• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ہم جنس پرستی کا ہمارے مذہبی مدارس اور سیکولر تعلیمی اداروں میں وجود کا تحقیقی و علمیاتی تجزیہ:حصہ اول:ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی کا ہمارے مذہبی مدارس اور سیکولر تعلیمی اداروں میں وجود کا تحقیقی و علمیاتی تجزیہ:حصہ اول:ڈاکٹر محمد علی جنید

انسان ایک ذی حئی و ذی شعور مخلوق کا نام ہے ،جو ناصرف اپنی جنسی قانونی رفعت سے خاندان اور سماجی روابط اور رشتہ داری کی سماجیات و تعلقات قائم  کرتا ہے بلکہ انکو باہمی روابط ،ربط و ضبط میں قائم کرنے کے لئے باشعور ،نتائج کن قانون سازی کرکے انھیں نافذ کرتا ہے،جبکہ خاندان ،قبائل،انسانی انجمنوں اور گروہوں میں انضباط،نظم اور عدم نراجیت کی قانونیت جو ادارہ قائم کرتا ہے اسے ریاست کہتے ہیں اور ریاست اپنی حدود کے دائرے میں قوانین بنانے اور نافذ کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے،جسکی  خاطر وہ اپنے دائرہ کار میں خاص قسم کی اخلاقی اقدار کو نافذ کرتی ہے،تاکہ سماجی نظام،آئین و قانون، انسانی جان و مال،خاندان کے ادارہ جات،کے ساتھ ساتھ نسل انسانی کی صحت مند مستقبلی تشکیل بندی کے لئے تحفط فراہم کرسکے ،تاکہ انسانی فطری جبلت،اور جنسی حقوق کے تعلقات و سماجیات کو ٹوٹ پھوٹ اور نراجیت سے بچایا جاسکے،چناچہ اس ضمن میں ریاست کی نوعیت یا تو سیکولر ہوتی ہے مذہبی ہوتی ہے۔

یہ ایک الگ  بحث و ڈیبیٹ ہے کہ آیا خدا کے تقدیری منصوبے کی جذیات و کلیات کیا ہیں،اسکا وجود واجب الوجود ہے یا پھر ممکن الوجود ہے،وہ موجود  ہے یا اسکا وجود ہی  نہیں ہے؟، خیر کائنات مانو یا نہ  مانو کسی نہ کسی عظیم منصوبے کا ارتقائی منظر نامہ ہے اور کائنات اور اسکی مخلوقات آیا کسی خدائی منظم،باشعور رفیع الدرجہ منصوبہ جاتی ڈھانچے کی پیداوار ہے یا پھر  کچھ لوگوں کی نگاہ میں کسی  بگ بینگ،غاڈ پارٹٰیکل یا بائیولوجیکل یک خلوی دنیا کی کثیر خلوی دنیا میں تبدیلی کا نام ہے۔ اب ہم اسے خدا کہیں ،ارتقائی عمل جانیں یا پھر جیو بائیولوجیکل  زاویہ فکر کی محبوب ،فطرت کہیں؟ یا پھر قدیم فلسفیائی شعور اولیٰ  مانیں ؟ ، خیر جو بھی رخ و دلیل کوئی بھی ریاست کسی نا کسی قدر نامے اور ان پر قائم شدہ قانونیت پر لازمی استوار ہوتی ہے،چنانچہ کوئی فرد خود کو ریاست کہہ کر اس اقدار نامے کو مسترد کرکے ریاست کا وفادار شہری نہیں  سمجھا جاسکتا ہے،یوں اسکی عدم فرضیت کے سبب اسکے حقوق کی بنیاد ڈھے  جاتی ہے۔

خیر جناب !ان تمام مابعد الطبیعاتی اور سائنسی علمیاتی مباحثہ جات کے باوجود کیا یہ امر فراموش کیا جاسکتا ہے کہ ہر موجد وہ خالق جس شہ کو جن کاموں اور مقاصد کی تکمیل کے لئے تخلیق کرتا ہے،اور جس تصور ،منصوبہ اور موضوعیت سے تخلیق جنم لیتی ہے وہاں ،اشیا کی تخلیقی فطرت کو وہ اپنی اصل سے ہٹا کر انھیں،غیر اقداری موضوعیت سے اپنی خواہش نفسانی پر مشتمل معروضیت میں تبدیل کرنا نا صرف خلقی اعمال کی جوہریت پر سوال اٹھا دیتا ہے بلکہ ساتھ  ساتھ خلقی حق کو بھی دھندلادیتا ہے۔ لہذا تخلیقی جوہریت جس حق کی منطق پر قوت و حرکت کا سبب بنتی ہے تو اسکے لئے لازم ہوجاتا ہے وہ ہر خلق کا حق اسکے موجد و منصوبہ ساز کے منصوبہ کی روشنی میں تسلیم کرے، تاکہ  ہر تخلیق اپنے  خلقی حق پر قائم  رہ کر اپنے وظائف کو  صحیح طرح خلقی حق کے مطابق سر انجام دے سکے،عین اس طرح دو مخالف جنسوں میں جو باہمی کشش ،عشق و محبت ،ربط و تعلق اللہ رب العزت نے انکی خلق میں پوشیدہ رکھا ہے،اس سے یکساں جنس سے روابط کی منطق و ضرورت ڈھے  جاتی ہے، لہذا ہم جنس پرستی کے مداحوں اور حامیوں کو سوچنا پڑیگا کہ  انکی  یہ محبوب ہم جنسیت بلآخر کہاں اور کس حد تک  معاشرے اور تخلیقی فطری جوازہیت کے تناظر میں جائز ٹھہرتی ہے؟

آدمؑ سے لیکر موجودہ انسان تک اور حوا  سے لیکر موجودہ عورت تک، یہ دونوں جنسیں درحقیقت ازل سے دو الگ الگ خلقی اور وصفی وجود کی حامل رہی  ہیں  اور جن کی خلقی جوہریت میں ہی دراصل  انکی ازلی استعداد کار ،حرکیات ، وظائف و اعمال پوشیدہ و پنہاں چلے آرہے ہیں، لہذا کہنے کو دونوں کی اصل و مبدا تو ایک ہے مگر وظائف و جنس الگ الگ ہیں،دونوں کا تعلق و رشتہ کی کوکھ سے جو نیا  خاندانی سماجی تعلق پیدا ہوتا ہے اس تعلق سے  ایک نئی   حیات جنم لیتی اور اس نئی حیات اور  بالیدگی کی پیدائش نے جہاں  نسلِ  انسانی کو اوّل پروٹو ٹائپ سے یہاں جدید ٹائپ تک پہنچایا  ہے وہاں ہمیشہ سے تمام تغیر و ارتقاء  کے باوجود اتنا تسلیم رہا ہے، فطری طور پر حق وہی جو انکی باہمی سماجیات سے خلقی طور پر ابھرتا  رہا ہے چنانچہ  اس میں اتنی احتیاط قائم کی گئی ہے کہ شریعت اس ضمن میں جائز منکوحہ بیوی تک  سے اسکے مخصوص مقام ِ ضروریہ کے علاوہ دیگر مقامات سے استمتع کی ممانعت کرتی  نظر  آتی ہے۔

یہ منفی و مثبت چارج  اور باہمی  جنسی  کشش دونوں جنسوں  کو ایک دوسرے کا ہمیشہ سے ایک دوسرے کا  اسیر بنائے ہوئے ہیں،کیونکہ یہ دونوں جنسیں اور انکا باہمی میل و ملاپ  ہی خاندان ،سماج اور جدید اداروں کی اصل ہیں،اور وہ سب انکی فرع کا درجہ رکھتے  ہیں۔لہذا جنسی تعلق وہی جائز اور بالحق  تسلیم  کیا جاتا ہے جو ان دونوں کے درمیان  باہمی تعلق سے قائم ہوتا ہے، اور اگر  یہ تعلق اصول و ضوابط ، یا شریعت کے مطابق ہوگا تو وہ لیگل اور قانونی تعلق تصور  ہوگا اگر وہ کسی قسم کے سماجی ،مذہبی اور قانونی  اقدار نامے کو مانے بغیر ،خواہش نفسی،سماج و ریاست شکنی پر مشتمل ہوگا تو وہ حق ناجائز تسلیم کیا جا یگا۔

لہذا معاہداتی نکاح یا سول میرج ہوں یا  پھر غیر معاہداتی جنسی روابط اور انکے نتائج ہوں  ،یہ دونوں  ہی حرام و حلال ،جائز و ناجائز کی بحث سے ہٹ کر کم از کم مرد عورت کی باہمی جنسی کشش اور دونوں جنسوں کے باہمی تعلقات و مراسم کے حق پر ہونے کے قائل ہیں، بلکہ یوں  سمجھیں  کہ کُل بنی نوع انسانی چاہے وہ نطفہ حلال کی پیداوار ہو یا نطفہ حرام کا نتیجہ ہوں دونوں  ہی   قسم کے بندھن اسی خلقی سماجیات کا نتیجہ  ہوتےہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود جنسی انحرافات کے اسیر ،مداح،حامی اور عامل خواتین و حضرات بھی انہی جنس مخالف کے باہمی  روابط،عشق،محبت اور تعلق کا نتیجہ ہوتے ہیں،لہذا اگر بنی نوع انسان کی بقا کا معاملہ ہو  یا  پھر انکی تعداد و نمو کا معاملہ درپیش ہو تو جنس مخالف سے عقد و تعلق کی سماجیات و نتائج نا صرف عین حق ہوتے ہیں بلکہ عین محافظ مستقبل بھی تسلیم کئے جاتے ہیں،جیسا کہ کارل مارکس کا ماننا تھا کہ جنسی تعلق وہی ہوتا ہے جو مرد و عورت میں قائم ہوتا ہے،مارکس لبرل ڈسکورس کے شاہکار اماموں میں سے ایک ہے،اسکا یہ مقام ہے کہ پس جدیدیت والے کہتے ہیں اگر مارکس صحیح نہیں ہے تو کوئی صحیح نہیں ہے،یعنی انسانی حقوق سے نسائیت پرستی تک،مذہب سے سائنس تک سب قابلِ  رد ہیں،چنانچہ ایک قدر کے مقابل دوسری قدر لانی پڑتی ہے مگر وہ قدر فکر سے خارج حق و فطرت کے کتنے قریب ہے یہ ایک الگ بحث کی محتاج ہے ۔

جبکہ انکےمقابل  اگر بس دو ایسے وجود پیشِ  نظر ہوں کہ  جن کی ذاتی انفرادیتیں کچھ ایام،لمحات،نئے تعلق کے نمودار ہونے تک انکے انحرافات کو منفرد لذت سے روشناس کراتی ہوں ، اور انکی یک رخی حدت و کشش کو اپنے خواہش نفسی سے عین پُر لطف بنادیتی ہوں  تو یہ غیر اقداری ایبیقیوریت انکو بس چند ثانیوں کی ایسی لذت کا اسیر بنادیتی ہے جسکا نتیجہ نا صرف غیر فطریت ،مذہب مخالفت کی صورت میں نکلتا ہے بلکہ وہ خود اپنے وجود کے خلق پر سوال کھڑے کردیتے ہیں؟ یہاں ضمیر نام کی شے  ختم ہوجاتی ہے ،اقدار خود خلقی لذتیت پر استوار ہوجاتے ہیں اور باہمی تعلق عقد و معاہدہ سے خارج ہونے کے ساتھ ساتھ  رشتوں کی سماجیات سے دوری کے سبب وقتی ہوتے جاتے  ہیں اور یہ مسلسل ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں سمجھیں یہ چینی معیار کے قلیل المدت مفاد و لذت پر استوار تعلق ہوتے ہیں کہ انکو آخر جنس مخالف نے کیسے باہم پیدا کرلیا جبکہ  انکی تخلق خود اپنی موضوعیت و شعور میں انکی منکر ہوتی ہے،اور ایسوں کی خود کی نگاہ میں بھی کوئی خاص عزت نہیں ہوتی ہے،سماج انکی کیا عزت کریگا یہ خود اپنی عزت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور جب ان میں ضبط کے بندھن ٹوٹتے ہیں تو یہ جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔

مجھے سالوں قبل ایک صاحب نے بتایا تھا کہ اسلام آباد کی لڑکیاں دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ کراچی کے لڑکوں کو کافی پسند کرتی ہیں،شاید ممکن ہو میرا وہ شاگرد خود بہت خوبصورت اور امیر  لڑکا تھا ،خیر اس نے بتایا کہ اسلام آباد میں چونکہ ہم جنس پرستی لڑکوں میں کافی پروان چڑھ رہی ہے لہذا اسٹریٹ یا نارمل جنس مخالف سے روابط کے مداحوں کی نگاہ میں جن کی ملک کیا دنیا بھر میں اکثریت ہے ،انھیں بہ نظر کراہیت دیکھا جاتا  ہے،اس کے علاوہ لواطت اور اغلام بازی میں عموماً  دیکھا گیا ہے کہ جبر استحصال بیجا زیادہ ہوتا ہے اور رضامندی کافی کم ہوتی ہے،پاکستان اور ہندوستان کے اکثر ظالم و جابر خود پسند نرگسیت کے اسیرافراد   تو اپنے دشمنوں کے ساتھ جابرانہ و ظالمانہ بدفعلی کرکے راحت و انبساط محسوس کرتے ہیں جسکے لئے مخصوص قسم کی گالیاں باہم بکی جاتی ہیں جبکہ عورتوں میں ہم جنسیت  کہنے کو ٖڈھکی چھپی  ہوتی ہے مگر جو بھی ہے یہ اکثر باہمی رضامندی پر استوار ہوتی ہے،بوائز اور گرلز کالجز میں ایسے واقعات آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں چونکہ یہ امور رضامندی پر موقوف ہوتے ہیں لہذا انکا چرچہ بہت محدود ،مقید اور خفیہ ہوتا ہے۔

غیر اقداری   منہج  کے قائل  افراد جتنا چاہے کسی  قدیم تجربہ شدہ   باشعور  تخلیقی اقدار نامے کو انسانی حقوق کے دعویٰ  لذت کی بنیاد پر  مسترد کردیں وہاں ان کو ان اقدار کی تردید کےلئے خود اپنا ذاتی اقدار نامہ تشکیل کرنا ہوگا، بھلے جو خارج میں قانون و مذہب کے دائرے میں نہ  آتا ہو، مگر انکے جنسی انحرافات انکی انفرادیتوں سے رہنمائی  پاکر جو قدر تخلیق کرینگے وہ انھیں کسی نا کسی قدری دائرے میں کھڑا کردینگے،اور انہوں نے اپنی  ذاتی  جنسی  نرگسیت اور لذت کا  شکار ہوکر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اقدار خود  اپنے وجودوں پر نافذ کرلی ہے کہ ہم جنس پرستی بھی لافطریت کے باوجود انکی باہمی رضا مندی کی اقدار کے سبب  ایک  انکی نگاہ میں   معقولی جنسی رخ ہے اور ہمیں انسانی حقوق کے فلسفہ کی روشنی میں انھیں قائم کرنے کا حق حاصل ہے،اس ضمن میں وہ وحی کے سرچشمہ اور ہدایت کو درون خانہ بغیر بولے مسترد کردیتے ہیں یوں وہ اپنی مآخدی ترجیحات کا تعین کرکے نئی اقدار کو جنم دینے کا سبب بن جاتے ہیں۔

ہم ان امور کے ساتھ ساتھ یہ بھی  دیکھتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق دراصل یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے پیدا ہونے والے وہ حقوق ہیں جن پر یونانی،اطالوی ،فلسفہ اور عیسائی جوہریت حاوی  نظر آتی ہےجیسا کہ نکاح کی منکر عیسائیت جو اذلی گناہ کے فلسفہ پر زور دیتی ہے اور یونانی افلاطونیت جو امرد پرستی کے عشق میں ڈوبی نظر آتی ہے انکا مجموعہ فکر لبرل منطق کو انفرادیت کے ذریعے پروان چڑھاتا ہے ۔اس  معجونی بحث نے یورپ کے مابعد نشاۃ ثانیہ کے ایسے جدید روشن خیال آدمی کو پیدا کیا جو کسی خارجی و مذہبی اتھارٹی کا منکر تھا۔جس نے خدا ،وحی،رسالت اور مولوی کو کھلے عام  رد کردیا تھا   اور جواب میں سرمایہ داری انفرادیت کو جنم دیا یہاں جو انسان نے سوچا،چاہا اور مانگا اسے سرمایہ داری نظام نے تجارتی مصنوعات میں بدل کرکے پیش کر دیا، یعنی مزے کے مزے آمدنی کی آمدنی جبکہ عصری  حکومتوں نے ان عوامی مطالبات کو قانون کا درجہ دے دیا،مگر اس تمام خواہشی قانون سازی کے باوجود دنیا کی تاریخ میں ہم جنس پرستی ہمیشہ سے ایک ذرہ برابر گروہ کا شعار رہی ہے۔کیونکہ کوئی  قانون خواہش نفسانی کو قانونی تحفظ دے کر خارج کو اپنی موضوعیت سے معروضیت میں بدل کر محفوظ ضرور بنانے کی کوشش کرسکتا ہے ،مگر بہ حیثیت مجموعی اذلی فطری سماجیات کے مقابل انکو مقبول اور جایز نہیں بناسکتا ہے۔

درحقیقت وہ قانون بس سول معاملات کو سنبھالنے کی ایسی کوشش ہوتی ہے جو باہمی تصادم کو روک کر نراجیت کو روک کر ریاستی سماجیت میں محفوظ کردے،مگر یہ سب کام سرمایہ دارنہ ریشنلیٹی کی عمل کاری کا نتیجہ ہوتے ہیں،کیونکہ سرمایہ داری انفرادی رجحان کی بنیاد پر خاص آڈینس کو تحفظ فراہم کرکے انھیں اپنے کنزیومر میں بدل کر انکو مصنوعات و خدمات کے ضمن میں تجارت کا ذریعہ بنا لیتی ہے،اور لبرل جمہوری کلچر قانون سازی سے مخالف انقلاب کو روک کر محدود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جمہوری قانون سازی کی ریشنیلیٹی کسی فلسفہ ،فواید و نقصانات کی منطق کی  جگہ سیدھی سادھی  سول لبرل فرد کی خواہش کو اہم جانتی ہے تاکہ سول سوسائٹی کی جوہریت کو قائم کیا جاسکے۔انگلینڈ میں جب گے سدومیت کے قانونی جواز اور قانون سازی کے لئے ولفرڈن کمیٹی بنی تو کمیٹی نے یہ قرار دیا کہ مردانہ ہم جنس پرستی اگر چہ اخلاق مخالف اور اقدار مخالف ہے مگر چونکہ عوامی مطالبہ اسکے قانونی جواز کا مطالبہ کرتا ہے لہذا ہم اسے بطور قانون بنانے کی سفارش کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply