بوڑھی انسانیت۔۔ایم بلال ایم

کئی سال پہلے ہم دوست احباب علامہ اقبال کا آبائی گھر دیکھنے سیالکوٹ جا رہے تھے۔ دریائے چناب کا آدھے سے زیادہ پُل عبور کر چکے تو آگے ٹریفک جام تھی۔ حالات کا جائزہ لینے کے لئے گاڑی سے اترا۔ دیکھا کہ دس بارہ گاڑیاں ایک دوسرے میں سینگ پھنسائے کھڑی ہیں۔ صرف ایک بندے کی جلد بازی اور کوتاہی کی وجہ سے سارا مسئلہ بنا تھا۔ خیر دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ ادھر کوئی ٹریفک وارڈن نہیں تھا جو معاملات سلجھاتا۔ ایسے میں مجھ سمیت کئی انجان لوگوں نے مل کر ٹریفک رواں کرنے کے لئے ایک ٹیم فوری تشکیل دے لی۔ پھر اپنے تئیں کوشش کر کے گاڑیوں کی ترتیب سیدھی کروانے لگے۔ لوگوں کو سمجھایا، ترلے کئے مگر کمبخت بات سمجھنے کی بجائے الٹا آنکھیں نکالتے۔ ہر کسی کو ایسے لگتا تھا کہ وہ جگہ جو خالی ہوئی ہے، اگر ادھر گھس جائے تو جلدی پہنچ جائے گا، ویسے بھی ایک کے گھسنے سے بھلا کیا فرق پڑے گا؟ لیکن ان کی اسی سوچ اور جلد بازی کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد سارے پل پر اور اس سے پیچھے بھی دور دور تک گاڑیاں ”دھاڑ نے“ لگیں۔ اتنی زیادہ گاڑیوں کا ایک ساتھ پُل پر وزن اور اوپر سے بڑی گاڑیوں کی تھرتھراہٹ سے ایسا شک بھی پڑتا کہ کہیں پُل ہی نہ  گر جائے۔ خیر اتنے بڑے ہجوم میں ٹریفک رواں کرنے میں ایسا مگن تھا کہ اپنے دوستوں سے بچھڑ گیا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ پیچھے سے سارے دوست ایک دوسرے کو مذاق میں کہہ رہے تھے کہ بلال کا پتہ کرو۔ بڑا رضاکار بنا ہوا تھا، کہیں کسی نے پُل سے نیچے دریا میں نہ پھینک دیا ہو۔ 😀

بہرحال اس دن ہم نے جان توڑ کوشش کی۔ ایک راستہ صاف کروا کر ٹریفک چلانے لگتے تو کوئی نہ کوئی جلد باز آ ٹپکتا اور سارا معاملہ خراب کر دیتا۔ ایک طرف گاڑیوں کے شور اور اوپر سے لوگوں نے ہارنوں پر ایسے ہاتھ رکھے ہوئے تھے کہ جیسے مقابلۂ ”ہارن بازی“ میں آئے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں چیخ چیخ کر لوگوں سے بات کرنی پڑتی اور لوگ تھے کہ سمجھنے کی طرف آتے ہی نہیں تھے۔ بڑے جتن کیے، اور تو اور جو ایک دو ایمبولینسیں ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھیں، ان سے سائرن بجانے کی درخواست کی۔ ساتھ ساتھ ایک ایک بندے کے پاس جا کر کہتے کہ پیچھے ایمبولینسز بھی رکی ہوئی ہیں اور ان میں مریض بھی ہیں۔ سوچا کہ شاید اس عوام کو مریضوں پر ہی ترس آ جائے۔ خیر ہماری تو چھوڑیں، ایمبولینسیں بھی اپنے سائرن بجا بجا کر عاجز آ گئیں۔ اس دن صحیح معنوں میں اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک ”مردہ“ ہو چکا ہے اور اس ”ہارن باز“ ہجوم کو جگانے کے لئے کتنی ریاضت درکار ہے۔

شدید دھوپ اور گرمی میں سخت مشقت کرتے کرتے کافی وقت گزر گیا۔ مسلسل پسینہ بہتا گیا اور پھر وہ لمحات آ گئے کہ پانی کی کمی (Dehydration) ہونے لگی۔ دریا کے پُل پر کھڑے مگر پینے کا پانی نایاب تھا۔ پیاس سے گلا خشک ہو چکا تھا۔ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے میری حالت یہ ہو گئی کہ لگتا تھا، اب گرا کہ اب۔ لوگوں کے رویوں کی بجائے اپنی حالت کی وجہ سے ہمت ہار رہا تھا۔ آخر کار قدم ڈگمگائے، میں لڑکھڑایا اور رک کر کسی گاڑی کے سہارے کھڑے رہنے کی کوشش کی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ ہر کوئی جلد بازی کی دنیا میں مگن تھا اور اب میں ان کی دنیا سے لاتعلق اک اجنبی دنیا میں تھا۔ ہجوم کے درمیان مگر تنہا ہو چکا تھا۔ تب تک کسی نے میری طرف توجہ دی نہ میں نے کسی کو مدد کے لئے پکارا۔ اس کے بعد آنکھیں بند ہوئیں اور گھٹنے زمین پر لگتے محسوس ہوئے۔ ساتھ ہی اک خیال آیا کہ یہ! شہ سوار میدانِ جنگ میں گر رہا ہے یا پھر طفل گھٹنوں کے بل ہو رہا ہے؟ حواس قابو میں رکھنے کے لئے گویا میں خود پر ہنسا۔
”جیتے رہو، اٹھو اور یہ لو“ کی ممتا بھری آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو پتہ چلا کہ گھٹنے زمین پر ٹیکے، ہاتھ گھٹنوں پر رکھے، ایک حساب سے بیٹھ کر رکوع کی حالت میں ہوں۔ خیر اردگرد نظر دوڑائی تو ساری دنیا کو جلد پہنچ جانے کی دوڑ میں پہلے جیسا ہی مصروف پایا جبکہ وہ آواز دینے والی ہی میری طرف متوجہ تھی۔ ہاتھ میں گلاس پکڑے وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ مجھے تو وہ کوئی فرشتہ ہی معلوم ہوئی۔ وہ بزرگ خاتون اپنی حالت سے کسی کھاتے پیتے گھر کی لگ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی ابھی کسی اے سی والی گاڑی سے نکل کر آئی ہیں۔ انہوں نے گلاس میری طرف بڑھایا۔ گو کہ اس میں پانی تھا لیکن اگر زہر بھی ہوتا تو چپکے سے میرے خلق میں اتر جاتا، کیونکہ اس وقت پیاس کی شدت ہی ایسی تھی۔ گلاس میں موجود ”چُلو بھر زندگی“ میں انسانیت سے محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ”زندگی“ سے سیراب ہونے کے بعد کھڑا ہوا اور خاتون کا شکریہ ادا کیا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ اپنی گاڑی کی طرف پلٹیں اور میں نے دیکھا کہ جوانوں کے ”بوڑھے ضمیروں“ سے اپنا پلو بچاتے ہوئے ”انسانیت“ جا رہی تھی۔ اک عجیب سی کیفیت تاری ہو گئی۔ دریا کے پانی سے ایک عکس ابھر کر آسمان کی طرف جانے لگا۔ وہ بار بار    کہہ رہا تھا کہ اس معاشرے میں جینے کی وجوہات ابھی موجود ہیں۔ اس میں انسانیت کی رمق ابھی باقی ہے لیکن بیچاری ”بوڑھی“ ہو چکی ہے۔

Facebook Comments

ایم بلال ایم
ایم بلال ایم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی۔ آپ بیک وقت اک آئی ٹی ماہر، فوٹوگرافر، سیاح، کاروباری، کاشتکار، بلاگر اور ویب ماسٹر ہیں۔ آپ کا بنایا ہوا اردو سافٹ وئیر(پاک اردو انسٹالر) اک تحفہ ثابت ہوا۔ مکالمہ کی موجودہ سائیٹ بھی بلال نے بنائی ہے۔ www.mBILALm.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply