ہندوستان میں سیکولرازم کا تصور۔۔ابھے کمار

اکثر ہم سیکولرازم لفظ کو سنتے ہیں۔ اخبار ، کتاب ، سیاسی ریلی، پارلیمنٹ، عدالت اور میڈیا میں بار بار اس کا نام آتا ہے۔ ہمارے آئین کی تمہید میں بھی سیکولر، جو کہ سیکولرازم کی خوبی ہے، کا ذکر ہے۔ انگریزی لفظ سیکولرازم کا معقول ہندی یا اردو ترجمہ کیا ہونا چاہیے؟ اس پرایک رائے نہیں ہے۔ کچھ لوگ اسے دھرم نِرپیکشتا کہنا پسند کرتے ہیں ، تو کچھ لوگ پَنتھ نِرپیکشتا کو زیادہ صحیح مانتے ہیں۔

دراصل سیکولر لطظ لاطینی  زبان سے آیا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے “دنیاوی”۔ جو بھی چیز آخرت اور روحانیت سے تعلق نہیں رکھتی وہ سیکولر حلقہ کےاندر  آتی ہے۔ سیکولر ازم ایک معیاری تصور ہے، جو ریاست اور مذہب کے بیچ دیوار کھڑی کرنے کی بات کہتا ہے۔ جدید دور سے پہلے مذہب کا حلقہ وسیع تھا اور  دینی  اور دنیاوی دونوں معاملوں میں اس کی بڑی مداخلت تھی ۔ مگر جدید یت نے سیاست اور دین کو الگ کرنے کی بات پر زور دیا۔ کسی فرد کو مند ر جانا ہے ، یا مسجد میں عبادت کرنی ہے، یہ اس کا ذاتی معاملہ قراد دیا گیا۔اب مذہبی اداروں کو صرف مذہبی معاملوں میں ہی دخل اندازی کر نے کی اجازت دی گئی، جبکہ سیکولر اور دنیاوی امور کی ذمہ داری ریاست کے سپرد کی گئی۔ آج بھی جب کوئی پنڈت یا مولوی کسی لیڈر کے لیےووٹ مانگتا ہے یا کسی پارٹی کی حمایت کرتا ہے تو اکثر اس کی مخالف میں لوگ یوں کہتے ہیں: ” سیاست سے دور رہیے”۔

ریاست اور مذہب کے بیچ دیوار کھڑی کر دینا سیکولر ازم کا ایک اہم جزو  ہے۔ سیکولرازم کا یہی تصور امریکہ میں پایا جاتا ہے۔یاد رہےکہ ۱۵ اور ۱۶ ویں صدی میں یورپ میں بڑا بدلاؤ ادیکھا گیا جب عہد وسطیٰ کا خاتمہ ا ور یورپ میں نشاہ ثانیہ کا آغاز ہو ا۔ ادب و علم کے حلقہ میں ایک انقلاب محسوس کیا گیا۔ لوگوں کی سوچ و فکر بدل رہی تھی۔ مذہب کی جگہ انسان لے رہا تھا۔ آسمانی دنیا کی جگہ اس دنیا کی بات ہو رہی تھی۔ الوہیت، چرچ، مذہبی پیشوا کی جگہ انسان ، دنیاوی امور، مادیت ، سائنس لینے لگی۔ روز نئی نئی ایجادات ہونے لگی ۔ نئے نئے ملکوں کی جستجو ہونے لگی، اور اس کے ساتھ نوآبادیت کی کالی تاریخ بھی شروع ہوئی۔ دین کو چھوڑ کر باقی سارے معاملوں میں ریاست فیصلہ لینے لگی۔ تجارت اور محصول پر ریاست کا قبضہ ہو گیا۔ تشدد کا استعمال کرنے کا واحد حق ریاست کو ہی ملا۔مذہبی قانون جو پہلے انسان کے ہر شعبہ کو طےکرتا تھا و ہ صرف ان کے ذاتی معاملوں کو طےکرنےلگا، جبکہ ریاست کے  سیکولر قوانین تمام شہریوں کی عوامی زندگی کو متاثر کرنے لگے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کلاسیکی زبانوں کی جگہ دیسی، عوامی یا مقامی زبان کو اہمیت دی جانے لگی۔ یورپ میں لاطینی کی جگہ انگریزی، فرینچ جیسی غیر کلاسیکی زبانیں ریاست کی سرپرستی پانےلگیں۔قوم ، زبان کی بنیاد پر قومی ریاست کا وجود سامنے آنے لگا۔ قومیت ایک بہت بڑا طاقتور نظریہ بن کر اُبھری ۔ شہریت کا بھی تصور سامنے آیا اور لبرل فلسفی اس بات پر زور دینےلگے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کو اپنے تمام شہریوں کویکساں دیکھنا چاہیے اور ان کے لیے یکساں قانون اور پالیسی بننی چاہیے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یورپ میں عہد وسطیٰ میں مذہب کا رول بہت ہی بڑا تھا۔ اس زمانہ میں مذہبی ادارے ہی لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے تھے۔ پہلے مذہب کے نام پر جنگیں بھی ہوتی تھیں۔ عیسائیت کے اندر بہت سارے فرقے اور مسلک تھے ، جن کے بیچ بہت خون بہا۔ اس لڑائی کو ختم کرنے کے لیے بین المذاہب اور مذہب کے اندر موجود مختلف مسلکوں کے درمیان امن اور صلح کی بات ہونی شروع ہوئی۔ سیکولرازم کا تصور بھی اسی پس منظر سے نکلا ہے۔ لوگ مذہب کے نام پر نہ لڑیں، مذہب کے بیچ  ہم آہنگی پیدا کی جائے، ریاست اور مذہب کے بیچ میں دیوار کھڑی کر دی جائے، ریاست کا اپنا خود کا کوئی مذہب نہیں ہو، ریاست کی نظروں میں تمام شہری برابر ہوں ، ریاست دھرم کی  بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہ کرے گی۔

ایسی باتوں کو سیکولر نظریہ سے جوڑا جانے لگا۔ تجارت، کاروبار اور سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کے لیے بھی سیکولر ازم کے نظریہ کو معقول سمجھا گیا۔ یہ اس لیے کہ تجارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ مختلف دھرم کے لوگ امن سے رہیں اور آپس میں کاروبار کریں۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بھی سیکولرازم کو اہم مانا گیا۔ جب تک ریاست لوگوں کو یکساں حقوق فراہم نہیں کرے گی، تب تک کسی بھی طرح کی جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مساوات اور جمہوریت تب ہی ممکن ہے جب ریاست کا کردار سیکولر ہو۔

سیکولرازم کے بہت سارے ناقدین بھی ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سیکولر ازم کی وجہ سے لا دینیت پھیلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب دین سے سیاست دور ہو جاتی ہے، اخلاقیات کی جگہ سیاست میں نہیں رہتی ہے، تب ایسی سیاست لوگوں کا بھلا کرنے کے بجائے نقصان کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے سیکولرازم کے نظریہ کو ہدف  بنایا ہے اور کہا ہے کہ سیاست کو مذہبی کتابوں کی روشنی میں چلانا چاہیے تاکہ ایک با اخلاق سماج وجود میں آ سکے۔

بھارت میں بھی سیکولر ازم کو لے کر کافی بحث ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک بیرونی تصور ہے، جس کو بھارت کے ارباب اقتدار نے یہاں کے مذہبی لوگوں پرتھوپ دیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ سیکولر ازم کی آڑ میں ریاست اپنے ہاتھوں میں بے پناہ طاقت لے لیتی ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ارباب اقتدار فیصلہ لیتے وقت اپنے ذاتی مفاد کا زیادہ اور اخلاقی پہلوؤں کا کم دھیان رکھتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ جدید ریاست نے گزشتہ صدیوں میں کافی خون بہایا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ سیکولرازم ایک بیرونی تصور ہے، صحیح نہیں ہے۔

بھارت میں سیکولر ازم کا جو تصور ہے ، اس پراشوک، اکبر، گاندھی کے افکار ، آزادی کی لڑائی، اور ہندوستانی تہذیب اور تمدن کا اثر ہے۔ بھارت میں سیکولرازم کا مطلب لادینیت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ دین کے تئیں منفی رخ رکھتا ہے۔ در اصل سیکولر ازم کا ہندوستانی تصور یہ ہے کہ ریاست کا کوئی اپنا مذہب نہیں ہوگا۔ وہ تمام شہریوں کو یکساں حقوق دےگی ا اور وہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرےگی۔ ریاست کی نظروں میں کوئی مذہب چھوٹا یا بڑا نہیں ہے ۔ فرینچ ماڈل کی طرح بھارتی سیکولرازم دین کے تئیں منفی نظریہ نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی امریکی ماڈل کی طرح یہ پوری طرح سےدین اور ریاست کے بیچ تقسیم کی بات کرتا ہے۔ بھارت کا سماج غیر مساوی ہے اور بہت سارے دلت، پسماندہ اور خواتین کو دھرم کے نام پر غیر برابر سمجھا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر دھرم کا بہانہ بنا کر دلتوں کو مند ر جانے سے روکا جاتا رہا ہے اور ان کو اچھوت سمجھا گیا ہے۔ مگر بھارت کا آئین ہندو دھرم کے کٹر مذہبی پیشوا کی بات کو ترک کرتے ہوئے ، اچھوت پرتھا کو قانون کی نظروں میں ایک جرم ثابت کرتا ہے۔

سیکولرازم کا ہندوستانی نظریہ ریاست کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ دھرم میں پائی جانے والی برائیوں کو ختم کرے اور سماج میں برابری کو فروغ دے۔ یہ بھی کہنا درست نہیں ہے کہ بھارت میں سیکولرازم قدیم زمانہ سے چلتا آ رہا ہے کیونکہ یہ ایک جدید تصور ہے۔ اسی طرح یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ بھارت میں سیکولر ازم اس لیے ہے کیونکہ یہاں کا ہندو سماج لبرل رہا ہے اور اس کے خون میں رواداری دوڑتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

در اصل ایسی باتیں ہندو شدت پسندوں کی طرف سےکی جاتی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بھارت میں ہندو ہی نہیں بلکہ مسلمان، عیسائی ، سِکھ اور دیگر سوشل گروپ ہم آہنگی ، رواداری ، صبر و تحمل  پر  یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے سیکولرازم کی کامیابی کے لیے کسی ایک فرقہ کو ٹرافی دینا فرقہ وارانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply