چھاپے اور ان کی حقیقت۔۔۔۔مرزا شہباز حسنین بیگ

لفظ چھاپہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں ۔اور چھاپوں کے عینی شاہد بھی ہیں ۔کبھی مجسٹریٹ کا چھاپہ کبھی کوئی چھاپہ الغرض بے شمار قسم کے چھاپے مارے جاتے ہیں ۔پولیس کا چھاپہ اے سی کا چھاپہ محکمہ تعلیم میں ڈی ای او کا چھاپہ میڈیکل سٹور پہ ڈرگ انسپکٹر کا چھاپہ ,یہ چھاپے جب سے ہوش سنبھالی تب سے آج تک وقفے وقفے سے مارے جا رہے ہیں ۔مگر آج تک ان چھاپوں سے کسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری نہیں آسکی ۔ان چھاپوں کے خوشگوار اثرات کی عمر محض چند گھنٹے تک محدود ہوتی ہے ۔چونکہ ہمارے معاشرے کا عمومی مزاج بن چکا ہے کہ عملیت پسندی کے نزدیک نہیں جانا اور سطحی جذباتیت سے جی کو بہلانا ہے ۔اس لئے اس چھاپہ مار مہم کو مقبولیت حاصل ہوتی رہی ۔کسی بھی مسئلے کے لیے اس پر تحقیق کر کے اس کے تمام پہلووں کو زیر بحث لا کر اس کا حل نکالنا مشکل ترین کام نظر آتا ہے۔

لہذا ایک ایسی قوم جو شعبدہ بازی پر کامل یقین رکھتی ہو اور جس کی اکثریت ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی خواہش مند ہو ۔اس قوم کے بزرجمہروں نے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں بیٹھ کر ایک ایسا حل نکالا جو ان کے گمان میں ہر مسئلے کا یقینی حل ہے ۔جی ہاں اس جادوئی فارمولے کا نام ہے چھاپہ ۔جبکہ اس چھاپے کی حقیقت فقط اتنی ہے جتنی ایک پنجابی محاورے میں بیان کی گئی۔گونگلووں سے مٹی جھاڑنا کو عملی صورت میں دیکھنا ہو تو لفظ چھاپہ اور چھاپہ مارنے کے عمل کا مشاہدہ کر کے دیکھ لیں ۔پورے پنجاب کے ہر بازار میں ناجائز تجاوزات موجود ہیں ہر دوکاندار نے دوکان سے باہر سامان دیدہ دلیری سے  رکھا ہوتا ہے پھر سونے پہ سہاگہ ریڑھی بان بھی وہیں بیچ بازار دھندے میں مشغول ایسے میں بازار کا رقبہ سمٹ کر نصف رہ جاتا ہے ۔پیدل چلنا محال ہوتا ہے ۔اچانک اک سرگوشی سی  ہوتی ہے۔اور پورے بازار میں بھگدڑ مچ جاتی ہے خوانچہ فروش ریڑھی بان سب دوڑ لگا دیتے ہیں دوکاندار راہگیروں کو دھکے مار کر اپنا سامان دوکان کے اندر گھسیڑنے لگتے ہیں ۔عام آدمی حیران ہو کے پوچھتا ہے کیا ماجرہ ہے ۔جواب ملتا ہے چھاپہ پڑ گیا جی۔۔ مجسٹریٹ نے چھاپہ مارا ہے ۔

اس سارے معاملے میں مجسٹریٹ دو چار لوگوں کو جرمانے کرتا ہے، چلان کرتا ہے ۔اور پھر گاڑی میں بیٹھ کے یہ جا وہ جا ۔چند منٹوں کے بعد بازار واپس اپنی پہلی پوزیشن میں آ جاتا ہے ۔یہ مسئلہ ازل سے حل طلب ہے مگر چھاپہ مار کر خانہ پوری کر دی جاتی ہے ۔زیادہ تر چھاپے انتظامی افسران مارتے تھے ۔مگر اب چونکہ میڈیا اور جدت پسندی کا دور ہے الیکٹرانک میڈیا بھی خبروں کا پیٹ بھرنے میں ہر لمحہ جتن میں مصروف ہے ۔الیکٹرانک میڈیا کی کوریج کی وجہ سے اب شہرت کا چسکہ بھی ہر شخص کو لگ چکا ۔اب چھاپے  چھاپے  کا یہ کھیل سیاستدانوں نے بام عروج تک پہنچا دیا ،اب ریاست کے سارے ستون چھاپہ چھاپہ کھیل رہے ہیں ۔عدلیہ بھی کہا ں پیچھے رہتی،  عدل کے مہا پرش ہسپتالوں میں اور ہر اس ادارے میں جس کا انتظام عدلیہ کے دائرہ کار میں نہیں آتا چھاپے پہ چھاپہ مار رہے ہیں ۔ماضی قریب میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے چھاپوں کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔پورے پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر چھاپے مارنے والے وزیر اعلی پنجاب صوبے کی گورننس میں بہتری لانے میں یکسر ناکام نظر آئے ۔چھاپے کے دوران چھاپہ مارنے والے کو کیسے ماموں بنایا جاتا ہے ۔وہ ایک الگ طویل بحث ہے ۔

لاہور میں ایک شیل کے پٹرول پمپ پر میں سی این جی پلانٹ آپریٹر کے طور پر ملازمت کرتا رہا ۔وہاں پر پٹرول ڈالنے والے ملی بھگت سے کسٹمرز کو چونا لگاتے تھے ۔کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ۔ایک دفعہ ایک خاتون اپنی ایف ایکس کار میں پٹرول ڈلوایا 200 روپے کا مگر خوش قسمتی سے خاتون کی ٹینکی مکمل خالی تھی پٹرول ڈالنے والے نے 2 روپے کا ڈال کر گاڑی آگے کرنے کا اشارہ کیا خاتون نے گاڑی اسٹارٹ کی مگر پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے اسٹارٹ نہ ہو سکی چنانچہ خاتون نے احتجاج کیا اور کہا مینجر کو بلایا جائے ۔مینجر نے خاتون کی آدھی ادھوری بات سنتے ہی لڑکے کو مارنا شروع کر دیا اور لڑکے کو بولا اپنی یونیفارم اتارو تم ملازمت سے فارغ ابھی اسی وقت لڑکا رونی صورت بنا کر معافی مانگنے لگا خاتون کا دل پسیج گیا ۔کہنے لگی نہیں مینجر صاحب بچے کو ملازمت سے نہ نکالیں ۔بس بہت سبق مل گیا ۔اور پٹرول ڈلوا کر مینجر کا شکریہ ادا کر کے چلی گئیں ۔جیسے ہی گاڑی پٹرول پمپ سے باہر نکلی مینجر اس لڑکے کو مخاطب کر کے بولا اوئے کالو تیرے ہتھ اچ صفائی کدوں آنی ہے اجے پچھلے ہفتے توں پھڑیا گیاں تے آج فیر لعنت تیرے تےلوکاں دا چہرہ پڑھنا سکھ فیر چونا لا ۔روز روز پھڑیا جانا وارے نئیں کھاندا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس واقعے سے نتیجہ اخذ کر لیں خود ہی کہ پمپ پر کرپشن دھڑلے سے جاری رہی گاہک بھی مطمئن اور ملازم بھی اپنے کام پر بحال اور شکایت کا خاتمہ بھی ہو گیا، دس لوگوں نے مینجر کے طرزعمل کی تعریف بھی کر دی ۔بد قسمتی سے سیاستدانوں کے چھاپے بھی اسی طرز کے ہوتے ہیں۔شہباز شریف اپنے طویل اقتدار کے دوران ان چھاپوں سے کسی بھی شعبہ میں بہتری نہیں لا سکا ۔تو سمجھ سے بالاتر بات ہے کہ ہمارے موجودہ مٹی کے مادھو وزیر اعلی پنجاب بزدار صاحب ان چھاپوں سے کیا نتائج حاصل کریں گے ۔ایک اور صاحب تبدیلی سرکار میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں ۔وہ بھی شاید انڈین موویز سے شدید متاثر ہیں ۔اور ہر روز اداکاری کے نت نئے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں ۔رات دن سے بے نیاز وزیر مملکت کی چھاپہ مار دبنگ کاروائیاں جاری ہیں۔حالانکہ ان دبنگ چھاپوں کی حقیقت ڈنگ ٹپاؤ  سے ہر گز زیادہ نہیں ۔کاش تبدیلی سرکار ڈراموں اور فلمی دنیا سے باہر آ کر عملیت پسندی دانش اور حقائق کی کھوج لگا کر نظام کو بہتر بنائے ۔اور چھاپہ چھاپہ کا یہ کھیل ختم کرے ۔ان چھاپوں کی حقیقت خیالی پلاؤ جیسی ہے حقیقی تبدیلی کے لئے محنت لگن اور پروفیشنل اپروچ کی ضرورت ہے

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply