• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹوٹی (قسط اوّل)۔۔ادریس آزاد

آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹوٹی (قسط اوّل)۔۔ادریس آزاد

کششِ ثقل اور اسراع ایک ہی چیز ہیں۔ آئن سٹائن
آئن سٹائن کے نظریہ اضافیتِ عمومی کا سب سے خوبصورت اور دلچسپ پہلو اس کا ’’اِکویلنس پرنسپل‘‘ ہے۔ اس پرنسپل کے مطابق گریوٹی اور اسراع (یعنی ایکسیلیریشن) دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ زمین آپ کو اُسی فورس کے تحت اپنے اُوپر اُٹھائے گھومتی چلی جارہی ہے جس فورس کی وجہ سے آپ (بریک لگنے پر) اپنی کار میں آگے کی طرف جھک جاتے اور ایکسیلیریٹر اچانک دب جانے پر پیچھے کی طرف کو جھکتے یا گرتے ہیں۔ اِس پرنسپل میں عام طورپر جو مثال دی جاتی ہے وہ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ مثلاً آپ اگر زمین پر ہیں تو آپ پر اثر انداز ہونے والی کششِ ثقل یعنی گریوٹی کی مقدار نائن پوائنٹ ایٹ میٹر پر سیکنڈ سکوئرڈ (9.8m/s^2) ہے۔ فرض کریں کہ آپ ایک راکٹ میں زمین سے باہر خلا میں سفر کررہے ہیں اور آپ کا راکٹ 9.8m/s^2 کے ایکسیلیریشن کےساتھ اُڑتا چلا جارہاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب آپ کے راکٹ کے فرش پر آپ گویا بالکل ویسے کھڑے ہوسکتے ہیں جیسے زمین پر کھڑے ہوتے تھے۔ آپ اپنے راکٹ کے فرش پر چل پھر سکتے ہیں، چیزیں گِرا سکتے ہیں، گیند کو باؤنس کرسکتے ہیں اور وہی سب کچھ کرسکتے ہیں جو زمین پر آپ کرسکتے تھے۔ حالانکہ اِس وقت آپ چھوٹے سے راکٹ میں ہیں جو نائن پوائنٹ ایٹ میٹر فی سیکنڈ سکوئرڈ کے اسراع سے خلاؤں میں اُڑتا چلا جارہاہے۔
آئن سٹائن نے جب جنرل تھیوری کا اِکویلنس پرنسپل پیش کیا تو اس پرنسپل کی حقانیت پر بڑے اعتراضات کیے گئے۔ آئن سٹائن کو ہرطرح سے زچ کرنے کی تمنّا ہر انگریز فلسفی کے دل میں تھی، کیونکہ آئن سٹائن جرمن تھا اور اس زمانے میں جرمنوں اور انگریزوں کے درمیان پہلی جنگِ عظیم اپنے عُروج پر تھی۔ ان میں سے اکثر اعتراضات کا میں نے خود بھی مطالعہ کیا ہے اور جو جوابات دیے گئے وہ بھی پڑھے ہیں۔ ان میں ایک اعتراض قدرے دلچسپ ہونے کی وجہ سے یہاں پیش کرتاہوں۔
نیوٹن کی گریوٹی میں سمجھا جاتا تھا کہ زمین کے مرکز (یعنی کور) میں کہیں گریوٹی کا مرکز ہے۔ اور اس لیے یوں خیال کیا جاتا تھا کہ اگر زمین پر دو اشیأ گرائی جائیں تو وہ بظاہر متوازی لائنوں میں نیچے کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن فی الحقیقت زمین کے مرکز کی طرف اُن کا رُخ ہوتاہے، اس لیے دونوں اشیأ بہت ہی باریک سطح پر ایک دوسرے کے قریب ہورہی ہوتی ہیں، نہ کہ وہ مسلسل متوازی رہتی ہے۔ جبکہ خلا میں موجود راکٹ کے اندر اگر کوئی شخص دو اشیأ کو ایک ساتھ فرش پر گرائے تو ان کے گرنے کی لائنیں(ٹریجیکٹری) متوازی ہوگی نہ کہ ایک دوسرے کے قریب جاتی ہوئی، اس لیے معترضین کے بقول اسراع اور کشش ثقل میں فرق ہے۔ آئن سٹائن نے اِس اعتراض کو مخالفین کی توقعات کے برعکس اُلٹا اپنے سپیسٹائم فیبرک کی وضاحت کے لیے ایک اصول کے طورپر استعمال کرلیا۔
آئن سٹائن کہا،
’’یہی تو میں کہہ رہاہوں کہ زمین کے آس پاس کششِ ثقل کی وجہ سے سپیسٹائم قوسی(Curved) ہے۔ دو گرتی ہوئی اشیأ کبھی بھی متوازی ٹریجیکٹری نہیں بناسکتیں کیونکہ وہ جن لائنوں پر گرتی چلی آرہی ہیں، وہ لائنیں بذاتِ خود قوس کی شکل میں زمین کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ بالکل ویسے جیسے گول زمین پر متوازی چلنے والے دو انسان دراصل متوازی نہیں چل رہے ہوتے بلکہ وہ بتدریج ایک دوسرے کے قریب یا دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگر دو افراد کو خطِ اُستوا پر ایک دوسرے سے دوسوچالیس کلومیٹر یا کسی بھی ایسے فاصلے پر متوازی کھڑا کردیاجائے اور ان کا رُخ قطب شمالی(North Pole) کی جانب ہو، اور انہیں کہا جائے کہ اب تم دونوں شمال کی طرف چلنا شروع کردو۔ تو وہ دونوں وقت کے ساتھ ساتھ گول زمین پر چلتے ہوئے بتدریج ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جائیں گے یوں گویا کوئی ان دیکھی فورس اُنہیں ایک دوسرے کی طرف دھکیلتی چلی جارہی ہے، یہاں تک کہ جب وہ قطب شمالی پر پہنچیں گے تو وہ ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور مزے کی بات یہ ہوگی کہ ان دونوں کے چہروں کا رُخ ایک دوسرے کی مخالف سمت میں ہوگا۔ ایسا کیونکر ہوا؟ کیونکہ زمین گول ہے، کسی بہت بڑے فٹبال کی طرح۔ اور کسی گول چیز پر دومتوازی لائینیں بظاہر متوازی سفر نہیں کرتیں۔ وہ یا تو ایک دوسرے سے دور ہٹتی چلی جاتی ہیں اور یا قریب ہوتی چلی جاتی ہیں۔
آئن سٹائن کی فیلڈ اِکویشن میں موجود آٹھ پائی(8pi) بِگ جی(G) اوور سی فور(c^4) پلس تاؤ میونیو’’(8piG/C^4 +Tmu,nu)‘‘ کی جو ویلیوہے اس میں اصل چیز تاؤ میونیو ہے، باقی سب ایک کانسٹینٹ ہے۔ یہ وہ توانائی ہے جو کسی بھی سپیس ٹائم میں قوس پیدا کردیتی ہے۔ یہ توانائی مادے کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے اور فقط انرجی کی شکل میں بھی، کیونکہ آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیتِ خصوصی پہلے ہی بتاچکاہے کہ مادے اور انرجی کے درمیان بھی اِکولینس ہے، جو آئن سٹائن کا پہلا اِکویلنس پرنسپل کہلاتاہے۔ آئن سٹائن کی فیلڈ اِکویشن کے بائیں طرف جو ٹینسرز موجود ہیں وہ سپیسٹائم کی قوس اخذکرنے ٹینسرز ہیں۔ میری کلاس ’’دی اِکویشنز آف فزکس‘‘ کا سب سے دلچسپ سبق یہی ہوگا۔ یعنی آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیتِ عمومی کی مساوات طلبہ کو سمجھانا۔ یہی وہ مساوات ہے جس کی حقانیت سپیشل تھیوری سے بھی پہلے ثابت ہوئی تھی اور خدا کی کرنی دیکھیے کہ عین پہلی جنگِ عظیم کے دنوں میں ایک انگریز سائنسدان ارتھر ایڈنگٹن کے ہاتھوں انجام پائی تھی۔جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پہلی جنگِ عظیم انگریزوں اور جرمنوں کےدرمیان تھی اور آئن سٹائن جرمن تھا۔ پوری رائل سوسائٹی اِس بات کے خلاف تھی کہ ارتھر ایڈنگٹن یہ تجربہ کرے۔ وہ سب کہتے تھے کہ نیوٹن جیسے بڑے انگریز سائنسدان کے خلاف ایک چھوٹے سے جرمن سائنسدان کی تھیوری پر کیوں پیشہ خرچ کیا جائے؟ لیکن ارتھرایڈنگٹن نے یہ کردکھایا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ،
آئن سٹائن نے جب اپنا دوسرا اِکویلنس پرنسپل پیش کیا اور کہا کہ کششِ ثقل اور عام اسراع ( یعنی گاڑی والا ایکسیلیریشن) دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تو اس سے ایک لازمی نتیجہ اخذ ہوتا تھا جو نہایت ہی دلچسپ اور حیران کُن تھا۔ وہ نتیجہ یہ تھا کہ فرض کریں (وہی مثال والا) راکٹ، جب ایکسیلیریٹ ہورہاتھا تو اس میں موجود روشنی کی شعاع جو کہ اپنی جگہ پر سیدھی ہی تھی، راکٹ کے اُوپر اُٹھتے چلے جانے کی وجہ سے راکٹ کے اندر موجود شخص کے لحاظ سے دراصل سیدھی نہ رہے گی۔ بلکہ راکٹ کے اندر موجود شخص کو وہ شعاع ایک قوس(Curve) بنا کر فرش کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوگی۔ کیونکہ ایک آزاد فوٹان جب اپنی جگہ پر ہوگا تو نیچے سے راکٹ اُوپر کو اُٹھ کر اس کے قریب آجائےگا اور یوں محسوس ہوگا کہ فوٹان تو فرش کے ساتھ لگ گیا۔ اب چونکہ شعاع بھی مسلسل آرہی ہوگی اور راکٹ بھی مسلسل اُٹھ رہا ہوگا تو یقیناً یوں محسوس ہوگا جیسے شعاع جھک یا مُڑ رہی ہے۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے نیچے پہلے کمنٹ میں مَیں نے تصویر دے دی ہے۔ آپ وہ تصویر دیکھ لیں تو بات سمجھ آجائےگی۔ آئن سٹائن کا یہ کہنا کہ روشنی کی شعاع ایک ایکسلیریٹڈ فریم (یعنی راکٹ) میں ضرور مُڑے گی یا bend ہوگی، گویا ایک نئے سوال کو جنم دے رہاتھا۔ اور وہ سوال یہ تھا کہ اگر کششِ ثقل اور راکٹ کا اسراع ایک ہی چیز ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ اگر آئن سٹائن کا اِکویلنس پرنسپل درست ہے تو پھر زمین پر روشنی کی شعاع کیوں نہیں گرتی؟
یہی وہ مقام ہے جس نے آئن سٹائن کو نیوٹن سے ہمیشہ کے لیے بلند کردیا۔ نیوٹن کی مساوات میں صاف لکھا تھا کہ جب دو ماس آپس میں ایک دوسرے سے کسی فاصلے پر ہوں تو ان کے درمیان کششِ ثقل کا رشتہ ایک خاص مساوات کے ذریعے معلوم کیا جاسکتاہے۔ اس مساوات میں ایک ماس کو ایم ون اور دوسرے کو ایم ٹُو کہا جاتاہے۔ نیوٹن کی مساوات بھی میں نے نیچے ایک کمنٹ میں دے دی ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اُسے دیکھ لیں۔ خیر! تو آئن سٹائن نے کہا، اگر ایم ون اور ایم ٹو کے ذریعے ماسوں کو ظاہر کرناہے تو پھر نیوٹن کی مساوات روشنی کے ایک ذرّے(فوٹان) اور کسی ماس کے درمیان رشتہ بیان کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ روشنی کا ذرّہ فوٹان ایک ماس لیس(massless) ذرہ ہے اور ایم ون ایم ٹو والی مساوات اس پر لاگو نہیں کی جاسکتی کیونکہ ایم ون ماس نمبر ون ہے اور ایم ٹُو ماس نمبر ٹو ہے اور چونکہ فوٹان کا ماس نہیں تو وہ نہ تو ایم ون کی جگہ لکھا جاسکتاہے اور نہ ہی ایم ٹُو کی جگہ۔ دراصل بنیادی طورپر سن انیس سو سات(1907) میں یہی سوال ہی تھا جس نے آئن سٹائن کو نیوٹن کے گریوٹی کے پوری طرح درست نہ ہونے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیاتھا۔
خیر! جب آئن سٹائن کی مساوات (جوکہ نیچے کمنٹ میں دی گئی ہے) سامنے آگئی تو ایک انگریز سائنسدان ارتھر ایڈنگٹن نے عین جنگ کے دنوں میں بلکہ پہلی جنگِ عظیم کے اختتامی سال میں ایک تجربہ سرانجام دیا، جس کی تفصیل میں اگلی پوسٹ میں پیش کرونگا۔ اس تجربے میں اس نے آئن سٹائن کا یہ خیال کہ روشنی بھی کششِ ثقل میں گرتی ہے، درست ثابت کردیا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ روشنی بھی کششِ ثقل میں بالکل ویسے ہی گرتی ہے جیسے کسی راکٹ کے فرش پر گرتی ہے۔ اور پھر کیا تھا۔ ایک انقلابی دور تھا جو شروع ہوگیا۔ آج ہم جس بلیک ہول کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہاں سے روشنی بھی فرار نہیں ہوسکتی اور بلیک ہول کے اندر چلی جاتی ہے تو دراصل ہم یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ روشنی کششِ ثقل میں گرتی ہے اور چونکہ بلیک ہول کششِ ثقل میں ہر مادی آبجیکٹ سے زیادہ ہے، اس لیے روشنی اس پر گرے تو اندر ہی کہیں ختم ہوجاتی ہے، نہ کہ عام ستاروں یا سیاروں پر گرنے والی روشنی کی طرح فقط گِری اور پھر مادی آبجیکٹ کے گرد گھومتی ہوئی دوسری طرف کو نکل گئی۔
آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیتِ عمومی اور خصوصی پر میری کچھ پوسٹیں لگاتار آنے والی ہیں، اس لیے شوقین قارئین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہر پوسٹ میں ٹیگ کرلیا کریں اور میری وال باقاعدگی کے ساتھ وزٹ کرلیں۔ ہاں ایک اور بات، جنرل تھیوری کی پوسٹوں کے ساتھ ساتھ سپیشل تھیوری کی پوسٹیں بھی آتی رہینگی۔ میں دونوں کو مِکس کرکے اِس لیے چلنا چاہتاہوں کیونکہ دونوں کا آپس میں کچھ ایسا گتھم گُتھا سا تعلق ہے کہ دونوں تھیوریوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مثلاً فقط ایک مثال دیکھتے چلیں۔ سپیشل تھیوری کے شائقین جانتے ہیں کہ ٹائم ڈائیلیشن نامی ایک چیز سپیشل تھیوری میں پیش آتی ہے۔ ٹائم ڈائیلیشن کو عموماً ہالی وُوڈ کی فلموں کی وجہ سے زیادہ تر قارئین اب جان چکے ہیں۔ اس کا عام سا معنی یہ ہے کہ اگر دو شخص ہم عمر ہیں اور ان میں سے ایک زمین پر رہ جائے اور دوسرا کسی راکٹ میں بیٹھ کر روشنی کی رفتار کے کسی فریکشن یعنی ایک فیصد یا دو فیصد یا دس فیصد آف دہ سپیڈ آف لائیٹ سے خلا کے سفر پر چلا جائےتو ان کے درمیان ٹائم ڈائیلیشن واقع ہوجاتاہے۔ یعنی وہ جو تیزرفتاری کے ساتھ خلا میں گیا تھا اگر ایک سال کے بعد واپس آئےگا تو اسے زمین والا ہم عمر دوست بوڑھا ملےگا۔ دونوں کی عمروں میں فرق ہوگا۔ سپیشل تھیوری کا ٹائم ڈائیلیشن ہزارہا مرتبہ تجربات سے ثابت کیا جاچکاہے اور گویا آئے روز ہی کیا جاتاہے۔
لیکن جنرل تھیوری میں بھی ایک ٹائم ڈائیلیشن ہوتاہے، جس کا ذکر بہت کم کم ملتاہے۔ جنرل تھیوری کا ٹائم ڈائیلیشن یہ ہے کہ جب آپ کسی بھاری بھرکم ستارے یا سیارے پر ہوتے ہیں تو آپ کا وقت کم گزرتاہے اور جب آپ اس کی کششِ ثقل کے احاطے سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں تو آپ کا وقت زیادہ گزرتاہے۔ یہ گویا سپیشل تھیوری والے ٹائم ڈائیلیشن کے بالکل اُلٹ ہے۔ یعنی اس ٹائم ڈائیلیشن میں اس شخص کا ٹائم کم گزرتاہے جو زیادہ گریوٹی والے سیارے یا ستارے کے پاس ہوگا چاہے وہ اُس سیارے یا ستارے کے اوپر ہی کیوں نہ ہو اور رُکا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں اس شخص کا وقت زیادہ گزرتاہے جو اس سیارے کی کششِ ثقل سے دور خلا میں ہوگا۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے۔ یعنی زیادہ کشش ثقل کو اگر زیادہ ایکسیلیریشن سمجھ لیا جائےتووہ اسراع یعنی ایکسیلیریشن رفتار کی طرح ہی پیش آئےگا۔ جنرل تھیوری کے ٹائم ڈائیلیشن کو بھی ہزارہا مرتبہ ٹیسٹ کیا جاچکاہے۔ اور تو اور بُرجِ دوبئی کی سب سے اوپر والی منزل اور سب سے نیچے والی منزل کے درمیان بھی ٹائم ڈائیلیشن پایا جاتاہے جو بہت ہی کم ہے۔ کششِ ثقل والے ٹائم ڈائیلیشن کی سب سے خوبصورت بلکہ خوبصورت ترین مثال یہ ہے،
اگر آپ زمین سے ایک لیزر (یعنی روشنی کی شعاع) اُوپر آسمان کی طرف پھینکیں تو وہ شعاع جوں جوں کششِ ثقل سے دور ہوتی جاتی ہے، اس کی فریکونسی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ زمین کے نزدیک والی شعاع کی ویولینتھ یعنی طولِ موج کم اور اس کی فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے، جبکہ اُوپر آسمان کی طرف اُٹھتی چلی جاتی ہوئی اسی شعاع کا طولِ موج یعنی ویولینتھ زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے اور فریکوئنسی کم۔ یوں کہہ لیں تو عام آدمی کے لیے بھی آسان ہوجائےگا کہ زمین سے فرض کریں آپ نے نیلے رنگ کی شعاع اُوپر کو پھینکی تو اُوپر وہ سرخ رنگ کی شعاع میں بدل جاتی ہے۔ اب یہ مثال خوبصورت کیوں ہے؟ اس لیے کہ زمین کی کششِ ثقل نے ٹائم ڈائیلیشن کردیا۔ جو شعاع زمین کے نزدیک تھی، وہ کششِ ثقل کی وجہ زیادہ فریکونسی یعنی پاور کی مالک تھی اور جو دور تھی وہ کم فریکوئنسی کی مالک تھی جبکہ روشنی کی رفتار تو ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے، اس لیے یہ فیصلہ کون کرےگا کہ جو ویولینتھ زمین کے قریب تھی وہ تو مختصر ٹائم میں فریکونسی بنارہی تھی کیونکہ اُس کی ویولینتھ جو کم تھی، لیکن جو شعاع دور پہنچ چکی تھی وہ تو زیادہ وقت میں فریکونسی بنارہی تھی کیونکہ اس کی ویو لینتھ جو زیادہ تھی، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شعاع کا ایک حصہ کم وقت میں ویولینتھ گزارے اور دوسرا حصہ زیادہ وقت میں گزارے اور سپیڈ پھر بھی ایک ہی رہے۔ اگر سپیڈ ایک ہی رکھنی ہے توپھر ضرور وقت کو پھیلانا یا سُکیڑنا ہوگا ورنہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اور جب وقت کو ہم پھیلاکر یا سُکیڑ کر دیکھتے ہیں تو اسی کو ٹائم ڈائیلیشن کہاجاتاہے۔
میری فزکس کی کلاسوں کے طلبہ اور دیگر شوقین قارئین سے گزارش ہے کہ ان اقساط کے ساتھ ساتھ چلتے چلیں آئیں۔ کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ میں اس سلسلے کو پوری بیسویں صدی کی تاریخِ فزکس کے اعتبار سے جاری رکھوں۔ یہاں تک کہ ایم تھیوری کا دور آپہنچے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply