ہمارا قومی سوال ؟

قومی مسایل اور انکا حل بعد کی کہانی ہے۔ آزادی کے دن سے لے کر آج تک لفظ “قوم” کی تشریح تک کرنے سے ہم قاصر ہیں اور یہ سوال اتنا آسان ہے بھی نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ھے۔ قوم کی تشریح کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا وقت کی تشریح کرنا مشکل ہے.

ہم میں سے ہر کسی کا یہ ماننا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ قوم کیا ہے۔ اگر زرا دیر کو اختلاف سے پرے مارکسی نقطہ نظر سے قوم کی پیش کردہ اس قدرے موزوں وضاحت کہ “قوم ایک مشترکہ تاریخی طور پر جنم لینے والی کمیونٹی ہوتی ہے جسکی اپنی زبان ،اپنا علاقہ ،ایک مشترکہ معاشی نظام اور اپنی نفسیاتی عادات ہوتی ہیں جو اسکی ثقافت میں اظہار پاتی ہیں” کو ہی لے لیں تو اس تناظر میں ہم “قوم” کی کوئ واضح تشریح پیش کرنے سے قطعآ قاصر ہیں۔ اور یہ ہمارے لئیے مزید مشکل اس لیے بھی ہے کہ ماضی قریب کو ہی اگر دیکھیں تو بر صغیر پاک و ہند پر ہر سامراجی طاقت نے زرو آزمائ کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے پر تگیزی آئے پھر ،فرانسیسی، ولندیزی اور آخر میں برطانوی سامراج نے اس خطے پر اپنا تسلط باآسانی خود ہندوستانی فوجوں کی مدد سے ہی قائم کر لیا اور اس فتح کو انگریز اپنی تاریخ کی آسان ترین فتح لکھتے ہیں. جسکی بنیادی وجہ اس خطے کا اپنا کسی مشترکہ تاریخی پس منظر کا نہ ہو نا ، کثیر المذاہب ہونا، ایک متنوع معاشی نظام اور مشترکہ زبان کا نہ ہو نا تھا۔ انہی بکھری ہوئ راجدھانیوں ،قومیتوں اور مزہبی گروہوں کے درمیان موجود تضادات کو (devide and rule ) کے زریعے مزید ابھار کر انگریز نے اپنا تسلط قائم کر لیا، جسکے بارے میں آج ہمیں یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ انگریز ظالم اور عیار تھا، مگر یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ ہم ہزاروں سال سے کروڑوں کی تعداد میں اس خطے میں رہنے والے باشندے کتنے سادہ اور پسماندہ تھے، جہاں کسی جدید قوم کا وجود تھا نہ ہی کوئ ایسی معاشی و صنعتی اور قومی ترقی تھی جو مغربی سامراجی جارحیت کا مقابلہ کر سکتی.
یہ حرماں نصیب خطہ ہمیشہ سے بیرونی مہم جووں کا میدان جنگ رہا ہے. تاریخ میں یقینا تحقیقی نظریات کامطالعہ بھی ہے اور کائنات کے لطیف علل و مبادی بھی، اسی طرح واقعات کی کیفیت و اسباب کا گہرا علم بھی،یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی دنیائے فلسفہ میں گہری جڑیں ہیں.لیکن بظاہر تاریخ جنگوں ،فاتحین کی شجاعت اور مفتوح حکومتوں کے حالات اور پچھلی صدیوں کے بیتے ہوئے واقعات سے آگے نہیں بڑھتی. اور کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کسی مفتوح نے اپنی تاریخ رقم کرنا چاہی ہو ،اور ایسا ہو بھی جائے تو تاریخ اول درجہ طاقتور اور فاتح کو ہی دیتی ہے. ہماری اس رن بھوم دھرتی نے بھی فاتحیین کا ایک تسلسل جھیلا ہے،پر امن آریاوں سے آغاز ہوا تو سکندر اعظم ،اشوک اعظم،عرب ،غزنوی غوری ،بلبن ،خلجی،تغلق،لودھی اور مغلوں تک کے اس جنگ و جدل پر منبی ادوار کا اختتام انگریزی سامراج پر ہوا.

قانون طاقتور کا ہوتا ہے ،جس قدر ہم نے حکمران دیکھے اتنے ہی مزاہب ، معاشرتی رواج اور ثقافتیں بھی دیکھیں.پے در پے کی اس power transformation نے ہم سے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں جڑت کو دور کیے رکھا. تاریخ میں اس خطے کو ایک وقت ایسا بھی ضرور میسر آیا کہ دنیا کی کل معیشت کا چو تھائ حصہ اس خطے کا تھا مگر انیسویں صدی جسے صنعتی اور تعلیمی انقلاب کی صدی کہا جاتا ھے ،اس دور میں ہندوستان کی صنعتی اور قومی ترقی کی حالت یہ تھی کہ ،1649 میں ابراہیم لودھی اور بابر کے درمیان پانی پت میں لڑی جانے والی جنگ میں استعمال ہونے والی توپ 1857 کی جنگ آزادی میں استعمال کی گئ. ایسا پس منظر رکھنے والے خطے اور آج کی ہماری صوبائ اور علاقائ قومیتوں میں بٹے ہوئے ،ایک مذہب کے بجائے کئ مسالک میں منقسم، لسانی اور نسلی منافرت ،غیر مساویانہ تعلیمی اور ایک کمزوری قومی معاشی نظام کے حامل اس ہجوم کو میں نہیں جانتا کہ کہیں سے کوئ ایسی تعریف مل سکے جس پر ہم بحثیت قوم پورے اترتے ہوں.

جب ہم کبھی اپنے اوپر آمریت جوکبھی اسلامی رجعت پسندی کے لبادے میں آتی ہے اور کبھی ننگ دھڑنگ لبرٹی کے تحفے دے جاتی ہے کو مسلط کر لیتے ہیں اور کبھی ہم ایک جاگیر دار، بورژوا اور سرمایہ دار طبقے کو جو صولت گری اور رعونت میں فرعونیت کو مات دے ڈالیں ، دانستہ طور پر رکھی گئ غریب اور باہم دست و پا اور تقسیم در تقسیم قوم کے خادم سمجھ لیتے ہیں.تو ان سے اگر ہم یہ زخمی رستا ہو قومی سوال پوچھیں تو درحقیقت یہ خود ایک سوال ہے.

مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب “حیات جاوید ” سے کہ 1967 میں جب بنارس کے سر بر آوردہ ہندوں نے سرکاری عدالتوں میں اردو زبان اور فارسی رسم الخط کو مو قوف کرانے اور اسکے بجائے بھاشا زبان جو دیونا گری میں لکھی جائے کو نافذ کروانے کی کوشش کی تو سر سید احمد خان نے، جنکی بر صغیر کے تمام با شندوں کے لیے تعلیمی خدمات یکساں طور پر تھیں، اس قومی تعصب اور بد نیتی کو محسوس کر لیا اور پہلی بار بنارس کے کمشنر مسٹر شیکسپئیر سے ہندوستانیوں کی تعلیم کے بجائے صرف مسلمان قوم کی تعلیم کے بارے میں بات کی. قائد رح نے پاکستان کا مقدمہ ہی قومیت کے نام پہ لڑا لیکن وہ قوم کوئی پنجابی ،سندھی ،پشتون یا بلوچ نہیں تھی ،وہ مسلمان قوم تھی جن کا مذہب صرف اسلام تھا؛ نہ وہ شعیہ تھے نہ سنی ،نہ حیاتی تھے نہ مماتی۔ وہ ایک اللہ ،ایک رسول اور ایک کتاب پر ایمان رکھنے والی فقط مسلمان قوم تھی، وہ ایک قوم بنے تو انہوں نے اپنے سے زیادہ طاقتور قوموں کا مقابلہ کر کے اپنا مقدمہ جیت لیا.

ہم کس گمان میں ہیں کہ ہم کئی مذہبی اور نام نہاد سیاسی اور جمہوری،اور شخصی آزادی کے نعرے “لبرلزم” کے نام پر اخلاق باختہ گروہوں میں تقسیم ہو کر ، عصبیت کو پروان چڑھا کر کمزور کا استحصال کرنے والے سمراٹوں کے معاون بن کر ایک متحد قومیت کی بنیاد پر حاصل کی گئ مملکت اور اسکی قومی اسلامی شناخت کو بر قرار رکھ سکتے ہیں. کیا برطانوی راج نے بخوشی ہمیں آزاد کر دیا تھا ؟ تو پھر آج ہم ایک سامراج کے ہاتھوں خود کو کیوں گروی رکھے ہوئے ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ انہی قوموں کے حالات بدلتا ہے جو خود اپنے حالات بدلنا چاہیں.کیا ہم اپنی اصلاح کر کے کسی مصلح کو پیدا نہیں کر سکتے ؟جسکی خود قائد رح نے بھی دعا کی جب اس قوم کو کسی مجاہد کی ضرورت پڑے تو اللہ اسے خود عطا فرما دے. ایک تعلیم یافتہ باشعور اور متحد مسلمان قوم ہی بننا ہمارا قومی سوال ہے،جسکے حل کے ساتھ ہی تمام قومی مسائل کا حل مشروط ہے.بصورت دیگر قومی نفاق اور اخلاقی تنزلی کا سفر تو جاری ہی ہے.
یہ سوال ہم عوام کا ہے، اور ہم عوام سے ہی ہے اور ہم عوام کے پاس ہی اسکا جواب بھی ہے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply