پروفیسر بختیار حسین صدیقی: چند یادیں۔۔ساجد علی

میں جب 1967 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف اے سال اول کے طالب علم کے طور داخل ہوا تو میرا ایک مضمون تھا فلسفہ ۔ شعبہ فلسفہ ان دنوں مین بلڈنگ سے باہر پنجاب یونیورسٹی سے متصل بلاک میں تھا جہاں اب نفسیات کا شعبہ تھا۔ ان دنوں نچلی منزل شعبہ فلسفہ کے پاس اور اوپر والی منزل شعبہ نفسیات کے پاس تھی۔ فلسفہ میں پانچ اساتذہ تھے، جن میں صرف ایک صاحب باریش تھے، شیروانی شلوار پہنتے تھے لیکن کہلاتے بی ایچ صدیقی تھے۔ ان کا پورا نام بختیار حسین صدیقی تھا۔ ان کا کمرہ اوپر والی منزل میں تھا اس لیے پہلے دو برس ان کی بہت کم زیارت ہوئی۔ اس زمانے کے شعبہ فلسفہ کے اساتذہ میں ایک وہی تھے جو تصنیف و تالیف سے بھی شغف رکھتے تھے اور ان کا علمی رعب اور دبدبہ محسوس کیا جاتا تھا۔

ابھی ہم پہلے سال میں ہی تھے جب صدیقی صاحب کا ایک مقالہ ‘وجودیت کیا ہے’ کے عنوان سے کالج کے مجلہ “راوی” میں شائع ہوا۔ فلسفے کے نصاب میں سال اول میں ہمیں نفسیات پڑھائی جاتی تھی اس لیے ابھی تک فلسفے سے کوئی تعارف نہیں ہوا تھا۔ یہ مقالہ پڑھنے کی کوشش کی تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد صدیقی صاحب نے وجودیت اور مظہریت کے موضوع پر کچھ بہت اہم مقالات تحریر کیے جو میرے دوست جاوید اقبال ندیم کی مرتب کردہ کتاب “وجودیت” میں شامل ہیں۔ ان کا ایک بہت اہم مقالہ ہے، ‘موت وجودی انسان پرستوں کی نظر میں’، جو میں نے ایم اے کے زمانے میں پڑھا اور سات آٹھ برس بعد ایک تحریر میں اس سے کافی استفادہ کیا۔ مظہریت، فنامینالوجی، کے موضوع پر اردو میں اتنا مبسوط اور عالمانہ مقالہ لکھنا صدیقی صاحب کا ہی کام تھا۔

صدیقی صاحب سے مجھے کلاس میں پڑھنے کی سعادت تو حاصل نہ ہو سکی کیونکہ وہ صرف ایم اے کی کلاس کو پڑھاتے تھے۔ لیکن بی اے میں وہ میرے ٹیوٹوریل گروپ کے انچارج تھے۔ اس حوالے سے مجھے چند بار ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع میسر آیا۔ جب میں ایم اے میں پہنچا تو وہ ترقی پا کر کالج سے جا چکے تھے۔ صدیقی صاحب جب تک گورنمنٹ کالج میں تھے، ان کی داڑھی شرعی مقدار سے کم ہوتی تھی لیکن بعد میں انھوں داڑھی کافی بڑھا لی تھی۔ وہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے (جس کو اس زمانے میں شاید گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن کہا جاتا تھا) پرنسپل کے منصب پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ ٹیکسٹ بک بورڈ سے بھی وابستہ رہے۔ ان کے اس زمانے کی یادگار ان کے دو رسالے ہیں: “مسلمانوں کی تعلیمی فکر کا ارتقا” اور “بر صغیر پاک و ہند کے قدیم عربی مدارس کا نظام تعلیم”۔ یہ دونوں رسالے ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، نے شائع کیے تھے۔

گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ایک ایسا واقعہ ہوا جو بس حادثہ بنتے بنتے رہ گیا۔ واقعہ بیان کرنے سے پہلے مجھے ایک اور بات یاد آ گئی ہے جسے بیان کرنا نامناسب نہیں ہو گا۔ پروفیسر نصیر الدین ہمایوں صاحب، خدا انھیں تادیر سلامت رکھے، جماعت اسلامی کے بہت سرگرم رکن اور جماعت کی ذیلی تنظیم، تنظیم اساتذہ، کے صدر تھے۔ میرے حال پر بہت شفقت فرماتے تھے۔اس زمانے میں جماعت اسلامی والوں کی ایک مہم اسلامی نقطہ نظر سے نصابات کی تشکیل نو کرنا ہوتی تھی۔ایک دن ملاقات ہوئی تو وہ اسی موضوع پر میری رائے جاننا چاہتے تھے میں نے جواب دیا ہم فلسفے والوں کا دین لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ پروفیسر صاحب نے کہا کیوں فلسفے والوں کا دین دوسروں سے علیحدہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا ہاں اب مجھے شبہ ہوتا ہے کہ علیحدہ ہی ہوتا ہے۔ میں نے چند ماہ قبل پیش آنے والے واقعے کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی کہ فلسفے کے پروفیسر سے آپ نے سیرۃ النبی کے موضوع پر تقریر کروائی تھی تو کیا ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب نے تلملا کر کہا وہ تو انھوں نے بہت زیادتی کی تھی۔ میں نے پروفیسر ہمایوں صاحب سے کہا اگر صدیقی جیسا متشرع اور باعمل مسلمان اپنی فلسفیانہ تربیت کے زیر اثر اس قدر بے باکانہ اظہار کر سکتا ہے تو باقیوں کے متعلق آپ خود قیاس کر لیجیے۔

ہوا یہ تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے ادارہء علم و تحقیق نے سیرۃ النبی کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس کی صدارت کے لیے پروفیسر بختیار حسین صدیقی صاحب کو دعوت دی گئی۔اس سیمینار کے مقررین میں علامہ شبیر بخاری صاحب بھی تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بہت دھواں دھار اور ایمان افروز تقریر کی۔ جب صدیقی صاحب کو خطبہ صدارت کے لیے دعوت دی گئی تو انھوں نے بہت دھیمے لہجے میں اپنی بات کا آغاز کیا۔ وہ کوئی خطیب یا مقرر نہیں تھے۔ ان کا انداز کلاس روم لیکچر جیسا تھا۔ سیرت پر بات کرتے کرتے انھوں نے علم کی ترقی پر گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ گزشتہ کئی صدیوں میں علم نے بہت ترقی کر لی ہے اور آج ایک عام آدمی کے پاس جتنا علم ہے وہ صحابہ کے پاس بھی نہیں تھا۔ ستم یہ کیا کہ یہاں پر بس نہیں کیا اور اس کے بعد ایک ایسا جملہ کہہ دیا جس کو آج سننے اور پڑھنے کی تاب لوگ شاید نہ لا سکیں۔ ابھی ان کی بات سامعین کی سمجھ میں پوری طرح نہیں آئی تھی کہ کیا کہا گیا ہے مگر سٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ سمجھ گئے کہ بات کس قدر خوف ناک ہو گئی ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اٹھے، صدیقی صاحب کو بازؤوں سے پکڑ کر باہر لے گئے اور فوراً ہی انھیں گھر روانہ کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس دن صدیقی صاحب کو ان کی داڑھی بچا گئی تھی۔

مظفر غفار صاحب نے لاہور آرٹ فورم کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ اس کے تحت ہر جمعرات کو ماڈل ٹاون لائبریری میں لیف لیکچرز کے عنوان سے فکری موضوعات پر لیکچر کا اہمتام کیا جاتا تھا۔ سن 1995 سے لے کر کوئی پندرہ برس تک میں بھی سال میں ایک یا کبھی دو بار لیکچر دیتا رہا اور سب سے زیادہ لیکچر دینے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ مظفر صاحب اتنی محبت سے دعوت دیتے کہ میں انھیں کبھی انکار نہیں کر سکا تھا۔ سال تو یاد نہیں، شاید 1997 ہو 98، ایک بار منگل کے روز ان کا فون آیا۔ انھوں نے بتایا کہ جمعرات کو جناب سہیل عمر صاحب کا ابن عربی پر لیکچر تھا لیکن کسی ناگزیر سبب کے باعث انھوں نے معذرت کر لی ہے۔ اب مظفر غفار صاحب کا اصرار تھا کہ جمعرات کو میں ابن عربی پر لیکچر دوں۔ میں نے بہت کہا کہ وقت کم ہے اور اس قدر کم وقت میں تیاری کرکے ابن عربی پر معقول گفتگو کرنا بہت مشکل ہے لیکن ان کے اصرار پر میں نے ہامی بھر لی۔ لیکچر شروع ہونے سے پہلے میں نے دیکھا کہ میرے رفیق کار ڈاکٹر ابصار احمد صاحب پروفیسر بختیار حسین صدیقی کے ہمراہ ہال میں داخل ہو رہے ہیں۔ اب میری مشکل دو چند ہو گئی۔ استاد کی موجودگی میں ایک شاگرد کا لیکچر دینا ہماری تہذیبی روایات کے منافی تھا اس لیے میں نے بہت اعتذار کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ لیکچر کے بعد استاد محترم نے از رہ شفقت فرمایا، مجھے بہت حیرت ہوئی ہے کہ تم اتنے مشکل موضوع کو اس قدر سادگی اور وضاحت سے بیان کر سکتے ہو۔ استاد محترم کی یہ داد میرے لیے سرمایہ افتخار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صدیقی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں کرکیگارڈ کا یہ قول بیان کیا تھا کہ انسان پیدا ہوتے ہیں موت کی نظر میں کافی معمر ہوتا ہے۔ اسی اٹل اور ناگزیر قانون کی پیروی میں 27 ستمبر سن 2000ء کو استاد محترم نے اس دار فانی سے کوچ کیا۔ آج ان کی بیسویں برسی ہے۔ مجھے یقین ہے ان کے شاگردوں کے دل میں ان کی یاد کی شمع روشن رہے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔