اچانک چلتے چلتے اسے سینے میں درد محسوس ہوا اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ غشی کھا کر گر گیا۔ اس کا جسم پسینہ سے شرابور ہو گیا دھول مٹی پر گر کر اس کا وہ قیمتی لباس جو اس نے نیا تیار کروایا تھا ۔ اور آج صبح اس نے انتہائی چاہ اور شوق کے ساتھ پہنا تھا۔ کئی گھنٹے شیشہ کے سامنے کھڑے ہو کہ مختلف پوز بنا کر اس نے ہر زاویہ سے چیک کیا تھا کیو نکہ آج اس کے دفتر میں ایک میٹنگ تھی جس میں وہ سب سے زیادہ ویل ڈریس لگنا چاہتا تھا ۔
لیکن اب اسی قیمتی لباس کے ساتھ زمیں پہ پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کی نبض ڈوب رہی تھی لیکن ڈوبتی ہوئی نبض کے ساتھ اسے اپنے بیٹے اور بیٹی کے معصوم چہرے نظر آنے لگے، جب بیٹے نے صبح بڑے پیار سے کہا تھا کہ با با میرے لیے نئے کپڑے لے آنا اور اس نے پیار سے بوسہ دے کے کہا تھا، کہ بیٹا لازمی لے آؤں گا ۔ اور بیٹی نے بھی تو معصوم توتلی زبان میں گڑیا کی فرمائش کی تھی جس سے اس کے دل کو سکوں ملا تھا ۔
لیکن ابھی وہی دل ہی تو کام چھوڑ رہا تھا ۔ اب اس کے بچے ان چیزوں کا اور اپنے با با کا انتظا ر ہمیشہ کرتے ہی رہیں گے ۔ لیکن نہ ہی چیزیں آئیں گی اور نہ ہی بابا آئیں گے ۔ ڈوبتی ہو ئی نبض کے ساتھ اس کو آخری خیال اپنے اس مکان کا آیا جس کے لیے اس نے اپنی زندگی کے پچیس سال لگا دیے تھے اور اس نے اپنا دن رات ایک کر کے اپنے سکوں کو غارت کر کے اس مکاں کو تعمیر کیا تھا جو آج صبح مکمل ہوا تھا اور آج ہی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہو ئے ہی اس نے کہا تھا کہ اب میں سکوں کے ساتھ اپنے مکاں میں رہوں گا لیکن ہائے رے زندگی مہلت ختم اور حسرتیں باقی ۔ ۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں