دین،سیاست اور ملائیت (قسط2)۔۔۔عنایت اللہ کامران

پاپائیت اور ملائیت(مولائیت):
جب بھی پاکستان میں نظام مصطفیﷺ،اسلامی نظام یا حکومت الٰہیہ کے قیام کا ذکر کیا جاتا ہے سیکولرو لبرل طبقے  کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتا   ہے اور وہ لٹھ لیکر میدان میں کود پڑتا ہے،گلے پھاڑ پھاڑ کر چِلانے لگتا ہے کہ ملک میں ملاازم،ملائیت اور پاپائیت کا نفاذ نہیں کرنے دیں گے،ان الفاظ پاپائیت اور ملائیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے،جس طرح کہا جاتا ہے کہ”کرے کوئی بھرے کوئی“یعنی گناہ یا جرم کوئی اور کرے اور اس کی سزا کوئی اور بھگتے،یہی معاملہ ان الفاظ اور اسلام و اہل ایمان کا ہے،حقیقتاً،تاریخی اعتبار سے ان دو الفاظ یا نظاموں کا تعلق کسی بھی اعتبار سے نہ تو اسلام اور اہل ایمان کے ساتھ رہا ہے،نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا،ان الفاظ یا نظاموں کا تعلق کل بھی مغرب کے ساتھ تھا،آج بھی مغرب کے ساتھ ہے اور آنے والے کل بھی انکے ساتھ ہی رہے گا۔”

تاریخی حقائق بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کا دنیا میں طوطی بولتا تھا،اسلامی سلطنت دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پر قائم تھی اور بیت المقدس بھی اسلامی قلمرو میں شامل تھا ،یہودیوں،عیسائیوں اور مسلمانوں کے نزدیک اس مقام کی یکساں اہمیت کے پیش نظر اسلامی حکومت نے سب کے لئے اسے (Open) کررکھاتھا یعنی بلا تفریق مذہب ہر شخص ا س مقام کی بلا روک ٹوک زیارت کرسکتا تھا1095 ء میں اُس وقت کے ”پوپ اربن دوئم“نے عیسائی یورپ کو ہدایت کی کہ بیت المقدس کو اسلامی سلطنت سے آزاد کرایا جائے،پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ عیسائی زائرین کو تحفظ حاصل نہیں اور مسلمان زائرین کو لوٹ لیتے ہیں،انہیں قتل کردیتے ہیں اور انکی خواتین کے ساتھ بھی بدسلوکی کی جاتی ہے۔چنانچہ ”پینگوئن ڈکشنری آف ریلیجز“کے مطابق”1199 ء میں یروشلم میں ایک عسکری گروہ تشکیل دیا گیا،زائرین کا تحفظ اس کا مقصد اولین قرار دیا گیا“،انہیں ”معبدی“(ٹمپلرز)کہاجاتا تھا،انگریزی میں ”ٹمپل“ عبادت گاہ کو کہاجاتا ہے جبکہ عربی میں اسے ”معبد“ کہا جاتا ہے، معبدی کا مطلب ہے عبادت گاہ والے،یعنی وہ گروہ جو عبادت گاہ سے متعلق معاملات کا ذمہ دار ہو،عبادت گاہ سے مراد ”بیت المقدس ہے“۔ان ٹیمپلرز نے عوام کے نزدیک ایک تقدس کا درجہ حاصل کرلیا اور لوگوں کا اس قدر اعتماد حاصل کرلیا کہ لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں رکھنے لگے،(پوپ اربن کی بیت المقدس آزاد کرانے کی یہ تحریک کوئی اتنی زیادہ کامیاب نہیں ہورہی تھی تاہم اس تحریک کو یہودیوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ ہائی جیک کرلیا اور وہی اس کے سب کچھ بن گئے،ٹمپلرز کی یہ تحریک یہودیوں نے ایک منصوبہ کے تحت آگے بڑھا نا شروع کردی اور ایسی تدبیر کی کہ) آگے چل کر انہوں نے حکومتوں میں اثر رو رسوخ پیدا کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ حکومتوں کو قرض دیتے تھے،مقروض حکمران انکے باج گزار بن گئے جس طرح آج کل آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے تیسری دنیا کے ممالک کو اپنا باج گزار بنا رکھا ہے۔چونکہ یہ ”معبدی“ یعنی مذہبی لوگ تھے،کلیسا کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق تھا لہذٰادوسرے لفظوں میں کلیسا (پوپ)نے اقتدار میں نفوذ کرلیا،ساتھ ہی اس طبقہ نے متوازی (Theocratic)اقتدار قائم کرلیا تھا،کلیسا کے اس متوازی اقتدار نے یورپی عیسائی ریاستوں / حکومتوں میں بے شمار مسائل اور خرابیاں پیدا کیں جن کا مفصل ذکر طوالت کے خوف سے ان سطور میں نہیں کیا جارہا،اس گروہ کی دست درازیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں اور جب ناقابل برادشت ہوگئیں،عوام ان کی چیرہ دستیوں سے تنگ آگئے اور حکمرانوں کے لئے بھی اب مزید انہیں برداشت کرنا مشکل ہوگیا تو فرانس کے بادشاہ ”فلپس چہارم“ کے حکم پر 13 اکتوبر1307 ء اس گروہ کے خلاف بھرپور کارروائی کی گئی او ر ان کی تحریک کچل دی گئی جو بچ گئے وہ زیادہ تر اسکاٹ لینڈ جاپہنچے (اس تحریک سے وابستہ لوگوں نے یکلخت اپنی سرگرمیاں موقوف یا انتہائی کم اور خفیہ کردی تھیں)اس تحریک کے اس وقت کے گرینڈ ماسٹر”جیکس ڈی مولائے“(Jex D Molaey) کو1314 ء میں دھیمی آگ پر بھون کر مارڈالا گیا۔دیگر یورپی ممالک میں بھی انکے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ سکاٹ لینڈ میں انہیں پھلنے پھولنے کا موقع طویل عرصہ بعد ملا جب  سکاٹ لینڈ کو انگلینڈ کے ساتھ جنگ کا معرکہ درپیش آیا،اس گروہ کے لوگوں نے بادشاہ وقت کی مال و زر سے بھرپور مدد کی جس کے نتیجہ میں اسکاٹ لینڈ نے 25000انگریز فوجیوں کو عبرتناک شکست سے دوچارکیا، بعد ازاں اتفاقِ زمانہ دیکھیے کہ 1603 ء میں انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول کی وفات کے بعد  سکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز پنجم برطانیہ کا حکمران (بادشاہ) بن گیا جو اس گروہ کے مکمل طور پر زیر اثر تھا۔اس گروہ نے ایک بار پھر نئے نام سے اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کردیا اور یہ نیا نام تھا ”فری میسن موومنٹ“۔(دجال حصہ دوئم از مفتی ابولبابہ شاہ منصور صفحہ15 تا25)۔

اوپر کی سطور میں یہ ساری کتھا بیان کرنے کا مقصد آپ کو لفظ ”پاپائیت“اور لفظ ”ملائیت“(مولائیت) کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنا تھا۔چونکہ ”ٹمپلرز“ نے انگلینڈ میں بھی ویسا ہی اثرو رسوخ دوبارہ حاصل کرلیا تھا جیسا کہ فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں انہوں نے حاصل کیا تھااور وہاں کی عوام اور حکمرانوں نے مجبوراً ان کی چیرہ دستیاں برادشت کیں اور تنگ آکر پھر مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی تحریک شروع کی گئی اور چرچ اور اقتدار کو الگ کردیا گیا مذہب سے وابستہ لوگوں کے لئے اقتدار کے راستے بند کردئیے گئے اور انہیں محض چند مذہبی رسومات کی ادائیگی تک محدود کردیا گیا،کلیسا (پوپ) کے اقتدار میں جس نفوذ کا ذکر سطور بالا میں ہوچکا ہے اسے انگریزوں نے ”پاپائیت“کا نام دیا اور اس سے نفرت کی،اسی طرح اس گروہ کے آخری گرینڈ ماسٹر”جیکس ڈی مولائے“(Jex D Molaey) کے آخری لفظ ”مولائے“کی نسبت سے اسے ”مولائیت“کا نام دیا۔انگریزوں نے جب برصغیر پر قبضہ کیا اور مسلمانوں کو اقتدار سے بے دخل کیا تو انگریز کے خلاف سب سے زیادہ جس طبقے نے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں وہ ”مولوی حضرات“تھے 1857 ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعدان”مولویوں“کو توپوں کے ذریعے اڑایا گیا،اجتماعی طور پر سولیوں پر لٹکایا گیا،اسے حسن اتفاق کہئے یا بد قسمتی کہ انگریزوں و یورپی ممالک کو ”جیکس ڈی مولائے“(Jex D Molaey) سے واسطہ پڑا جس نے مذہب کے نام پر ایک گروہ تشکیل دے کر یورپی ممالک کے حکمرانوں اور عوام کے ناک میں دم کردیا (اور خاص طور پر عوام کا بری طرح استحصال کیا) توبرصغیر میں مذہبی پیشواؤں کو بھی ”مولانا“اور ”مولوی“کے نام سے پکارا جاتا تھا بلکہ نظام تعلیم میں ”مولوی“ کے نام سے ایک تعلیمی درجہ تھا جس کا امتحان لیا جاتا تھا جس طرح آج کل پرائمری،مڈل،ہائیرسیکنڈری کے درجات ہیں۔انگریز جو ”جیکس ڈی مولائے“(Jex D Molaey) کا ستایا ہوا تھا نے جب برصغیر میں ”مولوی“ کو اپنے مدمقابل پایا تو اسے یقیناً ”جیکس ڈی مولائے“ہی یاد آیا ہوگا،اس نے عوام کو مولوی اور اسلام کے خلاف بھڑکا کر اپنا راستہ صاف کرنے کی کوشش کی،اپنے پروردہ ایجنٹوں کے ذریعے ”ملائیت“یا ”ملاازم“کا پروپیگنڈا شروع کردیا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply