تاج محل اور اورنج لائن۔۔۔عوام مسیحا کی منتظر

تاج محل ،اورنج لائن،عوام مسیحا کے منتظر
محمود شفیع بھٹی
بہت بار پڑھا اور سنا کہ تاج محل محبت کی علامت ہے۔مسلم فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ دنیا کے سات عجوبوں میں شامل ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ محل واقعتاً محبت میں بنایا گیا تھا یا پھر پاگل پن کی وجہ سے؟ ملکہ ممتاز محل شہنشاہ کی پیاری بیگم تھیں۔ شاہ جہاں نے اپنی زندگی کے انیس برس ان کے ساتھ گزارے اور اس دوران چودہ بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ممتاز محل کی موت آخری پچے کی پیدائش کے دوران واقع ہوئی اور اسکی وجہ خون کی شدید کمی تھی۔ تاج محل کو ہم محبت کی علامت کہتے ہیں تو کیایہ محبت تھی؟ انیس برسوں میں چودہ اولادیں! نہیں یہ ہوس تھی۔ہاں اگر سچی محبت ہوتی تو ممتاز محل کی وفات کے بعد شہنشاہ اسکی چھوٹی بہن سے نکاح نہ کرتے۔
محبت اور محبوب کا انتقال بندے کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔لیکن شہنشاہ نے نئی شادی کو ترجیح دی اور ساتھ ہی اپنی شہنشاہت کو دوام بخشنے کے لئے مقبرہ بنانے کا اعلان کردیا، جس کو ہم محبت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ تاج محل تقریباً ۹۰۰ ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے تعمیر ہوا۔ اگر یہی رقم شہنشاہ تعلیم پر لگاتے تو شائد آج پاک و ہند اتنی پستی میں نہ ہوتے۔ جس وقت تاج محل زیر تعمیر تھا۔ اس وقت یورپ اور برصغیر کی شرح غربت مساوی تھی۔ فرق صرف ذہنیت کا تھا۔ انہوں نے آکسفورڈ،ہاورڈ اور برگلے جیسے تعلیمی ادارے کھڑے کئے اور ہم نے تاج محل کھڑا کیا،ہوس کو محبت کا نام دیا۔ وقت گزرتا گیا یورپ نے سکالرز پیدا کئے، تحقیق ہوئی ،علم وادب کا مرکز بنے اور اقوام عالم کا رخ ان کی جانب ہوا ۔ ہم نے تاج محل بنایا،جاہل پیدا کے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کو قابض کرواکر تاریخ کی گمنامی میں چلے گئے۔ یورپ کی تحقیق نے انکی غربت ختم کردی اور ہمارے شہنشاہ کے پاگل پن کی وجہ غربت آج بھی زندہ ہے۔
اب آتے ہیں پنجاب حکومت اور خادم اعلیٰ کی جانب، پہلے میٹرو بس بنائی جب دل نہ بھرا تو اورنج لائن شروع کردی۔ نام ترقی اور خوشحالی کا دیا گیا ہے۔ کیا ایک انگوٹھا چھاپ اورنج لائن میں بیٹھ کر مہذب کہلاۓ گا؟ یا پھر سریہ لگا کر ترقی ہوگی۔ اگر انفراسٹرکچر بنانے سے ترقی ہوتی تو پھر مغرب کب کا یہ سب کردیتا۔ ترقی تعلیم سے،اچھی صحت سے ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت میں” عوامیت” کم اور بادشاہت زیاده ہے۔ دو سو ارب کا یہ پروجیکٹ ہے۔ اگر یہی رقم تعلیم پر لگاتے تو اگلے پانچ،سات برسوں میں دو ہزار پی۔ایچ ۔ڈی پیدا ہوتے اور پھر انکی تحقیق کی بدولت ہم کئی اورنج لائن بنا لیتے۔ بات صرف ذہنیت کی ہے۔ آج پنجاب کے ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں ۔ نوجوان بیروزگار ہیں۔ بچے سکولوں سے باہر ہیں، اور ہم چلے اورنج لائن بنانے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھ لیں ترقی تعلیم سے ہوئی ہے۔
شاہ جہاں کے ایک غلط فیصلے کو ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ خادم اعلی ٰکے اورنج لائن جیسے فیصلوں کو آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ ہم آج جاہل پیدا کر رہے ہیں، شدت پسند سوچ اور لاقانونیت عام ہوچکی ہے۔ آج ہم سڑکوں کے جال والی ترقی کی جانب تو بڑھ رہے ہیں،لیکن ساتھ ساتھ فکری پستی بھی ہمارا مقدر بن رہی ہے۔ آج غربت بہت زیادہ ہوچکی ہے لیکن اورنج لائن ضرور بنے گی۔کیا اورنج لائن بھوک مٹادے گی؟ خادم اعلیٰ صاحب یہ منصوبہ شاہکار نہیں پاگل پن ہے۔ جس کو آنے والی نسلیں کوسیں گی۔آج ہماری ثقافت خطرے میں ہے،اس منصوبے کی وجہ سے چوبرجی ہو یا جی۔پی۔او سب کا وجود خطرے میں ہے۔ ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہیے جہاں ایک روپیہ لگے اور دس کاٹے جائیں۔ ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہیے جہاں قدیم تاریخی نشانیوں کو مسخ ہونا پڑے۔ ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہیے جس کی وجہ سے جاہلوں کی فوج پیدا ہوجاۓ۔
آج جنوبی پنجاب بلوچستان جیسا منظر پیش کررہا ہے۔ پانی کی قلت،تعلیم کی کمی اور ہسپتالوں میں عملے کی کمی جیسی مشکلات درپیش ہیں۔ ایک شہر پر اتنی زیادہ توجہ مرکزیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ آپ کے غلط فیصلوں کی قیمت اس ملک کو چکانا نہ پڑ جاۓ۔خدارا ایک عوامی نمائندہ بن کر فیصلے کریں ایک شہنشاہ بن کر نہیں۔کیونکہ یہ پیسہ عوام کے ٹیکس کا ہی ہے۔ ایسا نہ ہو تاریخ آپ کو بھی سیاسی ولن بنا دے۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply