نیا “واجب العرض” عرف جدید بھارت کا بندوبست /مولوی نصیرالحق خان

جدید بھارت کا سٹیزن شپ امینڈمینٹ ایکٹ CAA آچکا ہے اور اس سے متعلقہ آئندہ پیش آنے والے مسائل کو نا جانے کتنی سیاسی جماعتیں اور سماجی و رفاہی آرگنائزیشنز اپنے اپنے طور پر لوگوں سے سانجھا کررہے ہیں ۔
ایسے میں ضروری ہے کہ نئے بھارت کے آنے والے اس پروجیکٹ کے متعلق لوگوں کو بیدار کیا جائے ۔کوشش رہے گی کہ اس پورے منظر نامے پر نظر رکھ کر لوگوں کو اہم معلومات فراہم کی جائیں ۔

اصل میں   جب ہم ماڈرن انڈیا کی تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں تو ہمیں پہلی بار ایک دستاویزی اصطلاح برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور حکومت(1757 – 1857) میں “واجب العرض” کے نام سے ملتی ہے ۔

جب برٹشرز نے بر صغیر ہند و پاک – بنگلہ دیش کے وسیع و عریض علاقوں پر اپنی حکومت کی توسیع کرلی تو پھر اب انہیں اس حکومت کو باقاعدہ ، منظم و مستحکم طریقے سے چلانے کے لیے یہاں کے مائیکرو لیول تفصیلی ڈیٹا کی ضرورت پیش آئی ۔ ایسے میں دور اندیش برٹشرز نے “واجب العرض بندوبست” نام کے دستاویزی منصوبے کا خاکہ تیار کیا اور پورے ملک میں نافذ کردیا ۔ اس بندوبست کو گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ ہیسٹنگس نے متعارف کرایا تھا ۔
Lord Hastings (1813-1823)
در اصل یہی متحدہ بھارت کا پہلا NRC تھا ۔

ماڈرن انڈیا کا یہی وہ پہلا اور انوکھا بندوبست تھا جس میں  ہر موضوع اور محال کی آبادی، بٹوارہ ، پٹّی ، شجرہ ، حصّہ ، خسرہ ، کھتونی ، جوت ، چک ، آمدنی ، مٹی ، اراضی ،ا راضیوں کی  سبھی اقسام ، چاہات ، باغات ، جھاڑی ، جنگل ، نہر ، باولی ، تالاب ، پگڈنڈی، جھرنا ، تال، پہاڑ ، پہاڑی ، بندھے ، باغ مالکان ، پوکھرہ ، ندی ، نالہ ، پل ، سڑک ، پرتی ، بنجر ، تاریخی کھنڈرات ، ڈیرہ ، ڈیہہ ، ٹیلہ، قدیم آبادی و تہذیبوں کے نشانات ، آثار ، پرانے قلعے ، جانوروں کے باڑے ، چننی ، باڑے ، فیل خانے ، جانوروں کی تعداد ، آبادیوں کی اوسط تعداد ، قوم ، مذہب ، خاندان ، موجودہ مذہب اپنانے کی تاریخ ، موجودہ مسکن سے پہلے کس موضع میں رہتے تھے، کتنے گاؤں اور پٹیوں کے مالک ہیں، کہاں کہاں زمینداریاں ہیں، تحصیل، حلقہ، پرگنہ ، تپپہ، مسجد، مندر، مزار، مقبرہ، درگاہ، قدیم و تاریخی عمارتیں ، اناتھالے ، یتیم خانے ، وقف شدہ آراضیاں ، عید گاہ، قبرستان، استھان، بارہ دری، سرائے، دھرم شالے ، مسافر خانے، شیوالے ، دھام ، کربلا، گھاٹ، امام باڑے، عزا خانے ، چکلے، سرنگیں، شاہ راہیں، اصطبل ، اسکول ، مکتب ، مدرسہ ، کھلیان ، گھور ، گڈھے، منڈی ، بازار ، ہفتہ واری بازار ، جانوروں کے بازار ، کچے مکانات ، پختہ مکانات ، گھاس پھوس ، چھپر ، روز مرہ کی ضروریات کے سامان ، زبان ، بولی ، خونداگی کا اوسط ، مورتیوں کے نام اور اقسام ، رہن سہن، رسوم ورواج ، پہناوا، میلہ، کھیل کود، علاقائی ناچ گانے ، نوٹنکی ، تیوہار، فی کس آمدنی کا اوسط، فی کس خرچ کا اوسط ، سرکاری ملازمت کا اوسط ، میل ، کارخانے ، کپڑا ، زیورات اور گہنوں کی  اقسام، ذات ، اینٹوں کی  اقسام اور ان کی قیمت ، شجر کاری اور پیڑوں کی عمریں اور ان کی  اقسام، مکھیا، چاہات پختہ و خام اور ان کی عمریں ، پانی کے محفوظ منبع، چشمے، برتنوں کے نام اور اقسام، ہنر کاری، ہجرت ، آبادی ، آبادی کا سن ، آبادیوں کی  اقسام ، نام ونسب، وراثت، جاگیرداری، تعلقداری، صوبے داری ، منصب داری ، انعام دار ، زمیندار ، لمبردار ، ضلع دار، سیردار ، پٹٹہ ، انعام ، خطاب ، گرانٹ ، دان ، ٹائیٹل، کاشت کار ، بھومی دھر، کارندہ ، ہرکارہ ، چوکیدار ، اسامی ، ہل واہ، اچھوت ، لگان ، اجرت ، مزدوری ، ہنر ، ذرائع آمدنی ، جانور ، تعلیم ، بیماریاں، وبائ امراض، سوکھا، سیلاب، پیشہ ، گاؤں کی آبادیوں کی عمر کا اوسط ، مالی حیثیت کا اوسط سمیت جیسی ان تمام طرح کی مائکرو لیول جانکاریوں اور ڈاٹاز کا اندراج درجنوں کالم میں جدید اصطلاحات کے ساتھ کئ رجسٹرز میں ریکارڈ کروایا جن کی انہیں شدید ضرورت تھی ۔
یہ بندوبست رجسٹر 1820 سے شروع ہوکر 1840 تک مکمل ہوا ۔

ایسا برٹشرز نے مستقبل میں طویل عرصے تک بھارت پر منظم اور کامیاب طریقے سے اپنی حکومت کے استحکام اور پائیدار بنانے کے لیے کیا تھا ۔
خاص بات یہ کہ برٹشرز کا بنایا گیا قدیم واجب العرض مینول تھا ۔ لیکن آنے والا جدید واجب العرض بالکل ہائی  ٹیک اورڈیجیٹل ہے ۔ قدیم واجب العرض میں خود کو تلاش کرنے کے لیے مہینوں مال خانوں اور محافظ خانوں کے چکر کاٹنے پڑتے تھے جبکہ موجودہ واجب العرض ون کلکڈ ہوگا ۔ نینو سیکنڈ میں آپ کی پوری کنڈلی غلط یا صحیح اسکرین پر ہوگی ۔

موجودہ واجب العرض کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ آپ کے مائکرو اور نینو ڈیٹاز بھی اگر ان کریکٹ ہونگے تو شاید صدیوں تک آپ بھارت کی سٹیزن شپ رجسٹر سے آٹومیٹکلی باہر ہوجائیں گے۔ کوئی  بھی سیاسی جماعت اور آرگنائزیشن آپ کے کام نہیں آنے والی  ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ  جو موقع ملا ہے  سب اُسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی زندگی سے متعلقہ سارے اندراج درست کرالیں اور اس وجود کی لڑائی  کا سامنا کریں ۔
●●●●●●
سب سے دلچسپ بات یہ کہ اس بندوبست میں درج فہرست ذات ، درج فہرست قبائل ، اچھوت ، بے حد پسماندہ اور آدی واسی سماج سمیت دیگر بہت ساری آبادیاں متروکہ ہوگئی  تھیں جس کا خمیازہ آج تک انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔

دو سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی ان قوموں کا کوئی    پُرسان حال نہیں ۔ حالت یہ ہے کہ “ون ٹانگیا” ، “بنجارہ” ، “کنکالی” ، “نٹ” ، “چمر منگتا” ، “موسہر” وغیرہ جیسے بہت سارے ایسے گروہ آج بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔

آپ کو بخوبی علم ہے کہ اس جدید بھارت میں ان گروہوں کا کوئی  بھی وجود نہیں ہے ۔ آئے دن بستی، بستی ، شہر  شہر پھرنے والے ،در   در کی ٹھوکریں کھانے والے، ان گھومنتو اور خانہ بدوش قبائل کی اپنی کوئی  شناخت نہیں ہے ۔

حکومتیں جب چاہتی ہیں اپنی پالیسیوں کے مطابق ان کا استحصال کرتی ہیں ۔ جب اور جہاں چاہتی ہیں انہیں اجاڑ کر پھینک دیتی ہیں ۔
ایسے میں مسلم سماج کے لیے ضروری ہے کہ روز مرہ کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے وجود اور شناخت کے لیے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کر لے ۔
کوئی  بھی بے پروائی  اور غیر ذمے داری آپ کو مذکورہ فہرست میں داخل ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply