جموں سے روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی شروع: کیا ان کی جانیں قیمتی نہیں ؟۔۔رضوان سلطان

جموں صوبے میں حکومت نے میانمار سے آئے روہنگیا مسلم پنا ہ گزینوں میں سے 170افراد کو ان کے پاس مکمل دستاویزات نہ ہونے کی بنیاد پر ہیرہ نگر جیل میں قید کر لیا ہے۔6 مارچ کو ان پناہ گزینوں کو ویری فکیشن کے لئے جموں کے مولانا آزاد اسٹیڈیم میں جمع کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے ڈر سے ان کیمپوں سے کئی روہنگیا مسلمان جنگلوں میں رہنے کے لئے بھاگ گئے ہیں جبکہ کئی کنبوں نے اس جگہ کو ہی چھوڑ دیا ہے ۔

دراصل گزشتہ ماہ جموں کشمیر ہائی کورٹ نے جموں کشمیر انتظامیہ کو کہاتھا کہ اُس نے روہنگیا مسلمانوں کی شناخت کے لئے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ اب ان گرفتار کیے گئے پناہ گزینوں کو حکومت واپس میانمار بھی بھیج سکتی ہے ۔ ان گرفتاریوں کے خلا ف کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے جبکہ کشمیر کے مقامی سیاسی لیڈران نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ   انسانیت کی بنیاد پر روہنگیا مسلمانوں کو جمو ں میں رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے ۔

دہلی میں روہنگیا مسلمانوں نے گرفتاریوں کے خلاف احتجاج بھی کیا جس دوران70  افراد کو پولیس نے گرفتار کیا۔ ادھر دو روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے رہائی کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے ۔عرضی گزاروں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کا دفاع سینئر وکیل پرشانت بھوشن کر رہے ہیں ۔

عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو بھارت میں قیام کی اجازت دی جائے کیوں کہ ان کا اس وقت میانمار واپس لوٹنا موزوں نہیں ہے۔

واضح رہے ،میانمار اس وقت فوج کے کنٹرول میں ہے اور برسر اقتدار والی جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر لیڈرا ن کو جیل بھیج دیا گیا ہے ۔

2017ءمیں میانمار فوج کی جانب سے رکھائن علاقے میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا اور آٹھ لاکھ کے قریب بنگلہ دیش اور دیگرملک بھاگ آئے ۔ سوچی کو ان مسلم کش فسادات پر خاموش رہنے پر کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑااور کچھ انہیں اس قتل عام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔

بنگلہ دیش سے 40 ہزار کے قریب روہنگیا مسلمان بھارت آئے ۔ بعد تب کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے  ستمبر2017 میں جموں میں ایک بیان میں کہا تھا کہ روہنگیا پناہ گزین غیر قانونی مہاجر ہیں اور یہ نیشنل سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔ دوسرے وزیر کرن رجیجو نے ایک بیان میں کہا تھا ”سبھی40  ہزار روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کیا جائے گا، ان کے پاس یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے وہ سبھی غیر قانونی مہاجرین ہیں، یو این ایچ سی ا ٓر کی  رجسٹریشن کی کوئی وقعت نہیں ،ہم اس کا حصہ نہیں ہیں“۔

بھارت میں17ہزار کے قریب روہنگیا پناہ گزینوں کی رجسٹریشن اس مذکورہ تنظیم نےکی ہے ، تاہم بھارت اس رجسٹریشن کو بھی نہیں مانتا ہے ۔ اس یو این تنظیم کے بھارت میں موجود دفتر نے بیان میں اسکے جواب میں کہا تھا کہ” قانو ن کے حساب سے مہاجرین کو اس جگہ واپس نہ بھیجنا جہاں ان کو خطرہ لاحق ہو بین الاقوامی قانون کا حصہ ہے ۔اِس  اصول کے تمام ممالک پابند ہیں اور وہ بھی جنہوں نے مہاجر کنونشن 1951 ءپر دستخط نہیں کیے  ہیں “۔

اس سے قبل اگست 2017 میں مرکز نے روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لئے ریاستی حکومتوں کو ان کی شناخت کرنے کی ہدایت جاری کی تھی ۔ مرکز کے اس فیصلے کے خلاف دو روہنگیا مسلم پناہ گزینوں محمد سلیم اللہ اور محمد شاکر نے سپریم کورٹ میں سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے ذریعے سے عرضی جمع کرائی۔ جبکہ اسکے بعد حکومت کی حمایت میں بھاجپا لیڈر اشونی کمار اپادھیائے ، آر ایس ایس کے کے این گوندآچاریہ کے علاوہ کئی افراد نے بھارتی عدالت عالیہ  میں ان روہنگیامسلمانوں اوربنگلہ دیش سے آئے مسلم پناہ گزینوں کی بے دخلی کے حق میں عرضیاں پیش کیں۔

مرکز نے روہنگیا مسلمانوں پر آئی ایس آئی اور داعش کے ساتھ روابط ہونے کے بھی الزامات لگائے ۔اکتوبر2017میں ایک سنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے مرکز سے کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے کو نیشنل سکیورٹی کے بجائے انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے ۔ کورٹ نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ ملک میں   مہاجرین سے نمٹنے کےلئے انسانی حقوق اور قومی سلامتی کے مابین توازن قائم کرے۔

وہیں تب کے چیف جسٹس نے کہا کہ اب یہ مسئلہ کورٹ میں جاری ہے جب تک اس پر کوئی فیصلہ نہ ہو تب  تک کسی کو بھی بے دخل نہ کیا جائے ۔

جنوری 2020 میں بھارت میں اقوام متحدہ نمائندہ کی جانب سے مرکز کے فیصلے کیخلاف عرضی دائر کی گئی ۔ اقوام متحدہ ، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی مذمت کے بعد مرکز نے روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی پر روک لگا دی ۔

دوسری طرف سے کئی سوال یہ بھی کھڑا کر رہے ہیں کہ آخر روہنگیا مسلمانوں کی ویری فکیشن ہی کیوں کی جا رہی ہے ۔کانگریس یوتھ لیڈر سلمان نظامی نے حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ” جموں میں7690  تبتی اور5700 روہنگیا پناہ گزیں رہ رہے ہیں۔آخر روہنگیا مسلمانوں کی ویری فکیشن ہی کیوں ہو رہی ہے ، اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں؟“۔

اعدادو شمار کے مطابق جموں صوبے کے مختلف اضلاع میں اس وقت 5700 روہنگیا مسلمان اور7000 سے زائد تبتی بودھ پنا ہ گزین رہ رہے ہیں۔ پورے بھارت میں اس وقت چالیس ہزار کے قریب روہنگیا پنا ہ گزین رہ رہے۔ جن میں سے 300 کے قریب بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

بھارت نے اکتوبر2017میں 7روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس میانماربھیج دیا ہے ۔ یہ پناہ گزین2016 میں میانمار سے آئے تھے اور تب آسام سرکار نے انہیں غیر قانوی داخلے کے بعد6 سال تک جیل میں قید رکھا تھا۔اسی طرح جنوری 2019ءمیں بھارتی حکومت نے دوسرے گروپ کو میانمار واپس بھیج دیا ۔ ایک ہی گھر کے پانچ افراد بھی آسام آئے تھے اور تب سے جیل میں قید تھے۔

جموں میں روہنگیا مسلمانوں پر خوف کا سایہ :

جموں میں روہنگیا مسلمان2017ءسے ہی ہندو انتہا پسندوں کے عتاب کا نشانہ بنے ہیں ۔ جن میں شیو سینا، بجرنگ دل ، نیشنل پینتھرس پارٹی اور بھاجپا سب سے آگے ہیں ۔2017میں ہی پیتھرس پارٹی نے جموں میں پوسٹر لگائے جن پر چسپاں تھا کہ ” جموںوالوں جاگ جاؤ، روہنگیا ، بنگلہ دیشیو ں جموں چھوڑو “۔

نومر 2016ءمیں رات کے اندھیرے میں شدت پسندوں نے نروال علاقے میں100کے قریب جھگیوں کو آگ لگا دی جس دوران 3 بچے اور ایک خاتون  جھلس کر مر گئے ۔اسی طرح سے اپریل 2017اور فروری 2018ءمیں شدت پسند عناصر نے روہنگیا پناہ گزینوں کی درجنوں جھگیوں کو آگ کے حوالے کیا ۔ اپریل2018ءمیں ہندو شدت پسند جماعتوں نے روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی کے لئے جموں بند کی کال دی ۔جن میں شیو سینا، پینتھرس پارٹی ، جموں پروینس پیپلز فورم اور ہندو ڈگر پردیش پارٹی نے جموں میں احتجاج مظاہرے کئے ۔

بھارت میں رہ رہے روہنگیا مسلمانو ںمیں سے صرف 17 ہزار  کے  پاس اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے شناختی کارڈہیں۔ تاہم یہ کارڈ بھی ان پنا ہ گزینوں کو کوئی خاص راحت نہیں دے پاتا کیوں کہ بھارت یو این ایچ سی آر 1951 کا حصہ نہیں ہے۔

سیاسی تجزیہ نگارمانتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو ووٹ کے لئے بھی استعما ل کیا جاتا ہے۔2019لوک سبھاچناؤ سے قبل بھاجپا نے یہ مسئلہ چھیڑا تھا اور اب مغربی بنگال کے چناؤسے قبل بھی یہ مسئلہ اٹھا یاگیا ہے۔

ادھر نئے شہری ترمیمی قانون کے مطابق بھارت میں غیرقانونی طور رہنے والے ہندو ، سکھ ، پارسی ، بودھ اور عیسائی جو پاکستان ، بنگلہ دیش یا افغانستان سے بھارت آئے ہیں ان پناہ گزینوں کو چھ سا ل مکمل کرنے کے بعد شہریت دی جائے گی۔ مرکزی وزیر ڈاکٹر جتندر سنگھ نے جنوری میں ایک بیان میں کہا کہ اب روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کیاجائے گا کیوں کہ اب وہ اس قانون کے تحت شہریت حاصل نہیں کر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھاجپا کا بھارت کو ہندو راشٹرا بنانے کے مقصد کو دیکھتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو یہاں شہریت حاصل کرنا ناممکن ہے ۔ اقوام متحدہ ہائی کمشنرز برائے مہاجرین کی ستمبر2014ءمیں شائع رپورٹ کے مطابق بھارت میں کئی ممالک کے 2لاکھ کے قریب پنا ہ گزین کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔جن میں ایک لاکھ 9 ہزار تبتی بودھ ،66 ہزار سری لنکن تامل ہندو،10ہزار افغان مہاجر ین کے علاوہ صومالیہ ، روہنگیا اور شا م کے پنا ہ گزین رہائش پذیر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply