بابری مسجد اور سپریم کورٹ : ڈاکٹر سلیم خان

سبرامنیم سوامی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے مشورے سے قطع نظر فی الحال رام مندر کے مسئلہ کی بی جے پی اور وزیراعظم کے نزدیک کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے گزشتہ چار سالوں کے چند واقعات پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔2013 کے وسط میں وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کو انتخابی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ انہیں بی جے پی اپنا وزیراعظم کا امیدوار بناسکتی ہے۔ جون 2013 میں رام جنم بھومی نیاس کے مہنت نرتیہ داس کی 75 ویں سالگرہ ”امرت مہوتسو“ کے طور پر منائی جارہی تھی۔ نریندر مودی کو دعوت دی گئی کہ وہ ایودھیا کا دورہ کرکے وہیں سے انتخابی مہم کا آغاز کریں۔ مودی جی نے اس دعوت کو ٹھکرا دیا اور ایودھیا نہیں گئے۔ ستمبر 2013 میں مودی جی کو باقائدہ وزیراعظم کا امیدوار بنا دیا گیا اور 2 اکتوبر کو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ”میں ہندوتوا کے رہنما کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں۔ میری شبیہ مجھے یہ کہنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن میں یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں۔ میراحقیقی خیال ہے ”پہلے شوچالیہ پھر دیوالیہ“ یعنی پہلے بیت الخلاء اور اس کے بعد عبادت گاہ“۔ ہندوستانی سیاست میں یہ نیا بیان نہیں تھا۔ کانگریسی رہنما جئے رام رمیش یہ کہہ چکے تھے اور بی جے پی اس کی خوب مخالفت کرچکی تھی لیکن اپنے رہنما کے اس بیان پر وہ خاموش رہی۔ اس لیے کہ وہ ایک سیاسی ضرورت تھی۔ نریندر مودی کی شبیہ بدلے بغیر انتخابی کامیابی ناممکن تھی اس لیے وشوہندو پریشد کے صدر پروین توگڑیا کو نظر انداز کردیا گیا۔ توگڑیا نے کہا تھا نریندر مودی کے بلا ضرورت مندر کے ذکر سے ہم حیرت زدہ اورصدمہ میں ہیں۔ ہم بھی صحت عامہ کی بہتری میں یقین رکھتے ہیں لیکن مندر کو اس میں گھسیٹنا غیر ضروری ہے۔ یہ ہندو سماج کی توہین سے کم نہیں ہے۔ اس معاملے کا ایک اور تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد مودی جی کئی بار اترپردیش گئے۔ حال میں 21 جلسوں سے خطاب کیا لیکن ایودھیا کا رخ نہیں کیا۔ انہیں شاید یقین تھا کہ تعمیر و ترقی کے نعرے سے کام چل جائیگا لیکن اب وہ اعتماد ڈانواڈول ہونے لگا ہے اور پھر ایک بار فرقہ پرستی کو ہوا دینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ سیاسی ضرورت میں تبدیلی ہورہی ہے۔ اس ہنگامہ کا تعلق آدتیہ ناتھ کے وزیرا علیٰ ٰبن جانے سے نہیں ہے بلکہ 2019 کے قومی انتخابات سے ہے۔ رام مندر 2014 کے قومی انتخابات میں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ، چھتیس گڈھ، جھارکھنڈ، تامل ناڈو، آسام، منی پور،گوا، کیرالہ اور منی پور بلکہ اترپردیش کے انتخابات بھی رام مندر کے مسئلے پر نہیں لڑے گئے۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ اترپردیش کے نتائج سے بی جے پی کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کہ وہ من مانی کرنے پر تل گئی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسے احساس ہوگیا ہے کہ اترپردیش کی کامیابی صرف ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد نہ ہونے کی بدولت ہاتھ آئی ہے۔ انتخابی اعداد و شمار شاہد ہیں کہ اگر یوپی میں بھی بہار جیسی صورتحال بن جاتی تو بی جے پی کا یہ بظاہر مضبوط نظر آنے والا قلعہ بھی مسمار ہوجاتاہے۔ 2014 کے انتخابی نتائج کے بعد یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ اب 25 سالوں تک بی جے پی کو اقتدار سے کوئی نہیں ہٹا سکتا لیکن ایک سال کے اندر دہلی میں اس کی قلعی کھل گئی اور کیجریوال نے بی جے پی کو بری طرح ڈھیر کرکے دکھا دیا کہ عوام کا ذہن بدلتے دیر نہیں لگتی۔ دہلی میں مقابلہ اروندکیجریوال اور نریندر مودی کا تھا کہ جہاں کیجریوال نے وارانسی شکست کا بدلہ لے لیا۔ بہار میں امت شاہ کی تنظیمی صلاحیت کا امتحان تھا وہاں پر لالو اور نتیش کے اتحاد نے اسے زیر کردیا۔ اتر پردیش میں اکھلیش اور مایاوتی بیجا زعم کا شکار رہے لیکن اب ان کا دماغ ٹھکانے آگیا ہے۔ اکھلیش اور مایاوتی کو اپنی تنگ دامنی کا احساس ہوچکا ہے اس لیے آئندہ پارلیمانی انتخاب میں اپناسیاسی وجود برقرار رکھنے کیلئے بوا اور بھتیجے کے بادلِ ناخواستہ سہی ساتھ انتخاب لڑنے کا قوی امکان ہے۔ کانگریس ساتھ بی ایس پی اور ایس پی کے رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 49 فیصد بنتی ہے جو بی جے پی کے 40 فیصد سے بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اس اتحاد کے کم ازکم 5 فیصد ووٹ اپنے جانب لائے جائیں تاکہ بی جے پی 45 اور اتحاد 44 پر پہنچے۔ اس تنازع کواس وقت ہوا دینا اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔اس کے بغیر بی جے پی کیلئے اترپردیش میں دوبارہ جیت درج کرانا آسان نہیں ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ کوئی ایسا ہنگامہ کھڑا کردیا جائے جس سے عوام مذہبی جنون کا شکار ہوکر اس کو ووٹ دے دیں اور وہ کسی طرح دوبارہ اقتدار پر قابض ہوجائے لیکن اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ دیگر صوبوں میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اتر پردیش کے نتائج کے بعد بی جے پی بظاہر تو بڑا جشن منارہی ہے مگر اندر اندر ہی یقیناً فکر مند ہے ورنہ اتنی آسانی سے سب کا ساتھ سب کے وکاس کا تیاگ نہیں کیا جاتا۔
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
یہ دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے !
اتر پردیش کی انتخابی مہم کے درمیان میں بی جے پی کو احساس ہوگیا کہ اب عوام کا اعتماد اس کی تعمیروترقی سے بڑی حد تک اٹھ چکا ہے۔ اس لئے اچانک دھماکے ہونے لگے۔ ان کاونٹر بھی ہوا۔ قصاب کو بھی یاد کیا گیا۔ شمسان اور قبرستان جیسے مسائل کو چھیڑا گیا اس کے باوجود دوسال قبل کے رائے دہندگان کی تعداد میں 2 فیصد کی کمی آئی لیکن بہر حال کامیابی ملی۔ اس سے بی جے پی نے یہ سبق لیا کہ اگلی مرتبہ عوام کو بجلی، سڑک، روزگار، مہنگائی، بدعنوانی، کالا دھن اور سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر ورغلانا مشکل ہے۔ اس لیے کہ یہ سارے حربے ناکام ہوچکے ہیں۔ ایسے میں رام مندر امید کی آخری کرن ہے۔ اس پر دوسال تک ہنگامہ کرو اور عین انتخاب کے وقت کوئی تماشہ کرکے عوام کو سب کچھ بھلا دو۔ آئندہ انتخاب جیتنے کیلئے رام مندر کی تعمیر بی جے پی کی ضرورت نہیں مجبوری ہے جس پر اس نے ابھی سے کام شروع کردیا ہے۔ بابر کے وزیر میر باقی نے 1527 میں بابری مسجد تعمیر کرتے وقت سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ مسجد آگے چل کر ہندوستانی سیاست میں کس کس کو بے نقاب کرے گی۔ آزادی کے وقت مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے مذہب کے نام پر عوام کو اکسا کر ملک تقسیم کردیا لیکن اس کے ایک سال بعد ہی بابری مسجد میں بت رکھ کر شدت پسند ہندوؤں نے یہ ثابت کردیا کہ اقتدار حاصل کرنے کی خاطر وہ کس قدرگھناونی سیاست کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کسی کی عبادت گاہ پرتنازع کھڑا کرکے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ثبوت اوردلیل کی بنیاد پر بات کی۔ مظاہرے کئے، احتجاج کیا اور اپنے جائز حق کے حصول کی خاطرعدالت سے رجوع کیا۔ کسی کے آگے دبنے یا جھکنے کے بجائے عزم و وقار کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے۔ اس کے برعکس فریق ثانی جذباتیت اور ہنگامہ آرائی کے ذریعہ نفرت کی آگ بھڑکا کر اس پر سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کرتا رہا۔ بابری مسجد کے اندر بت رکھنے والے ہندو احیاء پرستوں نے یہ مذموم حرکت اقتدار حاصل کرنے کیلئے کی لیکن سیکولرازم کی دعویدار کانگریس حکومت اس وقت خوفزدہ ہو گئی اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام رہی۔ وہ ایک دھاندلی اور نقص امن کا معاملہ تھا جسے مقامی سطح پر سلجھا دیا جانا چاہیے تھا لیکن بابری مسجد پر تالا لگانا اور اسے عدالت میں طول دینے کا کام فرقہ پرستوں نے نہیں بلکہ سیکولر جماعتوں نے کیا۔ اندراگاندھی کے قتل کے بعد جب بی جے پی 2 نشستوں تک محدود ہوگئی تو اسے رام مندر کی یاد آئی۔ یہ مسئلہ اس وقت تک حل ہو چکا ہوتا تو اس کا سیاسی استحصال دشوار ہوتا۔ اڈوانی کی رام رتھ یاترا کو بے اثر کرنے کیلئے کانگریس نے خود بھی اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی سعی کی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ بابری مسجد کا تالا راجیو گاندھی نے کھلوایا اور ایودھیا میں شیلا نیاس کرکے رام راجیہ قائم کرنے کا اعلان تک کر دیا۔ بابری مسجد کے معاملے میں کانگریس کی حالت اس ہرجائی عاشق کی سی ہے کہ
عاشق ہوں پر معشوق فریبی ہے مراکام
مجنوں کوبراکہتی ہے لیلی مرے آگے!
راجیو گاندھی تو رام راجیہ قائم کرنے سے قبل پرلوک سدھار گئے اور ان کے بعد اقتدار سنبھالنے والے کانگریسی وزیراعظم نرسما راؤ نے بابری مسجد کو شہید کرکے بی جے پی کو اس مسئلہ سے محروم کردینے کی کوشش کی۔ وہ بابری مسجد کی تعمیر کا وعدہ کرکے صاف مکر گئے اور رام مندر تعمیرکی پیش رفت بھی نہیں کرسکے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ”نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم“۔ کانگریس اور نرسمھاراؤ کو انتخاب میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد جنتا دل اور بی جے پی اقتدار میں آئی لیکن اس معاملے کو سرد بستے میں ڈال دیا گیا۔ کانگریس جب دوبارہ اقتدار میں آئی تو الہٰ باد ہائی کورٹ کا ایک نہایت دلچسپ فیصلہ سامنے آیا۔ اس فیصلے میں بابری مسجد کے متعلق دوٹوک بات کہنے کے بجائے اس کے ساتھ آس پاس کی زمین کو شامل کرکے کل خطہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ دوحصے ہندو فریقین کو اور ایک مسلمان کو تھما دیا گیا۔ یہ بھی وہی “باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی” والی حکمت عملی تھی جس کو دونوں فریقین نے مسترد کردیا اور سپریم کورٹ میں پہنچ گئے۔ الہٰ باد ہائی کورٹ کے فیصلے سے مسئلہ حل تو نہیں ہوا لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ سیاست تو سیاست،عدالت بھی حق گوئی کی جسارت سے محروم ہے۔ اس کے بعد کئی سالوں سے یہ معاملہ عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہے لیکن چونکہ سیاسی قائدین کو اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا اس لئے سرد مہری کاشکار تھا لیکن وزیر اعظم کو ابھی سے آئندہ انتخاب کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور ایک دم سے یہ معاملہ ہوا میں اچھال دیا گیا ہے۔ اس موقع پر عدالتِ عالیہ کا اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے حق و انصاف کے مطابق فیصلہ دینے کے بجائے دونوں فریقین کو عدالت سے باہر سمجھوتہ کرلینے کا مشورہ دینا اندیشہ پیدا کرتا ہے کہ مبادا وہ دباؤ میں نہ ہو۔ ایک طرف انصاف کے تقاضے اور ضمیر کی آواز اور دوسری جانب سرکاری و سیاسی مجبوری نے غالب کے اس شعر کی سی صورتحال پیدا کردی ہے کہ
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے!
الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کی پیشکش کے ذریعہ بی جے پی جیسی سیاسی جماعتوں کو یہ نادر موقع ہاتھ آتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مذہبی جنونی قوم کی صورت میں پیش کریں اور یہ کہیں کہ یہ لوگ مل بیٹھ کر مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے یا عدالت کے فیصلوں کو قبول نہیں کرتے اس لئے مسلمان تو بہرحال اپنی عبادت گاہ سے متعلق کسی ناانصافی پر راضی نہیں ہوسکتے لیکن اس منصوبے پر خود ہندو احیاء پسند پانی پھیر دیتے ہیں۔ الہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مصالحت پرست مسلم دانشوروں نے اسے قبول کرنے پر زور دینا شروع کردیا لیکن جب خود ہندو تنظیمیں اس کے خلاف سپریم کورٹ میں پہنچ گئیں تو انہیں خاموش ہوجانا پڑا۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ مسلمان تو دور رام مندر سے منسلک ہندو رہنماؤں نے اسے مسترد کرکے مصالحت پسندوں کے منہ پر خاک ڈال دی اور مسلمانوں میں اپنے ہم مشرب کا جنازہ اٹھا دیا اور وہ بیچارے توشکایت ہی کرتے رہ گئے
ہم پیشہ وہم مشرب و ہمراز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھامر ے آگے!
بابری مسجد کے سلسلے میں مسلما ن نہ تو جذباتی ہیں اور نہ عقیدے کو بنیاد بناتے ہیں۔ انہوں نے عدالت میں ایسے ٹھوس ثبوت پیش کردیئے ہیں جو ان کے خلاف کئے جانے والے سارے دعوؤں اور دلیلوں کو مسترد کرنے کیلئے کافی ہیں۔ مسلمان اپنی مسجد کے معاملے میں سیاست نہیں بلکہ انصاف چاہتے ہیں۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ کچھ لینے دینے کی گول مول بات کرکے اپنا وقار مجروح نہ کرے۔ سپریم کورٹ کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سناتی ہے یا سیاسی دباؤ کے آگے جھک جاتی ہے۔ تیسرا متبادل اس قضیہ کو پھر سے ٹھنڈے بستے میں ڈال دینے کا بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موخرالذکر دونوں صورتوں میں سیاست جیت جائیگی اور عدل ہار جائیگا۔ اب دیکھنا یہ ہے وطن عزیز میں انصاف کا یہ آخری چراغ روشن رہتا ہے یا بجھ جاتا ہے۔ ساری دنیا کے حق پسند کی نگاہیں اس کی جانب لگی ہوئی ہیں بقول غالب
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے!
بابری مسجد کے متعلق فی الحال سپریم کورٹ میں دو معاملات زیر سماعت ہیں۔ ایک تو اس خطہ ارض کا قضیہ ہے کہ جس پر بابری مسجد کو تعمیر کیا گیا تھا دوسرا عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کو شہید کرنیکا معاملہ ہے جس میں بی جے پی کے کئی رہنما ہنوز ماخوذ ہیں۔ اڈوانی اور ان کے جن ساتھیوں کا بری کردیا جانا خود سی بی آئی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ اس بابت 4 مارچ 2017 کو سپریم کورٹ قومی تفتیشی ادارے کو پھٹکار لگا چکی ہے۔ جسٹس پی سی گھوش اور روہنٹن نریمن نے شنوائی کے دوران اس سے سوال کیا کہ تکنیکی اعتبار سے سازش میں سے بری ہونے والے 8 لوگوں کے خلاف ایک اور مقدمہ میں جس طرح اضافی فرد جرم داخل کی گئی اسی طرح ان 13 ملزمان کے خلاف اختلاف رائے بریلی میں کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چونکہ مقدمہ کا تکنیکی بنیاد پر فیصلہ ہوا تھا اس لئے اس خلاء کو پر کرنے کیلئے اضافی فردِ جرم کا داخل کیا جانا ضروری تھا لیکن سی بی آئی نے بہت تاخیر سے اقدام کیا۔ عدالت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ ٹال مٹول کا سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ یہ معاملہ تو لین دین سے بھی نہیں چھوٹ سکتا اس کیلئے قانون کو اپنے قدموں تلے روندنے والے سزا کے مستحق ہیں۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply