سائنس اور معنی خیزی۔۔۔۔محمد شہباز علی

انسان اور کائنات کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ حیاتیاتی سطح پر انسان فطرت کی کوکھ سے جنم لیا گیا جاندار ہے جسے جمادات و نباتات سے انتہائی قریبی نسبت ہے۔لیکن انسان اپنے جیسے دیگر جانداروں سے مختلف ہے ۔اس اختلاف کا اظہار اسکی سماجی زندگی میں ہوتا ہے۔انسانی سماج دیگر تمام ذی حیات مخلوقات کے سماجوں سے مختلف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کا سماج ایک تہذیبی عمل سے گزرتا ہے اور ہر تہذیبی عمل کی بنیاد کچھ انسانی رشتوں، احساسات اور علوم پر ہوتی ہے۔رشتوں سے خاندان یا قبیلہ ، احساسات سے رسوم و روایات اور علوم سے فکروفلسفہ جنم لیتا ہے۔جس طرح خاندان اور روایات کا نسل در نسل انتقال تہذیبی عمل کے لئے ضروری ہے ویسے ہی فکر و فلسفہ انسانی سماج کی ترویج کے لئے لازمی ہوتا جاتا ہے۔

قدیم دور سے ہی انسان نے جس قدر تبدیلی اپنے خاندانی نظام اور روایات میں پیدا کی ہےاسی قدر تبدیلی علوم و افکار میں بھی آئی ہے۔اگر کبھی سماجی حالات اور روایات نے انسانی فکر پر اپنے اثرات مرتب کیئے ہیں تو وہیں نئی فکر نے نیا سماج بھی تشکیل دیا ہے۔یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں کے انسان نے قدیم مذہبی اور یونانی قیاس آرا طرز فکر کو خیر آباد کہا اور تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی جس کے نتائج پوری دنیا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔دنیا جو آج انٹرنیٹ، تیز رفتار ہوائی جہازوں اور بڑے پیمانے کی مشینری جیسی نعمتوں کے وسیلے سے علمی، اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے تو اسکی بنیاد میں دیگر سماجی ، سیاسی اور معاشی انقلابات کے ساتھ ساتھ سائنسی انقلاب بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔لیکن کیا سائنس صرف عملی زندگی میں انسان کے سماج کو تبدیل کرتی ہے یا ہم اسے اپنی کائنات کے بارے مکمل فہم کا وسیلہ قرار دے سکتے ہیں؟ دیگر شعبہ جات جیسے آرٹ اور اسکی مختلف اقسام موسیقی، مصوری،شاعری ، نثر سمیت علم الکلام، تصوف یا روحانیت وغیرہ بھی تو کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ پھر سائنس کیا ادب سے معتبر قرار دی جائے ؟ ایسا کیوں دیکھنے میں آتا ہے کہ زیادہ تر جو لوگ سائنس کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں وہ مذاہب اور ادب وغیرہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے؟ حقیقت پسندی اور جمالیات میں زیادہ بنیادی کون ہے؟ سائنس اور معنی خیزی کا باہمی ربط کیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں جو علم وجود میں آتا ہے اسے  کبھی ‘سائنس کا فلسفہ’ اور کبھی ‘لسانیات اور سائنس’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی چند سوالات ہمارے اس مضمون کا بنیادی نقطہ ہیں۔

سائنس جسے آج بطور ایک فلسفہ یا نظریہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یہ ہمیشہ سے ایک فلسفہ نہیں رہا۔ سترہویں صدی عیسوی کے یورپ میں اٹھنے والی بیداری کی تحریک نے کائنات کو جاننے کے عمل میں انسانی عقل کی مرکزیت کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کی قائم مقام عیسائی پاپائیت کو اپنی نظریاتی و سیاسی بنیادوں میں زلزلہ محسوس ہونے لگا۔ اور انہوں نے رد عمل میں عقل کو بدنام کرنا شروع کر دیا جس نے اہل عقل یا سائنسدانوں میں عقل کو ایک عقیدہ کی جگہ دے دی۔ لیکن یہ عقیدہ آنے والے دور میں رد بھی ہوسکتا تھا اگر اس عقیدے کو کامیابی نہ ملتی۔ اور اس کامیابی میں علم کے حصول کا ایک خاص طریقہ کارگر ہوا جسے سائنسی طریقہ کار کہا گیا۔

فرانسس بیکن نے مشاہدے اور تجربے کو تمام علم کی بنیاد قرار دیا اور نیوٹن، گلیلیو ، دیکارت وغیرہ نے بیکن کی آواز پر لبیک کہا۔ تجربات نے ان سائنسدانوں کو معاشرے اور تاریخ میں عزت عطا کی۔ ان کے اس اندازفکر کو دیگر اصحاب دانش نے اپنایا اور ترویج دی جس سے 300 سال تک علوم کا ایک بحرِ  بے کراں پیدا ہوگیا جو انسانی سہولیات اور فہم کے لئے گزشتہ ہزاروں سال کی تاریخ کو پیچھے چھوڑ گیا۔ اس ساری کامیابی میں استدراجی منطق یعنی تجربات کی بنیاد پر اکٹھے کئے گئے حقائق سے نظریات کی تشکیل نے بنیادی کردار ادا کیا۔استدراجی طریقے میں پہلے سے کسی بھی نظریے کی نفی ضروری ہے۔ لہذا سائنس اپنے طریقہ کار ہی میں کسی مذہب یا عقیدے کی انکاری معلوم ہوتی ہے۔

سائنس کی ترقی میں ایک اہم کردار  مادیت پسندی اور معروضیت نے ادا کیا ہے۔ سائنسدان اپنی تحقیق کے آغاز ہی میں یہ تسلیم کرتے تھے کہ انسانی ذہن یا کوئی ماورائی قوت کے عمل دخل کے بغیر یہ دنیا اپنے ہی بنائے ہوئے چند قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔ انسانی ذہن میں ابھرنے والے نقوش صرف باہر کی دنیا کی تصویریں ہیں جنہیں ہم تصورات کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مشہور فلسفی کانٹ نے شاید پہلی مرتبہ یہ کہا کہ ایسا ہرگز درست نہیں ہے۔ انسانی ذہن جاننے کے عمل میں کائنات کے حقائق پر اثر پذیر ہوتا ہے۔ اس کی مثال عام سے مشاہدات سے دی جاسکتی ہے۔ جیسے ہم کسی سرخ گلاب کا تصور کر سکتے ہیں۔ فزکس کے قوانین کے مطابق سرخ رنگ کی ویولینگتھ (وہ فاصلہ جو روشنی کی لہروں کے دو متصلہ اتار یا چڑھاؤ میں ہوتا ہے) دن کے مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہے۔ لہذا ایک سرخ گلاب کو دیکھنے والا دن کے کسی خاص وقت اور خاص جگہ سے نظر آنے والی ویولینگتھ ہی کو سرخ تسلیم کرے گا۔ جبکہ باقی مشاہدہ کرنے والے ایک دوسری ویولینگتھ کو دیکھ کر سرخ کا تصور بنا رہے ہونگے۔ یہ ایک مثال ہے کہ کیسے انسانی ذہن نہ صرف باہر کی دنیا کو منکشف کرتا ہے بلکہ یہ دنیا اس ذہن کے اثرات سے حقیقت کا ایک مختلف پہلو بھی دےسکتی ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ سائنس نے گزشتہ صدی میں خود اپنی ان مادی یا معروضی بنیادوں کو چیلنج کیا ہے۔ اور اس سے وہ سارا نظریہ یا فلسفہ بھی متاثر ہوا جسے فرانسس بیکن اور دیکارت کی معروضی وموضوع کی ثنویت کہا جا سکتا ہے۔

کائنات کے فہم میں اور حقیقت کی تلاش یا معنی خیزی کے عمل میں انسانی ذہن اور اسکی زبان ایک بنیادی اہمیت کے حامل اجزاء ہیں۔ بیسویں صدی کی کوانٹم فزکس نے لہر اور ذرے کی دوہری خوبیوں کو ایک ہی دنیا کا مظہر قرار دیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا یا حقیقت کا سانچہ انسانی ذہن سے آزاد نہیں۔ ہم کسی شے کے بارے میں مکمل معروضیت کا دعوٰی نہیں کر سکتے۔ بلکہ ہم دنیا کو لہروں سے سمجھنا چاہیں تو یہ وہی نتائج دے گا جو ذرات سے سمجھ کر حاصل ہوتے ہیں۔ گویا ایک ہی دنیا کو دو مختلف زاویہ نگاہ سے سمجھا جاسکتا ہے اور دونوں میں برابر سچائی پائی جائے گی۔ ایسے ہی آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے ثابت کیا ہے کہ ہم کسی مطلق زمان و مکاں کے باسی نہیں بلکہ ایک چار جہتی کائنات کے مسافر ہیں جس میں ہمیں اپنا مقام اور زمانہ خود سے دریافت کرنا ہوتا ہے۔ بگ بینگ نے بتایا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں بلکہ اسکا آغاز ہوا تھا۔ بلیک ہول نے بتایا ہے کہ زمان ومکاں آپس میں رد و بدل کر سکتے ہیں گویا بلیک ہول کے اندر زمانہ مکان کی خاصیت اپنا لیتا ہے اور مکان کو زمانے کے اوصاف عطا ہوجاتے ہیں۔ گویا اب معروض یعنی باہر کی دنیا اور موضوع یعنی انسانی ذہن میں ثنویت نہیں بلکہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اس ساری گفتگو کے بعد سائنس ایک افسانوی کردار میں ڈھلتی جاتی ہے۔ جہاں آغاز کی یقینیت اور خوداعتمادی صفحہ ہستی کے اوراق کے کھلتے جانے سےبے اعتمادی اور غیر یقینیت میں ڈھل جاتی ہے۔یہاں ادب کی جملہ اصناف سائنس سے قریب تر محسوس ہونے لگتی ہیں۔ اور حقیقت کا لفظ اپنے معنی کھونے لگتا ہے۔ کیونکہ حقیقت اب محض مردہ جسم نہیں کہ جس پر انسانی دماغ کا کوئی اثر نہ ہوتا ہو۔ حقیقت ایک زندہ جاندار مخلوق معلوم ہونے لگتی ہے۔ اب یہ کہنا دشوار ہے کہ دنیا حقائق کا مجموعہ ہے جس میں جاننے والے کا کوئی کردار نہیں۔ گویا اب یہ کہا جائے گا کہ دنیا میں صرف ایک ہی معنی نہیں ہوتا۔ بلکہ کثر ت معنی پائی جاتی ہے۔ ہر ایک شخص اس کثرت ہی میں سے اپنے ظرف اور مزاج کے مطابق معنی چنتا ہے۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سائنس بطور ایک فلسفہ صرف لسانیات کا موضوع ہے نہ کہ حقائق پر مبنی ایک نظریہ علم ہے۔

اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ جب سائنس یہ دعوٰی کرتی تھی کہ کسی بھی حقیقت تک پہنچنے کا یہی واحد ذریعہ علم ہے۔ باقی تمام ذرائع جیسے ادب، تاریخ یا تصوف وغیرہ کو علم کے بنیادی خصائل ہی سے ماورا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ان تمام شعبہ جات کو بھی ذرائع علم تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یوں کہیے کہ اب فطری اور انسانی علوم کی تقسیم کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔اب حقیقت اور قدر میں بہت کم فرق رہ گیا ہے۔کیونکہ اکثر حقائق کی بنیاد کسی انسانی قدر پر ہوتی ہے۔ علمی سطح پر استدراجی منطق کے ساتھ ساتھ اب استخراجی منطق کو بھی علم کا وسیلہ قرار دیا جائے گا۔ اسکی بہترین مثال کمپیوٹر سائنس میں استعمال ہونے والے مختلف ایلگورتھم ہیں۔آج ہر سائنسی شعبہ میں ایسے کمپیوٹر پروگرام کا سہارا لیا جاتا ہے جو کسی اصول کو بنیادی مان کر اسکے نتائج اخذ کرتے ہیں ۔اور یہ استخراجی منطق کے تحت ہی کام کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر پر ہم اپنی گفتگو میں یہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں کہ اگر ادب، تاریخ، شعریات یا تصوف و روحانیت کو بھی سائنس ہی کی طرح کے ذرائع علم سمجھا جائے گا تو پھر لفظ ”سائنس” کے جدید معنیٰ کیا ہوں گے؟ اور یہ باقی تمام شعبہ جات سے مختلف علم کیسے دے پائے گی؟ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ دیگر علوم کے برخلاف آج کا انسان سائنسی نظریات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور یہی اسکی کامیابی کی وجہ بھی ہے۔ میرے نزدیک سائنس صرف اس لئے زیادہ دلچسپ ہے کہ یہ کائناتی مظاہر میں ایسی معنی خیزی کا عمل کرتی ہے کہ جس کو ہر ذی شعور تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔اور جمہور کی رائے اس کے نتائج کی کامیابی کی وجہ سے متفق قرار پاتی ہے۔ لہٰذا سائنس کے پاس ابھی تک ایک اہم پیمانہ موجود ہے جو اسے باقی تمام علوم سے ممتاز کرتا ہے اور وہ یہ کہ سائنس اپنی غلطیاں نہیں چھپاتی بلکہ انہیں تسلیم کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھنے کےعمل میں سرگرم رہتی ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply