظم کو اس کی خبر نہیں ہے۔شاید وہ اسی کو سکون کی نیند سونا سمجھتے ہیں۔ جے پور کے ایک گاؤں میں ایک نوجوان اپنے نوزائیدہ بچے کی نعش اپنے ہاتھوں میں لئے کھڑا ہے۔وہ اپنی بے حال بیوی کویہ بتانے کا حوصلہ کھوچکا ہے کہ ان دونوں نے اپنا معصوم بچہ ہمیشہ کیلئے کھودیا ہے۔سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بچہ کی پیدائش کے فوراً بعد اس سے کہہ دیا تھا کہ اپنے بچے کو فوراً جے پور کے بڑے ہسپتال لے جاؤ۔ ایمبولینس سے جے پور تک 1100روپیہ کا کرایہ طے ہے۔مگر کوئی ایمبولینس ڈرائیور500کے نوٹ کے بدلے چلنے کو تیار نہیں ہے۔یہ نوجوان باپ ایک کے بعد ایک ایمبولینس ڈرائیور کے سامنے گڑ گڑاتا ہے لیکن سب بے سود ۔آخر چار گھنٹے کی تگ ودوکے بعد اور کچھ رشتہ داروں کے ذریعہ 100-100کے گیارہ نوٹوں کا انتظام ہوجانے کے بعد جب ایمبولینس بچہ کو لے کر چلی تو اس کی روح بھی پرواز کرگئی۔یہ نوجوان باپ یہ سوچ کر کہ شاید بڑے ہسپتال والے اس بچہ کے اندر جان ڈال دیں آگے بڑھتا رہا۔اب وہ اپنی ادھ مری بیوی کے پوچھنے پراسے بتاتا ہے کہ ہمارے بچہ کا علاج چل رہا ہے۔کیا وزیر اعظم اس عورت کی بے کلی کو سکون بتارہے ہیں؟یا وہ ایسے ہی لوگوں کو کالے دھن والا سمجھتے ہیں۔
اخبارات اٹھاکر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے کہ جو اس آمرانہ اور عاجلانہ فیصلہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ صفحات کے صفحات اسی طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔رپورٹوں کی اتنی تعدادہوگئی ہے کہ سب کے اعدادوشمار ایک جگہ جمع کرکے کوئی ایک جامع رپورٹ بھی تیار کرنی مشکل ہے۔مگر حکمرانوں کے چہرے پر کسی فکر کے آثار نہیں ہیں۔وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈروں کی تقریروں اور مطالبات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔کلکتہ ہائی کورٹ نے اس صورت حال کا سخت نوٹس لیا ہے۔اب تو سپریم کورٹ کا رخ بھی کچھ سخت ہوا ہے۔خدا کی ایک مخلوق ہے جو کہتی ہے کہ اس مشکل سے نکلنے میں معلوم نہیں کتنا عرصہ لگے گا۔لیکن خدا کی کتاب اس سلسلہ میں ہماری رہ نمائی کرتی ہے۔اس وقت صرف تین پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
یہ کرۂ ارض خدا کی نافرمانیوں اور گناہوں سے بھر گیا ہے۔ہندوستان کی سرزمین بھی اس سے اچھوتی نہیں ہے۔یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب اس کے بندے اور خاص طورپر وہ جن کی ذمہ داری دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تھی‘خودسرکشی میں ملوث ہوجائیں تو وہ ان پر ظالموں کو مسلط کردیتا ہے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے وتلک الایام نداولہا بین الناس‘اور ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان گھماتے پھراتے رہتے ہیں۔وقت کا پہیہ آگے بڑھے گا تو مشکل دور ہوجائے گی۔اسی طرح مومنین کو بشارت ہے ان مع العسر یسرا‘کہ بلاشبہ سختیوں کے بعد آسانیاں ہیں۔ تاریخ اسلامی میں بھی ایسے اجتماعی مشکل حالات کا ذکر ملتا ہے۔لیکن اسی کے ساتھ تاریخ اسلامی یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے حالات میں ایمان والوں کی کیا ذمہ داری ہے۔انہیں چاہئے کہ ایک طرف تو وہ رجوع الی اللہ کریں۔اور دوسری طرف اللہ کی مخلوق کی جو مددکرسکتے ہوں کریں۔میں نے تقریباً سو سے زائد رپورٹیں پڑھی اور دیکھی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پریشانی کے اس مجموعی دور میں بھی ہندو لڑکے والوں نے شادیاں توڑ دی ہیں کیونکہ لڑکی والوں کے پاس اب اضافی میزبانی کیلئے پیسوں کا انتظام نہیں ہے۔اس موقع پر مسلمانوں کو یہ عزم کرنا چاہئے کہ وہ جہیز کے بغیر اپنے بیٹوں کی شادیاں کریں گے اور لڑکی والوں سے کوئی اضافی خرچ نہیں کرائیں گے۔گزشتہ جمعہ کواوکھلا کی مسجد اصلاح کے امام قاری عارف جمال کی دوبیٹیوں کا نکاح مسجد میں اسی سادگی کے ساتھ ہواہے۔ان کے دونوں دامادکے گھرانے آسودہ حال ہیں لیکن ایم بی اے اور سی اے دامادوں نے امام کی بیٹیوں کوسادگی کے ساتھ قبول کرکے ایک مستحسن مثال قائم کی ہے۔ان دونوں کے گھروالوں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اس موقع پر مجھے پرانی دہلی کی ایک تنظیم ’مرہم‘کی خدمت کا ذکرضروری معلوم ہوتا ہے جس نے پرانی دہلی کی ملی جلی آبادیوں میں بنکوں کے باہر پریشان حال لوگوں کیلئے جھاڑو لگاکر دریاں بچھائیں اورپینے کے پانی کا انتظام کیا۔اس عمل کا اچھا اثر ہوا ہے اور لوگوں نے مسلم نوجوانوں کی اس جماعت کی توصیف کی ہے۔اس موقع پر جب سب پریشان ہیں مسلمان اپنے اخلاق سے پورے ملک کا اور خاص طورپرمخالفین کا دل جیت سکتے ہیں۔مسجدوں اور مدارس کے پاس جہاں بنکوں کے باہر لوگ قطار میں لگے ہوئے ہوں انہیں کچھ اسی طرح کی راحت پہنچائی جاسکتی ہے۔کچھ نہ سہی مدارس کے طلبہ اور مسجدکے نمازیوں کے ذریعہ پریشان حال لوگوں کو پانی پلانے کا ہی نظم کیا جاسکتا ہے۔یہ وقت اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر توبہ کرنے کا بھی ہے۔یہ وقت اس عزم اور یقین کو دوہرانے کا بھی ہے کہ ظالم کی رسی کتنی ہی دراز سہی خالق کائنات اس رسی کو جھٹکا ضرو ردے گا اور اس وقت ظالم کو کوئی نہیں بچاسکے گا۔یقیناً ہم اس وقت دنیاوی تاریکی کا شکار ہیں لیکن ہمیں آخرت کی تاریکی سے بچنے کا بھی کچھ انتظام کرنا چاہئے۔یہی وہ وقت ہے جب ہم خداسے کچھ مانگ سکتے ہیں کہ اتنا اضطرابی وقت شاید پھر کبھی آئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں