کیا مسلمان واقعی سزا کے حقدار ہیں؟ — بلال شوکت آزاد

دو دن ہوگئے, سوشل میڈیا اور آن لائن نیوز سائٹس بمع برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی پر ایک ہی بات کے چرچے ہیں, ایک ہی بات کا شوروغوغا ہے, ایک ہی دکھ ایک ہی درد ایک ہی چبھن کا سماع ہے۔

ہونا بھی چاہیے بلکہ ضرور  ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ ہیں ہم اور سب سے پہلے اسلام کا رشتہ ہو یا نظریہ پاکستان, دونوں جہتوں، دونوں رویوں، دونوں مترادف نظریوں بلکہ یوں کہوں کہ ایک ہی سکے کے دو رخوں کی نسبت سے چیخنا, چلانا, رونا اور پیٹنا یہاں تک کہ شدت سے ناراضگی کا اظہار کرنا حق بھی ہے اور فرض بھی۔

کیا ہو اگر ابھی اور اسی وقت میں بطور ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور سب سے بڑھ کر ایک کالمنسٹ ایک بلاگر ادھر ایک پھلجھڑی جواباً چھوڑ دوں کہ اوکے “جمہوری رویوں” اور “آزادی رائے اظہار” اور برطانوی قوم کی اس خواہش کا احترام لازم کہ وہ تین اپریل کو “پنش اے مسلم ڈے” منانا چاہتے ہیں تو یہ ان کا “بنیادی انسانی” اور برطانوی آئین کی رو سے “آئینی حق” ہے سو وہ بسم اللہ کریں او یہ دن جوش و خروش سے منائیں۔

لیکن برسبیل تذکرہ بس اتنا بتانا میرا فرض ہے کہ مسلمان بھی برطانوی و دیگر غیر مسلم کمیونٹیوں کی بد قسمتی سے انسان ہی واقع ہوئے ہیں, اور پھر انہیں اللہ کی مدد و نصرت کی تائید بھی حاصل ہے تمام غیر مسلموں کے مقابلے جو کہ تمام غیر مسلموں کے مقابلے میں  ایک اضافی بونس ہے۔تو کیوں نہ تین اپریل کے یادگار دن کے بعد مسلمان بھی چند دن بالترتیب چار, پانچ, چھ, سات اور آٹھ اپریل کو منائیں۔جو کہ کچھ یوں ہوں گے۔۔

چار اپریل, “پنش اے کرسچین ڈے”

پانچ اپریل, “پنش اے جیوز ڈے”

چھ اپریل, “پنش اے ہندو ڈے”

سات اپریل, “پنش اے بدھسٹ ڈے”

اور آخری والا دن تو سب سے زیادہ اہم اور دلچسپ ہوگا کہآ ٹھ اپریل, “پنش اے ایتھسٹ ڈے”

جی کیسا لگا یہ شیڈول پڑھ کر؟۔۔۔۔مجھے تو بالکل اچھا نہیں لگا بالکل ویسے ہی جیسے “پنش اے مسلم ڈے” کے متعلق پڑھ کر نہیں لگا۔

کیوں نہیں لگا اچھا؟۔۔۔کیونکہ میں ایک مواحد اور پاکستانی مسلمان ہوں جس نے چودہ سو سال بعد امت محمدی میں آنکھ کھول کر سیدی رسول اللہ صل ﷲ علیہ والہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات کو ناصرف سمجھ لیا بلکہ بلا چوں چراں اپنی زندگی, اپنی ذات, اپنی اوقات اور ہر ایک بات پر  لاگو  کرلیا۔اور جب میں نے یہ کیا تب میرا اپنے آقا حضرت محمدؐ سے ایک عہد خود بخود ہوگیا کہ جی آقا ؐ  اب میں آپ ؐ کا ایک غلام بن گیا سو اب آندھی آئے یا طوفان یا لشکر جرار چڑھ دوڑے میں آپ  ؐ  کی تعلیمات کا پالن کروں گا اور آپ ؐ کی ناموس پرکٹ مروں گا یا کاٹ ڈالوں گا۔ ۔ ۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ میرا مسلمان ہونا اور مسلمانیت پر ڈٹے رہنا بھی میرے نبی ؐ کی ناموس کی ایک اکائی ہی ہے۔

میرا سوال بس اتنا ہے برطانوی شدت پسندوں یا عرف عام میں برطانوی عیسائی خوارج سے کہ کیا تم مسلمان کو دنیا کے کسی کونے میں آزاد, خودمختار اور محفوظ پاتے ہو کہ اب یہ دن مخصوص کرکے اپنی تشنہ روحوں کی تسکین کا سامان کررہے ہو؟کیا جو شام میں کٹ رہے ہیں, جل رہے ہیں اور مر رہے ہیں وہ مسلمان نہیں؟کیا روہنگیا اور اراکان, برما میں لٹنے مرنے والے مسلمان نہیں؟کیا کشمیر کی وادی میں جو عزتیں لٹ رہی ہیں اور جوانیاں کٹ رہی ہیں وہ مسلمان نہیں؟کیا صومالیہ میں مرنے والے مسلمان نہیں؟کیا فلسطین میں مرنے اور لٹنے والے مظلوم انسان مسلمان نہیں؟

کس کس جگہ کا نام لوں اور کہاں کا حوالہ دوں جہاں مسلمان سزا نہیں بھگت رہا؟۔۔مسلمان ہو اور دنیا کے کسی کونے میں بھی رہ کر مسلمانی کی سزا سے محفوظ ہو تو بتاؤ مجھے, دکھاؤ مجھے یا سناؤ مجھے۔

مسلمان تو ہر دن ہی “پنش اے مسلم ڈے” کی بلی چڑھا ہوا ہے۔ سال کے 365 دن تو اب یہ دن مخصوص کرکے اور شرائط و ضوابط لگا کر کون سا نیا کام ہونے جارہا ہے؟

اس سارے قضئے میں مسلمان اگر غیرت سے عاری نہیں ہوئے تو  اس سوال کا جواب دیں یا اپنے اپنےگریبانوں میں جھانک کر تلاش کریں کہ کیا مسلمان واقعی سزا کے حقدار ہیں؟

خاص کر اس صورت میں جب اسلام بس نام کا ہی رہ گیا ہو ان کے پاس, اطاعت رفع ہوگئی ہو تب, تعلیمات فراموش کرچکے ہوں تب, انسانیت بھلا چکے ہوں تب, ایثار محو ہوگیا ہو تب اور سب سے بڑھ کر عزت و تکریم اور طاقت کی کنجی جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ چکے ہوں تب کیا یہ واقعی سزا کے مستحق نہیں ہوجاتے؟

اللہ بسر وچشم خود بھی سزا دینے زمین پر آسکتا ہے لیکن اللہ کی کائنات کے اصول نرالے اور انوکھے ہیں جو ہماری کم فہم عقلوں کی سمجھ سے دور کی باتیں ہیں اور یہ اللہ کی شان کے خلاف ہے, تاریخ انسانی اور مذاہب کی عالمی و الہامی تاریخی حوالوں کی رو سے کبھی فرشتوں کی جماعت سے یا کبھی آنجہانی آفات مسلط کرکے اور کبھی ایک نافرمان گروہ پر دوسرے گروہ کو مسلط کرکے سزائیں دی ہیں اللہ نے۔

سو مسلمان اس خوش فہمی سے نکل آئیں کہ ان کی نااہلی اور نافرمانی کی سزا نہیں ملے گی, میرے گہرے مطالعے سے بہت عرصہ قبل ایک حدیث گزری تھی جو مجھے من وعن تو یاد نہیں لیکن اس کا لب لباب اور مفہوم کچھ یہ تھا کہ اللہ نے رحمت العالمین صل اللہ سے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اللہ امت محمدی  ؐ  پردوسری قوموں کی طرز پر آسمانی آفات نازل نہیں کرے گا اور نہ ہی ان پر کسی کو جنگ میں غلبہ دے گا لیکن پسپائی ہوسکتی ہے اور عام معمول کے تنبیہی عذاب جو کہ ان کو پلٹانے تک محدود ہوں مل سکتے ہیں اگر یہ کسی جگہ نافرمانی اور اللہ کی ناراضگی کے مرتکب ہوں گے تو, بیشک اسی مفہوم سے ملتی جلتی اس حدیث کا مطالعہ کرنے کے بعد میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔

(اگر کسی صاحب علم بھائی کو اس حدیث کا حوالہ اور متن معلوم ہو تو شیئر کرکے ثواب دارین حاصل کرے اور اگر اس میں کسی طرح کی غلطی یا من گھڑت ہونے کا احتمال ہو تو میری اصلاح فرمادیں۔)

بہرحال بطور ذمہ دار مسلمان اور ذمہ دار و آزاد انسان  میں اس غیر انسانی اور غیر مذہبی فعل کی سخت مذمت کرتا ہوں اور اپنے ملک کے مقتدر اور مختار کل حلقوں اور ذمہ داران سے   اپیل کرتا ہوں کہ وہ پہلی فرصت میں برطانوی ہم منصبوں تک پاکستانی مسلمانوں کی یہ بے چینی اور اضطراب پہنچائیں کہ وہ خود مداخلت کرکے اس غیر انسانی فعل کی روک تھام کریں اور اس بات کی تسلی کروائیں کہ برطانیہ کی حدود میں مسلمانوں کو ایذا نہیں پہنچائی جائے گی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو کل کو یقینا ً مسلمان بھی بدلے کی آگ بجھانے غیر اعلانیہ “پنش ڈیز” منانا شروع ہوجائیں گے جس پر پھر ساری دنیا کی نام نہاد مہذب اشرافیہ کو پیٹ کا درد اٹھے گا اور ہر طرف پکڑو پکڑو ،مارو مارو اور ہائے مسلمان وائے مسلمان کا شوروغوغا ہوجائے گا اور پھر کوئی سرپھرا متشدد غیر مسلم حکمران کسی نئی اسلامی زمین پر نئی جنگ مسلط کردے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے گھٹیا اور غیر انسانی دنوں کا موجودہ گلوبل ویلیج میں نہ  تو جواز ہے اور نہ  ہی ضرورت کہ اتنا تردد کیا جائے اور تشہیر کی جائے۔اللہ غیرت مسلم کو جاگنے کی توفیق دے اور مسلمانوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔آمین۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply