گولڈن ایج (6) ۔ الجبرا/وہارا امباکر

میرے اور آپ کے پاس ایک ٹوکری ہے جس میں کچھ انڈے ہیں۔ ہمیں ان کی تعداد کا علم نہیں۔ کوئی بتاتا ہے کہ اگر میں ایک انڈا آپ کو دے دوں تو انڈے برابر ہو جائیں گے۔ اور اگر آپ ایک انڈا مجھے دے دیں تو میرے پاس انڈوں کی تعداد آپ سے دگنی ہو جائے گی۔ تو پھر، اب ہمارے پاس کتنے کتنے انڈے ہیں؟ اس سوال پر تھوڑا سا سوچیں اور پھر آگے چلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر جب یہ سوال پیش کیا جائے تو لوگ trial and error کا طریقہ اپناتے ہیں۔ دو اعداد کے جوڑے لے کر دیکھتے ہیں کہ یہ فٹ ہوا کہ نہیں۔ اس میں سے پہلی کنڈیشن کا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس آپ سے دو انڈے زیادہ ہیں۔ لیکن اس سے کوئی منفرد جواب نہیں نکلتا۔ یہ بارہ اور دس بھی ہو سکتا ہے۔ 150 اور 148 بھی۔ اب ہمیں دوسری انفارمیشن کو لینا ہو گا۔ لیکن اگر ہمیں الجبرا نہ آتا ہو تو پھر ہم اس وقت تک تکے لگائیں گے جب تک ٹھیک جواب نہ آ جائے۔
اس کا ٹھیک جواب یہ ہے کہ میرے پاس سات ہیں اور آپ کے پاس پانچ۔
الجبرا میں اس کی مساوات بنانے کیلئے ہم میرے پاس انڈوں کی تعداد کو x اور آپ کے پاس y لے لیتے ہیں۔ اب دو مساوات بنتی ہیں۔
x-1=y+1
اور
x+1=2(y-1)
اگر انہیں حل کر لیا جائے تو جواب آسانی سے نکل جائے گا۔
یہ الجبرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون کے وقت کے ایک مشہور سکالر الموسیٰ الخوارزمی تھے۔ انہوں نے جغرافیے میں سینکڑوں شہروں کے کوآرڈینیٹ معلوم کرنے میں مدد کی۔ نقشہ بندی کی ہدایات لکھیں۔
ان کا دوسرا کام بغداد میں قائم کردہ شمسیہ کی رصدگاہ میں تھا جہاں پر ایک اہم زیج مرتب کی۔
لیکن ان کی اصل شہرت ریاضی کی ہے۔ انہوں نے ہندو اعداد مسلم دنیا میں متعارف کروائے۔ لیکن ان کا بڑا اور مشہور کارنامہ الجبرا پر لکھی کتاب ہے۔
ہمیں ٹھیک سے علم نہیں کہ ان کی کتاب “الجبر” کب لکھی گئی لیکن اس کے پہلے صفحے پر لکھتے ہیں۔ “امیرالمومنین امام المامون کے نام، جن کے سائنس کے خداداد شوق نے میری حوصلہ افزائی کی کہ میں ریاضی کے مسائل کے حل کے طریقے کو تحریر میں لاؤں”۔
اور یہ ان کا اصل کام تھا۔ ریاضی کے غیرواضح اصولوں کو، جنہیں کم لوگ جانتے تھے، اکٹھا کر کے ایک ہدایت کی تراکیب بنا دیں تھیں تا کہ روزمرہ کے معاملات کو حل کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب کی وجہ سے انہیں بابائے الجبرا کہا جاتا ہے لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔
جم الخلیلی لکھتے ہیں کہ “میں نے ایک لیکچر میں بتایا کہ الجبرا کی ایجاد کا سہرا الخوارزمی کے سر جاتا ہے۔ سامعین میں سے ایک نے کہا کہ اس اعزاز کے حقدار یونان کے ریاضی دان ڈیوفانٹس ہیں۔ میرے پاس واپس دینے کو جواب نہیں تھا، کیونکہ میں نے اس بارے میں پڑھا نہیں تھا۔ یہ میری ذہنی کاہلی تھی۔ جب میں نے اس پر تحقیق کی تو یہ سب اس سے بہت زیادہ دلچسپ نکلا”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply