مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کا رشتہ

یہودیوں کے زیر قبضہ مسجد اقصیٰ کے بارے میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، بلکہ یہ عام نظریہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا قبلہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس رہ چکا ہے۔ درحقیقت، اس میں ہرگز سچائی نہیں۔ یہود و نصاریٰ کا قبلہ بھی مسجد الحرام یعنی بیت اللہ رہا ہے اور وہ حج کی نیت سے بیت اللہ کی طرف سفر کرتے رہے ہیں ناکہ مسجد اقصیٰ کی طرف۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہود و نصاریٰ کا مسجد اقصیٰ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صرف مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ماننے والے اور بذاتِ خود رسول اللہ ﷺ 16سے 17ماہ تک مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے ہیں۔ اس مسجد کا مسلمانوں کے ساتھ ایک اور طرح سے جڑا ہوا تعلق واقعہ معراج ہے۔ اللہ وحدہ لا شریک نے رسول اللہ ﷺ کو بیت الحرام سے بیت المقدس تک سفر کروایا۔ بیت المقدس میں آپ ﷺ نے تمام انبیاء علیہ السلام کی امامت کروائی اور پھر آپ کو یہاں سے معراج کے لیے روانہ کیا گیا۔ اس بات کی دلیل قرآن مجید میں کچھ اس طرح سے واضح الفاظ میں موجود ہے:

سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کوراتوں رات سیر کروائی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے گردو پیش ہماری طرف سے برکت کا سایہ ہے، وہ اسے لے گیا تاکہ اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروائے وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

آپ اس آیت سے واضح طور پہ یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کی زیارت کروا کے مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت واضح فرمائی ہے۔ مسجد اقصیٰ دنیا میں بننے والی دوسری مسجد ہے۔ صحیح حدیث کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کے دور میں تعمیر کی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔ قرآن مجید نے یہ بات بتلائی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ جیسے بابرکت مقام کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ قرآن نے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی وارث مسلمان ہیں ، تو اس وجہ سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ یہ بھی تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت نے کسی بھی مقام کی طرف نیکی کی نیت کر کے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ہے سوائے تین مقامات کہ
1۔ مسجد حرام
2۔ مسجد نبوی
3۔ مسجد اقصیٰ۔

اب اس حدیث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے جس قدر احترام کے لائق مسجد حرام اور مسجد نبوی ہیں، اسی طرح مسجد اقصیٰ بھی اس احترام کی حق دار ہے۔ لیکن افسوس ہے ہم نے کبھی مسجد اقصیٰ کی طرف سفر کرنے کی دل میں چاہت نہیں رکھی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح دل میں مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی بھی تڑپ رکھیں۔ احادیث کے مطابق خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر، مسجد نبوی میں ایک ہزار نماز کے برابر اور مسجد اقصیٰ میں 250یا بعض روایات میں 500نمازوں کے برابر اجر ہے۔ ان ساری احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ بھی رہ چکی ہے اور اب اس پہ مسلمانوں کاحق ہے۔

مسجد اقصیٰ شام کے ملحقہ علاقے فلسطین میں واقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق روئے زمین کے سب سے بہترین لوگ شام کے لوگ ہیں۔ شامی انتہائی خوبصورت اور خوب سیرت ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی بے پروائی کی وجہ سے نہ تو بیت المقدس محفوظ ہے اور نہ وہاں کے لوگ۔ عالم کفر نے فلسطین و شام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے صحابی نے دریافت فرمایا کہ میں فتنوں کے دور میں کس لشکر میں شامل ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شام کے لشکر میں۔آج آپ سب کے سامنے ہے کہ بیت المقدس پہ صیہونیوں کا قبضہ ہے۔ مسجد کے امام کو زخمی کر دیا گیا۔ 1948سے لے کر اب تک لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بے دریغ بہایا گیا ہے۔ لیکن مسلمان حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ذرا آپ اپنی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھیں، 1940کو جو قرار داد پیش کی گئی ان میں سے دوسری قرار داد میں فلسطین میں برطانوی فوج کی بڑی تعداد کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور خبر دار کیا گیا کہ عربوں کو محکومی پر مجبور نہ کیا جائے۔ قائدا عظم ؒ مفتی اعظم فلسطین مفتی امین الحسینی کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ مفتی صاحب نے ان کی آواز اٹھانے پر قائد اعظم محمد علی جنا ح کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ ہمارے عظیم بزرگ مولانا محمد علی جوہر فلسطین میں ہی مدفون ہیں۔ ہمیں اپنے بزرگوں کی روایات کو برقرار رکھنا ہو گا۔ ہمیں سلطان صلاح الدین ایوبی بن کے نکلنا ہو گا۔ یہ وہ سلطان ہے جس کے نام سے آج بھی تخت کفر کانپتے ہیں۔ سلطان نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے آزاد کروایا لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں کی بے پروائی نے پھر اسے آزادی کی نعمت سے محروم کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قبلہ اول جو نبیوں کی سر زمین ہے، وہاں سے صدائے کلمۃ اللہ بلند نہیں ہونے دی جا رہی۔ واللہ یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر بہت بڑی آ زمائش ہے۔ ہمیں ہر محاذ پر فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنا ہوگی۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے:
یہ قبلہ اول پہ عجب وقت پڑا ہے
تکبیر کے نغمے نہ موذن کی صدا ہے!

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply