نئی حکومت پہ تعریف و تنقید ۔۔۔ معاذ بن محمود

قوم ایک نئے پاکستان میں داخل ہوچکی ہے۔ یہ نیا پاکستان ایک ملٹی ڈائمینشنل ریاست ہے، یعنی ایک ایسی ریاست جو عام حالات میں ریاست مدینہ کا درجہ رکھتی ہے تاہم ڈوریاں ہلانے والوں کا جب دل کرتا ہے اس میں ایک سیکولر ریاست دکھائی دینے لگی ہے اور جب دل کرتا ہے یہ اسلامی جمہوریت بن جاتی ہے۔ یہاں تک پڑھ کر یقیناً مدینہ ثانی کی بنیاد رکھنے والے حضرت عمران خان نیازی کے پیروکاروں کو غصہ چڑھا ہوگا تاہم منہ سے جھاگ اڑانے سے پہلے ایسے دوست ٹھنڈا پانی پی لیں کہ ہم پانچ سال تک اس سے کہیں زیادہ تنقید برداشت کرتے آئے ہیں۔ 

یہ بات حقیقت ہے کہ مملکت پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر مخالفت برائے مخالفت بہت معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کا فائدہ کم اور نقصان یوں زیادہ ہوتا ہے کہ مخالفت کرتے کرتے ایک جانب مخالفت کرنے کی عادی ہوجاتی ہے تو دوسری جانب مخالفت کا جواب دینے کے لیے ڈھیٹ ہوجاتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو خان صاحب کی وکٹری سپیچ پر تنقید کرنے والے پٹواری دیکھ لیجیے اور فواد چوہدری (پی ایچ ڈی ہیلی کاپٹر ٹیکنالوجیز) کی ہیلی کاپٹر فیول پہ تحقیق اور پھر اس کا بھرپور دفاع دیکھ لیجیے۔ 

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مخالفت برائے مخالفت کے عادی ہوجانے کے خوف سے قابل تنقید عمل پہ اظہار رائے بھی ختم ہوجائے۔ جو چیز واقعتاً غلط نظر آئے اس پہ تنقید اور جو کام اچھا دکھائی دے اس کی تعریف ضروری ہے۔ مثلاً خان صاحب کی حکومت نے درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا جو ایک قابل تعریف عمل ہے۔ خان صاحب کی حکومت نے سادگی اپنانے کا اعلان کیا بہت اچھی بات ہے۔ لیکن دوسری جانب خان صاحب کے وزیر اعلی جہاز میں جھولے کھانے نکل پڑتے ہیں وہ غلط ہے۔ خان صاحب خود ایک ہے شہر میں بذریعہ ہیلی کاپٹر میں پھرتے ہیں یہ بھی غلط ہے۔ جب آپ نے سادگی کے چکر میں دو گاڑیاں استعمال کرنے کا اعلان کیا تو اس پر عمل بھی کریں۔ 

اسی طرح حال ہی میں ایک فیصلہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والے عاطف میاں کو معاشی ایڈوائزری کاؤنسل میں شامل کرنے کا ہے۔ یہ قضیہ ماضی میں بھی اٹھ چکا ہے جب خان صاحب نے عاطف میاں کو اپنی آنے والی حکومت میں عہدہ دینے کا عندیہ دیا تھا، تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے آنے والے احتجاج کے بعد خان صاحب اپنی اس خواہش سے یو ٹرن مار گئے تھے۔ میرا اعتراض اسی یو ٹرن پر ہے۔ 

قادیانیت کے مسئلے پر میں ایک مضمون  (https://www.mukaalma.com/10913)پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ قادیانی پاکستان کے آئین کی رو سے ایک اقلیت ہیں اور میرے ذاتی تجربے کے مطابق انتہائی محب وطن، فوج سے عشق میں مبتلا اور تحریک انصاف کی خیر خواہ اقلیت ہیں۔ یوں بحیثیت اقلیت عاطف میاں کو اس کاؤنسل میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ معاملات کو دیکھنے کا یہ سیکولر ڈھنگ ہے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جس طرح عاطف میاں کو اس کاؤنسل میں شامل کرنا موجودہ حکومت کا استحقاق ہے بعینہ اسی طرح کسی قسم کے فارم میں تبدیلی کرنا پچھلی پارلیمان کا حق تھا۔ ایک لمحے کو مان بھی لیا جائے کہ کسی ایک جانب نے چپکے سے فارم میں تبدیلی کی کوشش کی تب بھی یہ حق قانون ساز اسمبلی کو ہمیشہ حاصل رہتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون میں تبدیلی کر سکے۔ یہ قانون کسی بھی طرح ریپبلک کے اساس اصولوں کے خلاف جائے تو سپریم کورٹ کا راستہ موجود ہے۔ یوں کسی شہری کو عاطف میاں کی تعیناتی پہ کوئی اعتراض ہے تو سپریم کورٹ کا راستہ پکڑے۔ ایسے ہی جس کسی کو کسی بھی قانون میں مبینہ تبدیلی کا شک تھا وہ سپریم کورٹ جاتا۔ 

تب آپ نے ایک گھناؤنے کھیل میں حصہ ڈالا اور ختم نبوت کے نام پر شیخ رشید جیسے “بازاری دودھ کے خریدار” کو مجاہد کا درجہ دے ڈالا۔ آج اپنی دم پہ پیر آیا تو آپ کو سیکولر بنیادوں پہ استوار کیے گئے خطوط یاد آگئے؟ تب آپ خادم حسین رضوی کے دھرنوں کی توجیہات دیا کرتے تھے آج آپ رضوی کنٹینر کو میڈ میکس کے ٹرکوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

مؤدبانہ انداز میں عرض ہے مکافات عمل آج کل بہت جلدی ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ شاید آپ کو اب تک یہ بات سمجھ آگئی ہوگی اور اگر نہیں آئی تو امید کرتے ہیں کہ جلد آجائے۔ تحریک انصاف کے مقلدین سے تو کوئی خاص امید نہیں کہ گوبر کو گجریلہ بنانے میں ملکہ حاصل ہے البتہ تحریک انصاف بحیثیت جماعت سے خوش گمانی رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے۔ اصول پرستی سیکھنی ہو تو جبران ناصر سے دیکھیے جس نے اصول کی خاطر اپنی سیاسی کیمپین داؤ پر لگا ڈالی مگر مجال ہے جو کسی قادیانی کو گالی دی یا برا بھلا کہا۔ دوسری جانب آپ اپنے یو ٹرنز دیکھ لیجیے جو ماضی میں عاطف میاں کے معاملے پہ آپ لیتے رہے۔ 

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply